Read Urdu Columns Online

India Hate Lab By Asif Mehmood

کیا ’مطالعہ پاکستان‘ کے مقامی ناقدین کرام نے انڈیا ہیٹ لیب کی تازہ ترین رپورٹ کا مطالعہ کیا ہے؟ یہ رپورٹ نے واشنگٹن سے10 فروری کو جاری کی ہے۔ اس کے مندرجات ان تمام حضرات کو دعوت فکر دے رہے ہیں جو وداع ہوش کی مجبوریوں میں جب بھی مضمون باندھتے ہیں ، نشانے پر پاکستان ہوتا ہے۔ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ بھارت میں مسلمانوں ( اور مسیحیوں )کے خلاف نفرت آمیز مواد میں سال 2024 میں 74 اعشاریہ 4 فی صد اضافہ ہوا ہے ۔ اس سے بظاہر یہ تاثر ملتا ہے کہ چونکہ یہ سال بھارت میں الیکشن کا سال تھا تو شاید اس کی وجہ یہ رہی ہو لیکن ایسا نہیں ۔ رپورٹ بتاتی ہے کہ ان تمام واقعات کا صرف 32 فی صد وہ تھا جو الیکشن کے دنوں میں پھیلایا گیا اور باقی سب کچھ اس کے بعد کی بات ہے۔ ہمارے ہاں بعض اہل دانش بھی اس کی یہی توجیح پیش کرتے ہیں کہ بھارت میں الیکشن کے دنوں میںمسلمانوں کے خلاف نفرت پھیلائی جاتی ہے اور اس کے بعد نظام زندگی معمول پر آ جاتا ہے۔ یہ رپورٹ اس خوش فہمی یا غلط فہمی کی تردید کر رہی ہے۔ تا ہم تھوڑی دیر کے لیے ،الیکشن والی بات کو ہی اگر درست تسلیم کر لیا جائے تو سوال یہ ہے کہ الیکشن میں کون سی بات کی جاتی ہے ؟ وہی جو عوام کو پسند آئے ۔ تو جس ملک میں الیکشن مسلمان دشمنی پر لڑا جاتا ہو اس کی جمہوری اقدار کو کیا کسی مزید مطالعے کی حاجت ہے؟ پاکستان میں تو الیکشن آپ ہندو دشمنی کی بنیاد پر نہیں لڑ سکتے۔ اکا دکا واقعات ہو جائیں تو الگ بات ہے لیکن کیا کوئی بڑی سیاسی جماعت اس نفرت کی بنیاد پر ہمارے ہاں الیکشن میں اتر سکتی ہے؟ ظاہر سی بات ہے اس کا جواب نفی میں ہے۔ تو پھر کون سا معاشرہ جنونی اور تنگ نظر ہوا؟ نفرت اور دشمنی پر مبنی بیانیے کے نشانے پر اگر چہ مسیحی برادری بھی رہی تا ہم رپورٹ کے مطابق اس کا تناسب نہ ہونے کے برابر ہے اور 98 اعشاریہ 5 واقعات میں مسلمانوں ہی کو نشانہ بنایا گیا۔ ہمارے ہاں ابوالکلام آزاد صاحب کے مداح یہ بتاتے ہیں کہ چونکہ پاکستان بنایا گیا تھا اس لیے ہندوئوں میں ہمارے خلاف دشمنی کے جذبات پیدا ہو گئے ورنہ ہم مل جل کر رہ سکتے تھے۔ رپورٹ اس خوش فہمی کی بھی نفی کرتی ہے اور وہ بتاتی ہے کہ اس نفرت کی وجوہات کچھ ا ور ہیں اور لوگوں کو بتایا جاتا ہے کہ یہ مسلمان پیراسائٹ ہیں جو باہر سے حملہ آور ہوئے اور ان سے دھرتی کو صاف کر دینا چاہیے۔ یعنی نفرت کی یہ بنیاد تقسیم برصغیر میں نہیں ہے۔ اس سے بہت پہلے ہے۔ پاکستان نہ بنتا تو سارے مسلمان اس عذاب سے گزرتے جس سے اب ہندوستان کے مسلمان گزر رہے ہیں۔ ہندو شائونزم کی نفسیات 1947 میں پیوست نہیں ہیں۔ یہ معاملہ بہت پیچھے تک جاتا ہے۔ مسلمانوں کے خلاف یہ نفرت آمیز مہم کوئی دوسرے یا تیسرے درجے کی سیاسی یا مذہبی جماعت نہیں چلا رہی بلکہ اس پیچھے حکمران جماعت اور بھارتی وزیر اعظم خود کھڑے ہیں۔ رپورٹ کے مطابق 80 فی صد واقعات ان ریاستوں میں رونما ہوئے جہاں بی جے پی کی حکومت تھی۔نہ صر ف یہ کہ بی جے پی نے اسے روکا نہیں بلکہ اس نے اس سارے عمل کی سرپرستی کی۔ مسلمانوں کے خلاف نفرت آمیز تقریریں کرنے والوں کی فہرست بھی قابل غور ہے۔ یہ فہرست بتاتی ہے کہ نفرت کے اس کھیل کا اصل کھلاڑی کون ہے۔ پہلے نمبر پر اتر پردیش کے وزیر اعلی یوگی ادتیا ناتھ رہے جنہوں نے 86 تقاریر میں مسلمانوں کے خلاف زہر اگلا۔ دوسرے نمبر پر وزیر اعظم مودی تھے جنہوں نے مسلمانوں کے خلاف 67 نفرت انگیز خطاب فرمائے۔ تیسرے نمبر پر ہوم منسٹر امیت شا رہے۔ ان کی مسلمان دشمن تقاریر کی تعداد 58 رہی۔ چوتھے نمبر پر آسام کے وزیر اعلی بسما سرما رہے۔ ان کے مسلم دشمن خطابات کی تعداد 36 تھی۔ جس ملک میں اس سطح کے لوگ وحشت کا شکار ہو چکے ہوں اس ملک میں مسلمانوں کی زندگی کیسی ہو گی؟ اس کا شاید درست تصور کیا ہی نہ جا سکے کیونکہ بھارت ان ممالک میں شامل ہے جہاں جمہوریت کے باوجود حقیقت حال کم ہی سامنے آتی ہے اور بہت کچھ ابھی تک نا گفتہ ہے۔ یہ نفرت آمیز مہم اپنی نوعیت میں کتنی سنگین تھی ، رپورٹ میں اس پر بھی تفصیل سے بات کی گئی ہے۔ بتایا گیا ہے کہ ان میں سے 22 فی صد واقعات ایسے تھے جن میں لوگوں کو مسلمانوں کے خلاف باقاعدہ تشدد اور انتہائی اقدامات پر اکسایا گیا ۔ 23 فی صد مواقع پر لوگوں کو اس بات پر اکسایا گیا کہ وہ مسلمانوں کی املاک اور مساجد کو تباہ کر دیں اور ان پر قبضے کر لیں۔اس جرم پر لوگوں کو اکسانے والے مقررین کا 84 فی صد سیاست دانوں پر مشتمل تھا۔رپورٹ کے مطابق 2024 میں مسلمانوں کی عبادت گاہوں پر حملوں کی ترغیب دینے والی نفرت آمیز تقاریر میں 62 فی صد اضافہ ہوا۔ مسلمانوں کے خلاف نفرت آمیز ان تقاریر کا 10 اعشاریہ 6 حصہ ان تقاریر پر مشتمل تھا جن میں ہندوئوں سے کہاا گیا کہ وہ خود کو مسلح کریں تا کہ مسلمانوں سے نبٹا جا سکے۔رپورٹ کے مطابق ہندوئووں کو مسلح ہونے کی ترغیب میں اس سال 23 فی صد اضافہ ہوا۔ رپورٹ کے مطابق یہ تقاریر ، یہ بیانات ، یہ تقاریب ، یوٹیوب ، فیس بک ٹویٹر وغیرہ پر چلائی گئیں ، نفرت آمیز مواد وہاں شیئر کیا گیا اور حیران کن طور پر یہ سارا مواد کمیونٹی سٹینڈرڈز کی زد میں آنے سے بچا رہا اور اسے ہٹایا نہیں گیا۔ ( یہ وہی الگوردم کی واردات ہے جس پر ان سطور میں بار ہا لکھا جا چکا ، دلچسپ بات یہ ہے کہ رپورٹ نے بھی اسے الگوردم کی ہنرکاری قرار دیا ہے)ْ۔رپورٹ بتاتی ہے کہ شکایات کے بعد صرف 3 فی صد مواد ہٹایا گیا۔ باقی ویسے ہی موجود ہے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *