Read Urdu Columns Online

8 February Ke Election ko Aik Saal

8فروری کے الیکشن کو ایک سال

اگر کسی کو کچھ یاد نہیں تو میں یاددہانی کے لیے بقول شخصے بتاتا چلوں کہ گزشتہ سال انہی دنوں کی بات ہے جب پوری طاقت، اغوا کاری، چھینا جھپٹی، چھاپے، کریک ڈائون، گرفتاریاں، جان کے لالے اور جان کنی کے ساتھ الیکشنہوئے، صرف یہی نہیں ،اس کے ساتھ ساتھ نہ پارٹی، نہ بلا، نہ بلّے باز۔ نہ جلسہ، نہ جلوس، نہ ریلی۔ نہ انتخابی تقریریں نہ کوریج۔ نہ نام، نہ اذنِ کلام۔جس کے ہاتھ میں PTI کاجھنڈا نظر آیا، اْس کی ایسی تیسی کر دی۔ بزرگوں کو سرِعام پھینٹیاں، تھپڑ، دھکے۔ ایک اکیلی عورت کو ضیا رجیم کے جانشینوں نے ضیا کی طرز پر تین، چار مردانہ ہاتھوں سے درّے برسوائے مگر اْس نے پولنگ ایجنٹ والا بوتھ چھوڑنے سے انکار کر دیا، جس کی وڈیو سوشل میڈیا کے ذریعے ساری دنیا میں وائرل ہوئی۔ وہ صنفِ آہن پوری قوت کے ساتھ لوہے کے ستون سے چپکی رہی۔ سیلولر نظام، موبائل فون، انٹرنیٹ اور مہذب دنیا میں معلومات تک رسائی کے سارے جدید ترین کنکشن کاٹ ڈالے گئے۔ ذرا سوچئے! پاکستان کی تاریخ کا واحد ایسا الیکشن جس میں بارہ کروڑ سے زائد رجسٹرڈ ووٹرز تھے‘ الیکشن 2024ء میں ووٹ کاسٹ کرنے والوں کا تناسب پاکستان کی انتخابی تاریخ کے سارے پچھلے ریکارڈ بریک کر گیا۔ بالکل ویسے ہی، جس طرح طاقت،جبر و استبداد نے پچھلے سارے ریکارڈ توڑے، صرف اس لیے کہ لوگوں کو ووٹ سے مایوس کیا جائے۔ویسے مجھے تو پورا یقین تھا کہ پہلے کبھی ووٹوں کی گنتی درست طریقے سے ہوئی ہے؟ جو اب ہوگی،،، لیکن پھر بھی ایک اْمید لگا لی، کہ شاید یہ عوامی مینڈیٹ کے آگے اپنے آپ کو سرنڈر کردیں،،،مگر ایسا نہ ہو سکا۔ الیکشن 2024ء کسی اور کا تھا اور کسی اور کو دے دیا گیا، اور پھر اس ہٹ دھرمی پرایک سال گزرنے کے بعد آج بھی یہ قائم و دائم ہیں۔ بلکہ یوں کہہ لیں کہ ایک بندے کو روکنے کے چکر میں ہم نے پورا ایک سال ضائع کر دیا۔ آپ امریکیوں کو لاکھ برا کہیں،آپ اْنہیں لاکھ کہیں کہ وہ طاقت کے نشے میں بدمست ہاتھی کی طرح سب کچھ روند رہے ہیں،،، مگر وہاں عوام نے ڈونلڈ ٹرمپ کے بارے میں فیصلہ کیا کہ اْسے اقتدار میں آنا چاہیے،، تو وہاں عوام کے فیصلے کو قبول کیا گیا۔ اور ٹرمپ جیسا بھی ہے، اْسے قبول کیا گیا۔ حالانکہ اْس کے فیصلوں سے جلد یا بدیر معاشی و زمینی جنگ چھڑ سکتی ہے، مگر اْسے کوئی کچھ نہیں کہہ سکتا،،، کیوں کہ اْسے عوام نے منتخب کیا ہے۔ لیکن یہاں فیصلہ کرنے والے انا اور ضد کی جنگ لڑے رہے ہیں،،، نہ وہ جھک رہا ہے اور نہ ان کی ہٹ دھرمی ختم ہو رہی ہے۔ تبھی بانی تحریک انصاف کریڈٹ کے مستحق ہیں جو ڈیڑھ سال سے پابند سلاسل ہیں، اور ان کے آگے جھکا نہیں ہے۔ بلکہ میں تو یہ کہوں گا کہ پہلی بار کسی ٹکر کے بندے سے پالا پڑا ہے۔ہم یہ نہیں کہتے کہ بانی تحریک انصاف سو فیصد ٹھیک ہوں گے، ظاہر وہ انسان ہے، اْن سے غلطیاں بھی ہوئی ہوں گے، مجھے بھی اْس کے کئی سیاسی فیصلوں سے اختلاف رہا ہے،،، لیکن جس طرح بھٹو میں بھی ہزار غلطیاں تھیں اور اْس نے شہادت کا لبادہ اوڑھ کر ساری غلطیوں کو پیچھے چھوڑ دیا تھا بالکل اسی طرح بانی تحریک انصاف نے بھی اپنی ساری غلطیوں کا مداوا کردیا کہ وہ اپنی بات پر قائم رہا اوراْس نے اصول کی سیاست کی۔ کیوں کہ اْسے یہ کریڈٹ جاتا ہے کہ وہ کٹھ پتلی نہیں بنا۔ نہیں یقین تو آپ خود دیکھ لیں کہ بھٹو کے عدالتی قتل کے بعد فیصلہ کرنے والوں کو اتنا ٹف ٹائم کسی سیاستدان نے دیا؟ انہوں نے جسے چاہا حکومت سے نکال دیا، جسے چاہا حکومت میں لے آئے، جسے چاہا Tenureکو کم کر دیا جسے چاہا اقتدار کو طوالت بخشی، مگر ایسا پہلی بار دیکھنے میں آیا ہے کہ گزشتہ ڈھائی تین سال سے ایک بندے کو ہینڈل کیا جا رہا ہے، مگر مجال ہے وہ ان کی جھمیلوں میں آیا ہو، یا جھکا ہو۔ آپ اْس سے لاکھ اختلاف کر سکتے ہیں، مگر یہ بات بھی اْس کی ماننا ہوگی کہ اْس نے عدلیہ کے سیاسی فیصلوں کو بھی سرخم من و عن بخوشی تسلیم کیا ہے۔ لہٰذااب بھی جب کبھی الیکشن ہوتے ہیں تو اگر فارم 47کا سہارا نہ لیا گیا تو اس جیت کی پکی ہے، اور شاید یہ دوبارہ اقتدار میں کبھی آبھی نہ سکیں۔ لیکن اس کے برعکس میں دعوے سے کہتا ہوں کہ اگر آج بھی الیکشن ہوئے تو الیکشن میں ووٹ ڈالنے والے الیکشن ہار جائیں گے اور ووٹ ’’گنتی کرنے والے‘‘ انتخاب جیت لیں گے، اس لیے ہمیں آج کے دن کی مناسبت سے یہ سبق سیکھنا ہوگا کہ سب سے پہلے ووٹروں کی اوقات کو بڑھانا ہوگا۔ یعنی اْنہیں عزت دینا ہوگی،،، پھر آزاد اْمیدواروں کے لیے مناسب فیصلے کرنا ہوں گے،،، کیوں کہ جب آزاد اْمیدوار یہاں جیت جاتا ہے،،، تو پھر خلق خدا کے بجائے یہاں زمینی خدائوں کا راج ہوتا ہے،،، بلین روپوں کے سودے ہورہے ہوتے ہیں،، اگر کوئی تب بھی نہ مانے تو اْس کو فیملی سمیت اْٹھا لیا جاتا ہے۔ اور جو سیاستدان یہاں منظور نظر ہوں،، انہیں وقت سے پہلے وزیر اعظم کا پروٹوکول دے دیا جاتا ہے۔ مفت کے ہوائی جہازوں میں دورے کروائے جاتے ہیں،،، ہیلی کاپٹر، لگڑری کاریں،بلٹ پروف، گاڑیاں، سینکڑوں باوردی اور بے وردی اہلکار سب کچھ دے دیا جاتا ہے۔ اس ’’فیئر اینڈ فری‘‘ اور ’’ٹرانسپیرنٹ ‘‘مقابلے کی ایک خاص بات یہ ہے کہ آج الیکشن کو گزرے ایک سال ہوگیا ہے، ووٹ ڈالنے والوں کی چوائس کو ووٹ گنتی کرنے والوں کی چوائس میں بدلنے کے لیے آپریشن ردّ و بدل اس وقت بھی جاری و ساری ہے۔ بہرکیف ہم نے اس ایک سال میں ملک کے 65فیصد عوام یعنی نوجوانوں کو سخت مایوس کر دیا ہے، اْنہیں اتنا باغی کر دیا ہے، کہ پڑھا لکھا طبقہ بھی آج ملک سے بھاگ رہا ہے۔ حالانکہ یہی بچے تو اصل میں امیدِ پاکستان ہیں، جن کے پاس پچھلی نسلوں سے ماورا صلاحیت، زیادہ اہلیت اور وقت، تینوں بڑھ چڑھ کر ہیں۔ اس لیے فیصلہ کرنے والوں کو پھر ہوش کے ناخن لینے چاہیے، اور عوام کے مینڈیٹ کا احترام کرتے ہوئے سب کچھ عوام پر چھوڑ دینا چاہیے،،، ورنہ کچھ نہیں بچے گا۔ اور جب کچھ نہیں بچتا تو پھر ملک سفر کرتاہے،،، ہم پہلے ہی دنیا سے کم از کم 40سال پیچھے ہیں تو کیا ایسے فیصلے کرنے سے ہم مزید پیچھے نہیں رہ جائیں گے؟

Check Also

Read Urdu Columns Online

Ye Hua Kia Aur Kaise Ho Gaya

یہ ہوا کیا اور کیسے ہوگیا ہزاروں سال سے یہ روایت چلتی آرہی ہے کہ …

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *