چھیاسی سال کا تارڑ
چند سال پہلے کی بات ہے کہ ہمارے قریبی و قلبی احباب کا ایک باذوق اور آوارگی پسند گروہ لاہور کی کشاکش سے وقتی کنارا کشی اختیار کر کے عَشا عَش کے لیے مظفر آباد کی بلندیوں پہ واقع ہوٹل ہیون اِن ہِلز (Heaven in Hills) میں، اگلی وادیوں کے لیے چشم و دل وا اور حوصلے افزا کرنے کے عزائم کے ساتھ مقیم تھا۔ رات کے کھانے کے بعد ہوٹل کے دل فریب ٹیرس پہ گیت، سنگیت، شاعری، لطائف، جگت پانی، چائے، کافی اور مزید کافی کچھ کے ساتھ ایسی محفل جمی کہ ستاروں کی تنک تابی پَو پھٹنے کا اعلان کرنے لگی۔ ہمارے ایک لندن پلٹ دوست فرمانے لگے کہ یہاں چونکہ زیادہ تر دوستوں کا تعلق شعر و ادب سے ہے، اس لیے اِس سہانی رات کے دیکھتے ہی دیکھتے دن میں ڈھلنے کی اس روح افزا طلسمی کیفیت پہ کوئی فی البدیہہ شعر ہو جائے۔ چنانچہ ایک دو خواتین کے ساتھ ساتھ جس شعر نے میرے ذہن دریچے پہ بے ساختہ دستک دی، وہ کچھ یوں تھا: شب پہ فتح پانی ہے آرزو جگانی ہے میری اور سورج کی ایک ہی کہانی ہے بعد میں کئی اشعار خود ہی اس مطلع کو مُطلع کیے بغیر وارد ہوتے چلے گئے، جن میں ایک دو قابلِ ذکر اشعار یہ تھے: جب بھی ملنے آؤ گے دو اُمور لازم ہیں داستان سننی ہے ، داستاں سنانی ہے اَس کا جو سراپا ہے ، کب کسی نے ناپا ہے سرسراتا جوبن ہے ، سر پھری جوانی ہے اگر غور کریں تو اُس بھور سمے اور پھر ہور سمے نازل ہونے والے ان شعروں میں داستان اور کہانی کا عنصر نمایاں ہے۔ اس سے یہ بات بھی عیاں ہے کہ انسانی فکر جب ترنگ اور اُمنگ پہ ہوتی ہے تو وہ کہانی سننے اور کہانی کہنے پہ مائل ہوتی ہے۔ ویسے بھی کہانی کا خمیر انسانی فطرت میں خصوصی طور پر گوندھا گیا ہے۔ کہانی کے رنگ میں رنگی ہوئی بات اس کو خاص مرغوب ہے۔ یہی وجہ کہ قادرِ مطلق نے بھی انسان کو اس کا ماضی اور مزاج سمجھانے کے لیے اکثر و بیشتر کہانی ہی کا رُوپ سروپ اختیار کیا ہے۔ ویسے تو ہمارے اِردگرد چلتا پھرتا ہر انسان اپنی طرز کی ایک الگ کہانی ہے، فرق وہی ہے جسے لمحۂ موجود کے خوبصورت شاعر اظہر عباس نے نہایت آسانی سے سمجھا دیا ہے: مِری کہانی ، تِری کہانی سے مختلف ہے کہ جیسے آنکھوں کا پانی ، پانی سے مختلف ہے آپ دنیا بھر کے بڑے ادب پہ نظر ڈال لیں، ہر جگہ کہانی کا کوئی ثانی نہیں۔ کسی بھی زبان کا بڑا کہانی کار پہلے ادب کے افلاک پہ عظمت کا ستارہ بن کے چمکتا ہے اور پھر شہرتِ دوام کے دربار میں سرمدیں استعارہ بن کے بیٹھ جاتا ہے۔ اُردو زبان کی یہ کتنی بڑی خوش قسمتی ہے کہ اسے پریم چند کے بعد منٹو، کرشن چندر، بیدی، مفتی، بلونت، عبداللہ حسین، قرۃ العین حیدر اور مستنصر حسین تارڑ نصیب ہوئے۔ پھر ہماری کیسی شادکامی ہے کہ ہمارا یہ بیسویں اور اکیسویں صدی کے آفاق پہ چھایا ہوا افسانوی اور سفری کہانی کا شہزادہ چھیاسی سال کی عمر میں بھی تروتازہ ہے۔ اس وقت ہماری سیاست، ہمارا ادب، ہمارا معاشرہ بدنصیبی کے گھوڑے پہ سوار ہے اور کون نہیں جانتا کہ بدنصیبی کا گھوڑا، خوش نصیبی کے گھوڑے سے زیادہ رفتار سے بھاگتا ہے۔ اس میں بھی کوئی شک نہیںکہ اس گھوڑے کو ایڑی لگانے میں کرپٹ سیاست دان، مطلبی مُلّاور جاہل عوام کے ساتھ ہمارا لالچی ادیب بھی پیش پیش ہے۔ ہمارا یہ نام نہاد قلم کار معدے کی نسلوں کی بھوک اور شہرت کی بے لگام ہوس مٹانے کے لیے حرف کی حُرمت کے درپے ہے۔ اس کی نظر ادب کے مستقبل پہ کم، اور سرکاری اداروں کے بجٹ پہ زیادہ ہے۔ بامعاوضہ مشاعروں اور منھ مانگے مشاہروں کے حصول کے لیے وہ تمام اخلاقی حدود پار کر جاتا ہے۔ پھر نمک حلالی کے لیے وہ قلم کی مشقت سے سارا زور ، سیاسی و اخلاقی طور پر زیرو کو ہیرو ثابت کرنے میں صرف کر دیتا ہے۔ سرکاری اعزازات اور درباری مناجات کے لیے ’حاجی بگویم اور مُلّا بگو‘ قسم کے گروہ بنائے جاتے ہیں۔ عہدوں کے اس ہُڑک میں وہ شُہدوں سے بھی بازی لے جاتا ہے۔ ہوس کا پیٹ پھر بھی نہیں بھرتا۔ آج کل سوشل میڈیا پہ ایک مقبول و مرحوم شاعر کی ایک نظم وائرل ہے، جس میں وہ نہایت حسرت سے اپنے اوپر زندگی کے سارے دروازے بند ہونے کی شکایت کرتے ملتے ہیں۔ جہاں تک مجھے یاد پڑتا ہے موصوف مرتے دم تک ایک سرکاری ادارے کے بلا شرکتِ غیرے وارث و قابض رہے۔ لاہور کے پوش ایریا میں واقع سرکاری دفتر کو اپنا ذاتی ڈیرہ بنا کے ہر ذاتی مقصد کے لیے استعمال کیا۔ ہر سرکاری، درباری بامعاوضہ مشاعرے کی عزرائیل سے سامنا ہونے تک صدارت فرمائی۔ کوئی سرکاری اعزاز اور ایوارڈ اِن سے بچ کے نہ جا سکا بلکہ بعض ایسے ایوارڈ بھی وصول کرنے میں عار محسوس نہیں کی، جس کی جیوری میں وہ خود بھی شامل تھے۔ جاتے جاتے اپنے پسماندگان و وابستگان کو بھی یہ ہنر سکھا گئے کہ عزت آنی جانی شے ہے، عہدے اور مفاد سے چمٹے رہنا ہی اصل کامیابی ہے اور اس کے لیے جیسے تیسے سیاست دانوں کے قصیدے، حاضر سروس افسران کی خوشامد نیز اردا گرد کے غرض مندان اہلِ قلم کی ضرورت کا پیٹ چھوٹی موٹی تقریبات و ترغیبات سے بھرتے رہنا بھی ازحد ضروری ہے۔ چنانچہ سانس کی ڈور ٹوٹے تو ٹوٹے، حرص کی رسی دراز سے دراز ہوتی رہنی چاہیے۔ اس کے بعد بھی وہ پتہ نہیں کون سے دروازے کھلوانا چاہتے تھے؟ یقین جانیںایسے میں مستنصر حسین تارڑ جیسے معقول، خاندانی اور رَجے پُجے ادیبوں کا دَم غنیمت ہے، جنھوں نے ساری عمر قلم اور آواز کی مزدوری سے شہرت و عظمت کی چُوری کھائی۔ جٹ زمیندار ہونے کا ایک فائدہ تو یہ ہوتا ہے کہ بندہ اپنی ’مَیں‘ نہیں مرنے دیتا۔ اَنا اور اَنکھ کی جی جان سے پرورش کرتا ہے۔ ظرف کا شرف اسے قدرتی طور پر ودیعت ہوتا ہے۔ فصلوں کی قربت اسے بے نسلا نہیں ہونے دیتی۔ اسے جگہ جگہ خوشامد کی قرولیاں نہیں کرناپڑتیں۔ وہ بدبودار طبقوں کے کرتوتوں کی وکالت کر کے الفاظ کی بے حرمتی نہیں کرتا۔ وہ بندہ مار سکتا ہے، پِتّا مار سکتا ہے، چھوٹی چھوٹی چَولیں نہیں مارتا۔ اسے نام کے ساتھ غرض کے تمغے لگا کے کم ذات کا ہم ذات بننے کی ضرورت پیش نہیں آتی۔ یہاں تو کوئی پیر کے دن پیدا ہو کے پیرزادہ بن جاتا ہے۔ کسی کو رات کے اندھیرے میں بھی کوئی صاحب کہہ دے تو اولاد نرنے ہاں صاحبزادہ کے منصب پہ فائز ہو جاتی ہے۔ اُردو پنجابی ناول میں وہ کتنوں کو پیچھے چھوڑ گیا، سفرناموں میں وطنِ عزیز کی حسین وادیوں، علاقوں کو متعارف اور دریافت کرنے میں کوئی اس کی خاک کو بھی نہیں پہنچتا ہے۔ اس کی کالم نگاری سے کسی کرپٹ سیاسی پارٹی کی ہُمک نہیں آتی۔ ٹی وی کے ہر چَینل پہ کلبلاتے فجری پروگرام اسی کے لگائے ہوئے شجر کی نوخیز قلمیں ہیں۔ حرف و صوت کی توقیر افزائی کرنے والے ایسے قلم کار کے لیے کسی ایسے اعزاز یا ایوارڈ کا اجرا لازم ہے، جس سے حرف کی حرمت اور اس سرزمین سے وفاداری کی خوشبو آتی ہو۔