تماشا مرے آگے
مرزا غالب نے کہا تھا: “بازیچہ اطفال ہے دنیا مرے آگے۔۔۔۔۔۔ ہوتا ہے شب و روز تماشا مرے آگے”. بلا شبہ امریکہ میں ڈونلڈ ٹرمپ کے صدر آنے کے بعد بڑی تبدیلیاں رونما ہو رہی ہیں اور نہ صرف مختلف خطرناک تبدیلیوں کے خدشات جنم لے رہے ہیں بلکہ عملاً ایسے خدشات بھی سچ ہوتے نظر آ رہے ہیں۔ مستقبل قریب میں دنیا کے اندر بڑے ممالک کے درمیان جنگیں ہو سکتی ہیں! سب جانتے ہیں کہ موجودہ دور میں جنگیں ماضی کی جنگوں کی طرح نہیں ہونگی، اس میں ٹیکنالوجی کا بھرپور استعمال ہوگا۔ مختلف ممالک اور خاص طور پر ترقی پذیر ممالک کی معیشتیں تباہ ہونگی اور سارا نزلہ عام آدمی پر گرے گا جبکہ دنیا بھر میں اس طرح کے حالات کے باعث آمریتوں کے فروغ پانے کو بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ شائد یہی وجہ ہے: چائنہ کے صدر شی جن پنگ نے ورچول ڈیوس فورم میں دنیا کے لیڈرز کو نیو کولڈ وار (نئی سرد جنگ) کے حوالے سے خبردار کرتے ہوئے کہا ہے کہ جس طرح دنیا میں کورونا وائرس آیا تھا، اگر دنیا میں اتحاد کے فارمولے کو نہ اپنایا گیا تو پھر نیو کولڈ وار کے خدشات کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ چین کے صدر نے دنیا کو میکرو اکنامک پالیسی کو بڑھانے، کوارڈینیشن کرنے اور جی 20 اکنامک گورننس کے رول کو بڑھانے پر زور دیا ہے تاکہ کورونا جیسی قدرتی آفات سے مل کر نمٹا جاسکے۔ انہوں نے چائنہ کی پوزیشن کو ورلڈ آرڈر کے تناظر میں اہم کھلاڑی قرار دیا کیونکہ امریکہ ان کے مطابق تاحال کورونا کے اثرات سے باہر نہیں نکل سکا۔انہوں نے دنیا کو یہ بھی مشورہ دیا کہ اپنے آپ کو تعمیر کریں نہ کہ دوسروں کو دھمکا کر تقسیم پیدا کرتے ہوئے نئی سرد جنگ کو شروع کریں۔ انہوں نے خبردار کیا کہ مزاحمت صرف End Dead پر لے کر جائے گی۔ امریکہ کا نام لیے بغیر انہوں نے کہا کہ دنیا اس صدی کی سب سے بڑی تبدیلی سے گزر رہی ہے اور اب جدت کو اپنانے، اپنے آپ کو تبدیل کرنے اور ترقی کرنے کا وقت ہے۔ جرمنی الیکشن میں کامیاب ہونے والے فریڈرک مرز (جن کے ماضی کی وجہ سے انھیں نازی سوچ کا حامل کہا جاتا ہے) نے تو امریکہ کو اپنے اتحادیوں سے منہ موڑنے پر خبردار کیا اور یورپی ممالک کو اپنا ڈیفنس سسٹم خود مضبوط کرنے کا مشورہدیا۔ دراصل جرمنی کی بزنس کمیونٹی عالمی سطح پر مسابقتی حالات کا مطالبہ کر رہی ہے لیکن ٹرمپ انتظامیہ روس سے یوکرین کے مسئلے پر ڈیل کرنے کے علاوہ ٹیرف بڑھانے کی دھمکیاں دے رہی ہے۔ بھارتی وزیراعظم نریندر مودی اپنے دورہ امریکہ کے دوران اس کا خامیازہ بھگت چکے ہیں۔اب بھارت کو امریکہ سے تیل، گیس کے علاوہ وہ تمام جنگی آلات خریدنے ہونگے جو امریکہ سمجھے گا کہ اسے بھارت کو بیچنے چاہیئں تاکہ اس کا تجارتی خسارہ کم ہو سکے ۔تل ادیب میں فلسطین کے مغربی کنال پر اسرائیل کی موجودگی پر اور ڈنمارک میں نجی میری ٹائم کمپنی کی جانب سے اسرائیل کو اسلحہ سپلائی کرنے پر احتجاج کی پاداش میں 20 افراد کی گرفتاری، بنگلہ دیش میں حسینہ واجد کی حکومت کے خاتمے کے بعد طلبہ تحریک کی طرف سے اپنی نئی سیاسی جماعت بنانے کی تیاریاں، پاکستان کے سیاسی حالات، شام میں بشار الاسلام کی حکومت کے خاتمے کے بعد نیشنل ڈائیلاگ کانفرنس اور اس میں استحکام کی باتیں، اس سے قبل سری لنکا کے حالات؛ یہ سب واضح کرتے ہیں کہ یا تو مختلف ممالک میں آمریتوں کی طرز پر حکومتیں چلائی جا رہی ہیں یا عوام ان آمریتوں کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے ہیں۔ یہ حالات شاید کسی بھی ملک کی معیشت کیلئے بہتر نہیں، تاہم اقوام متحدہ کے سربراہ انتونیو گوتریس نے خبردار کیا ہے کہ دنیا بھر میں انسانی حقوق کا دم گھٹ رہا ہے۔ جنگوں اور تشدد میں آمروں کی طرف سے اپوزیشن کو کچلنا معمول ہے۔ بین الاقوامی قانون کو پامال کیاجا رہا ہے، ایک ایک کر کے انسانی حقوق کا گلا گھونٹا جا رہا ہے ،مطلق العنان اپوزیشن کو کچل رہے ہیں کیونکہ وہ ڈرتے ہیں کہ واقعی بااختیار لوگ کیا کریں گے۔ اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے سربراہ وولکر ترک نے بھی کہا کہ دنیا میں آمروں کا دور دوبارہ آ سکتاہے جو انتہائی خطرناک ہے، انہوں نے کہا کہ ماضی میں طاقت کا بے لگام استعمال، شہریوں پر اندھا دھند حملے، آبادی کی منتقلی اور چائلڈ لیبر ایک عام سی بات تھی۔ ڈکٹیٹر ظالمانہ جرائم کا حکم دے سکتے تھے، جس میں بڑی تعداد میں لوگوں کو موت کے گھاٹ اتارا جا سکتا تھا، وولکر ترک نے اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل کو بتایا کہ خبردار رہو، ایسا دوبارہ ہو سکتا ہے۔انہوں نے کہا: بین الاقوامی نظام ٹیکٹونک تبدیلی سے گزر رہا ہے ، انسانی حقوق اس سے پہلے کبھی بھی اتنے دبائو میں نہیں آئے۔انسانی حقوق پر عالمی اتفاق رائے آمروں، طاقتوروں کے بوجھ تلے دب کر گر رہا ہے ، وولکر ترک نے کہا کہ مطلق العنان اب دنیا کی معیشت کے ایک تہائی حصے پر قابض ہیں جو 30 سال پہلے کے تناسب سے دگنا سے زیادہ ہے۔ ٹرمپ انتظامیہ جہاں یہ سوچ رہی ہے کہ وہ امریکہ کو ایک مرتبہ پھر عظیم ریاست بنائے وہاں اس کی پالیسیز کے باعث پوری دنیا میں آمریت کا دور دورہ شروع ہونے کے خدشات ظاہر کئے جا رہے ہیں جیسا کہ مرزا غالب نے کہا تھا بازیچہ اطفال ہے دنیا مرے اگے، شاید ڈونلڈ ٹرمپ بھی سوچتے ہوں کہ ہوتا ہے شب و روز تماشہ مرے اگے! مگر یاد رکھا جائے یہ تماشا نہیں پوری دنیا میں کروڑوں اربوں انسانوں کی زندگیوں کی بقا اور جمہوریت کے ساتھ ساتھ انسانی تحفظ کے اہم ترین جز ہوں گے، جسے امریکہ سفید ہاتھی بن کر ڈھا دے گا۔ ذہن نشین رہے: اس وقت دنیا صدی کی سب سے بڑی تبدیلی سے گزر رہی ہے جس کی طرف چائنہ کے صدر شی جن پنگ نے بھی اشارہ کیا ہے، اگر ٹرمپ انتظامیہ باز نہ آئی تو امریکہ بھی آئندہ دنیا کی سپر پاور نہیں رہے گا!