اس دنیا میں انسان اپنی دنیا بنانے کی دھن میں مگن رہتا ہے اور یہ بھول جاتا ہے کہ وہ جو کچھ کر رہا ہے دوسروں کے لیے کر رہا ہے اور اپنی کامیابی جو ابدی اور کبھی نہ ختم ہونے والی زندگی کے لیے ہے اس پر کام کرنے میں ناکامی اس کی مکمل ناکامی ہو گیاور اسے اپنے ساتھ لے جانے کے لیے اپنے کردار کی پاکیزگی اور عمل ہی کامیاب کر سکتا ہے جس کے لیے آج چند احادیث پیش خدمت ہیں ساتھ انکی تشرئح بھی بیان کر دی ہے اللہ کے نبیؐ کی زندگی ہی ہمارے لیے مشعل راہ ہے اورہمیں اسی پہ چل کے منزل تک جاناہے
’’ حضرت غضیف بن حارث الثمالی (رض) (اسم گرامی غضیف ابن حارث شمالی ہے اور کنیت ابواسماء ہے آپ صحابی ہیں اور انصار سے ہیں)۔ راوی ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا جب کوئی قوم (دین میں) نئی بات نکالتی ہے (یعنی ایسی بدعت جو سنت کے مزاحم ہو) تو اس کے مثل ایک سنت اٹھالی جاتی ہے۔ لہٰذا سنت کو مضبوط پکڑنا نئی بات نکالنے (بدعت) سے بہتر ہے۔‘‘ (مسند احمد بن حنبل)
تشریح :
سنت پر عمل کرنا اگرچہ وہ معمولی درجہ کی ہو بدعت پیدا کرنے اور بدعت پر عمل کرنے سے بہتر ہے اگرچہ وہ بدعت حسنہ ہو اس لیے کہ سنت نبوی کے اتباع و پیروی سے روح میں جلا پیدا ہوتا ہے جس کے نور سے قلب و دماغ منور ہوتے ہیں اس کے برخلاف بدعت ظلمت و گمراہی کا سبب ہے مثلا بیت الخلاء میں آداب سنت و شرع کے مطابق جانا، سرائیں بنانے اور مدر سے قائم کرنے سے بہتر ہے۔ کیونکہ اگر کوئی آدمی ان آداب کی رعایت کرتا ہوا بیت الخلاء جاتا ہے جو حدیث سے منقول ہیں تو وہ سنت پر عمل کرنے والا کہلائے گا۔ برخلاف اس کے کہ اگرچہ مدر سے قائم کرنا اور خانقاہیں بنانا بہت بڑا کام ہے۔ لیکن چونکہ وہ بدعت حسنہ ہے، اس لیے اس معمولی سی سنت پر عمل کرنے والا اتنے بڑے کام کرنے والے سے افضل ہوگا اس لیے کہ آداب سنت کا خیال کرنے والا اور سنت کی پیروی کرنے والا مقام و عروج اور قرب الہٰی کی طرف ترقی کرتا ہے مگر سنت کو ترک کرنے والا مقام علیا سے نیچے گرتا ہے۔ نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ ایسی چیزیں جو افضل و اعلیٰ ہوتی ہیں وہ انھیں ترک کرتا رہتا ہے یہاں تک کہ ایک مقام آجاتا ہے کہ وہ قساوت قلبی کے مرتبہ کو پہنچ جاتا ہے جسے رائن اور طبع کہتے ہیں۔
سید جمال الدین سے بھی یہی منقول ہے نیز وہ لکھتے ہیں کہ اس میں حکمت یہ ہے کہ جس نے آداب سنت کی رعایت کی مثلاً اس کا بیت الخلاء جانا بھی آداب سنت کے مطابق ہے تو اللہ کی جانب سے یہ توفیق دی جاتی ہے کہ وہ اس سے اعلیٰ سنت پر عمل کرے۔ چنانچہ توفیق الہٰی کا وہی نور اعلیٰ مقامات کی طرف اس کی راہ نمائی کرتا رہتا ہے آخر کار وہ منزل مقصود تک جا پہنچتا ہے اور جو آدمی کسی معمولی سنّت کو بھی ترک کرتا ہے تو نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ اس کے اندر یہ خامی پیدا ہوجاتی ہے کہ وہ دوسری اعلیٰ و افضل چیزوں کو بھی ترک کرتا رہتا ہے اور اس کی سلامتی قلب ترک سنت کی ظلمت میں پھنس کر تنزل کرتی رہتی ہے، یہاں تک کہ وہ مقام رین و طبع تک جا گرتا ہے۔
ملا علی قاری نے اس موقع پر بڑی اچھی بات کہی ہے کہ کیا تم یہ نہیں دیکھتے کہ کسل وسستی کی وجہ سے سنت کو ترک کرنا ملامت و عتاب کا باعث ہے اور سنت کو ناقابل اعتناء سمجھ کر اس پر عمل کرنا معصیت اور اللہ تعالیٰ کے عذاب کا سبب ہے اور سنت کا انکار بدعتی ہونے کا اظہار ہے لیکن اگر کسی بدعت کو خواہ وہ بدعت حسنہ کیوں نہ ہو ترک کردیا جائے تو یہ تمام باتیں لازم نہیں آتیں۔
گویا سنت کو ترک کرنا بیشمار نقصان و فساد کا باعث ہے مگر بدعت کو ترک کرنا کوئی اثر نہیں ڈالتا اس لیے اس سے معلوم ہوا کہ سنت پر عمل کرنا خواہ کتنی ہی معمولی ہو، فلاح وسعادت اور بہتری کا باعث ہے اور بدعت پر عمل کرنا خواہ وہ حسنہ ہوا اس کے مقابلہ میں بہتر نہیں ہے۔
مشکوۃ شریف : جلد اول : حدیث 182
اور حضرت مالک بن انس (رض) مرسلًا روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : میں نے تمہارے درمیان دو چیزیں چھوڑی ہیں، جب تک تم انھیں پکڑے رہو گے ہرگز گمراہ نہیں ہوسکتے۔ وہ کتاب اللہ (قرآن مجید) اور سنت رسول اللہ (احادیث) ہیں۔ ” (موطا)
مشکوۃ شریف : جلد اول : حدیث 181
’’ حضرت معاذ بن جبل (رض) راوی ہیں کہ سرکار دو عالم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : شیطان آدمی کا بھیڑیا ہے جس طرح بکری کا بھیڑیا ہوتا ہے کہ وہ اس بکری کو اٹھا کرلے جاتا ہے جو ریوڑ سے بھاگ نکلی ہو یا ریوڑ سے دور چلی گئی ہو یا ریوڑ کے کنارے پر ہو اور تم پہاڑ کی گھاٹیوں (یعنی گمراہی) سے بچو نیز جماعت اور مجمع کا ساتھ پکڑے رہو۔‘‘ (مسند احمد بن حنبل)
تشریح :
مطلب یہ ہے کہ جس طرح بھیڑیا جب کسی ایسی اکیلی بکری کو پالیتا ہے جو ریوڑ سے الگ ہوگئی ہو تو وہ اس پر بہت دلیر ہوجاتا ہے اور اسے اٹھا کرلے جاتا ہے اسی طرح جب کوئی آدمی علماء دین کی جماعت اور ان کے گروہ سے انحراف کر کے الگ ہوجاتا ہے اور اپنی عقل و فہم کے بل بوتے پر نئے نئے مذاہب نکالتا ہے اور نت نئے مسلک پیدا کرتا ہے تو اس پر شیطان کو پوری طرح اختیار و تسلط ہوجاتا ہے نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ ایسا آدمی شیطان کے چنگل میں پوری طرح آکر گمراہی کی انتہائی گہری گھاٹیوں پر جاگرتا ہے۔
اس لیے آخر حدیث میں فرمایا گیا ہے کہ پہاڑ کی گھاٹیوں سے بچو یعنی اسلام کی صاف و سیدھی راہ کو چھوڑ کر ایسی گھاٹیوں میں نہ جا بیٹھو جو ضلالت و گمراہی سے بھری ہوئی ہوں۔
مشکوۃ شریف : جلد اول : حدیث 179
’’ اور حضرت ابوہریرہ (رض) راوی ہیں کہ سرکار دو عالم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا میری امت کے بگڑنے کے وقت جس آدمی نے میری سنت کو دلیل بنایا اس کو سو شہیدوں کا ثواب ملے گا۔ تو بیہقی نے یہ روایت اپنی کتاب زہد میں عبداللہ ابن عباس (رض) سے نقل کی ہے۔ ‘‘
تشریح :
ایسے عظیم اجر کے ملنے کی وجہ یہ ہے کہ جس طرح ایک شہید دین اسلام کو زندہ رکھنے اور اس کی شان و شوکت کو بڑھانے کی خاطر دنیا کی تمام مصیبتیں جھیلتا ہے یہاں تک کہ اپنی جان بھی قربان کردیتا ہے، اسی طرح جب کہ دین میں رخنہ اندازی ہونے لگے اور فتنہ فساد کا دور دورہ ہو تو سنت کو رائج کرنے اور علوم نبوی کو پھیلانے میں بیشمار مصائب و تکالیف کا سامنا ہوتا ہے بلکہ بسا اوقات اس سے بھی زیادہ مشقتیں اٹھانی پڑتی ہیں اس لیے اس عظیم اجر کی خوشخبری دی جا رہی ہے اس حدیث میں بھی لفظ رواہ کے بعد مشکوٰۃ کے بعض نسخوں میں جگہ خالی ہے مگر مذکورہ عبارت میرک شاہ نے بڑھا دی ہے۔
مشکوۃ شریف : جلد اول : حدیث 171
