Read Urdu Columns Online

Hazoor Jante Hain Ki London Me Tareeb Runamai

  ”حضورؐ جانتے ہیں“ کی لندن میں تقریب رونمائی

قدرت کے نوازنے کا اپنا رنگ اور اندا زہے اور اس کے حسن ترتیب کو انسانی ذہن کی پرتیں نہیں کھوج سکتیں۔میرے پہلے نعتیہ مجموعے کی تیاری کا عمل پچھلے تین سال سے جاری  تھا اور اس سلسلے میں اسے بہتر سے بہتر بنانے کے لیے ہمہ وقت کوشاں رہا۔نعت کے حوالے سے کوئی بھی کام کرتے ہوئے کبھی اپنی ذات کو مقدم نہیں رکھا بلکہ یہی خواہش رہی کہ جو کام رسولؐ  کریم کی نسبت سے ہو اس میں اپنی بساط کے مطابق حتیٰ الامکان حسن و خوبی کے تمام زاوئیے دکھائی دیں۔ ہماری ادبی دنیا میں نعت کو بطور صنف آج بھی زیادہ تر اظہار عقیدت و محبت ہی سمجھا جاتا ہے اور اسے ادبی تقریبات میں وہ اہمیت نہیں دی جاتی جو دیگر اصناف ادب کو ملتی ہے۔ اسی صورت حال کو دیکھتے ہوئے قومی سطح کی ادبی نعت کانفرنس منعقد کرنے کی بنیاد ڈالی جس سلسلے کی چوتھی کانفرنس اپریل میں ہونے جا رہی ہے۔ نعت کے کام کو دیگر اصناف سے بڑھ کر پذیرائی ملنی چاہیے یہی خواہش اس کتاب کی تکمیل کے حوالے سے  ہی دِل میں موجود تھی لیکن یہ کیسے ممکن ہو گا اس کی کوئی پلاننگ پہلے سے ذہن میں موجود نہیں تھی۔چار ماہ قبل جب برطانیہ آیا تو یارک شائر ادبی فورم نے ایک نعتیہ مشاعرہ منعقد کیا جس میں بر سبیل تذکرہ نعت کی کتاب کا ذکر ہوا کہ چند ماہ تک آ رہی ہے تو احباب نے اسے پروگرام  میں پری بک لانچنگ کے عنوان سے شامل کر لیا اور یوں کتاب آنے سے پہلے ہی اس کی ایک بین الاقوامی ادبی پلیٹ فارم پر تقریب  منعقد ہو گئی۔ بیرسٹر میاں وحید الرحمن صاحب سے برسوں پرانا تعلق ہے جو اولڈ فارمانائٹ بھی ہیں اور دینی و روحانی ذوق بھی رکھتے ہیں۔ لندن میں ہونے والی ملاقات میں انہوں نے خود محبت سے اظہار کیا کہ آپ کی نعت کی کتاب کی پہلی باقاعدہ تقریب رونمائی لند ن میں ہونی چاہیے۔ یہ سب قدرت کے اسی انتظامات کے تحت ہو رہا تھا جس کا ذکر کالم کے آغاز میں کیا گیا ہے۔ پچھلے ماہ جب وہ پاکستان تشریف لائے تو ملاقات کے دوران پھر کتاب کا ذکر ہوا اور یوں یہ تقریب پلان ہو گئی۔ کتاب چھپ کر آئی  تو لے کر فوراً  براستہ ابوظہبی لندن روانہ ہو گیا۔والتھم انٹرنیشل کالج کے ہال میں ایم۔آر فاؤنڈیشن کے زیر اہتمام ہونیو الی اس نشست نے کئی حوالوں سے اپنی یادیں چھوڑ دیں جو یہاں موجود حاضرین کے دلوں میں ہمیشہ تازہ رہیں گی۔ نعت کے تعلق نے محبت کا ایک حصار قائم کر رکھا ہے  جس کی خوشبو سے سب کھنچے چلے آتے ہیں۔ برطانیہ جیسے شہر میں لوگوں کی مصروفیات کی نوعیت بہت مختلف ہے اور  دیگر شہروں سے یہاں آنا بھی حوصلے اور ہمت کا کام ہے لیکن جس کو بھی اس تقریب کے لیے دعوت دی وہ خوشی سے محبت کیساتھ اس میں شریک ہوا۔میزبان محفل   کی دعوت پر جہاں لندن کی معروف علمی سیاسی سماجی اور میڈیا سے تعلق رکھنے والی معتبر صحافی برادری شریک ہوئی وہاں برمنگھم سے سلطان نیاز الحسن صاحب خصوصی طور پر بطور مہمان خصوصی تشریف لائے۔ شیفیلڈ سے ممتاز شاعر ادیب ڈاکٹر قیصر عباس زیدی،مانچسٹر سے معروف میڈیااینکر اور عزیز دوست ایم ایم عالم، برمنگھم سے محمد جواد شائق نے خوبصورت اندا ز میں اس نعتیہ کتاب پر اظہار خیا ل کیا۔چھوٹے بھائیوں کی طرح عزیز حسان ہمدانی نے میزبانی کے فرائض بحسن و خوبی سرا نجام دئیے اور ساتھ نعت بھی سنائی۔برسٹل سے باصلاحیت نوجوان احسن امین نے تلاوت کلام پاک اور خوبصورت کلام سنا کر بزم کو روحانی کیفیات سے مالا مال کر دیا۔لندن سے ہی قونصلر معظم علی سندھو اور  ٹیپو ارسل نے بھی اظہار خیال کیا۔برسٹل  کی نعت کمیونٹی کی طرف سے سید مظہر نے میری تصویر سے سجا ہوا کیک لا کر اس کے حسن کو دوبالا کر دیا۔ محترم گل زمان صاحب نے تقریب کے انتظامی امور کو بہتر سے بہتر بنانے میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھی۔  میں نے اپنی گفتگو میں  برطانیہ کی نوجوان نسل تک اس کتاب کو انگلش ورژن میں پہنچانے کی سرسری بات کی جسے میاں وحید الرحمن صاحب کی طرف سے بھرپور تائید کے ساتھ جلد منظر عام پر لانے کے عزم کا اظہار کیا گیا۔پاکستان میں چھپنے والی کسی بھی نعتیہ کتاب کی بین الاقوامی سطح پر رونمائی کی یہ منفرد تقریب تھی۔میڈیا چینلز کی طرف سے بھی اس کی بھرپور کوریج کی گئی جسے کم و بیش ہر بڑے چینل کی نیوز میں جگہ دی گئی۔سلطان نیاز الحسن صاحب کی طرف سے تکبیر ٹی وی پر اس کی برمنگھم سٹوڈیو میں رونمائی کا بھی  اہتمام کیا گیا جس میں  علامہ ظفر اللہ شاہ، پیر طیب الرحمٰن، مروت احمد، خواجہ اظہار الحسن، محمد جواد شائق اور لیڈز سے بہن سمعیہ ناز نے  خوبصورت گلدستے کے ساتھ شریک ہو کر عزت افزائی فرمائی۔ایم ایم عالم کی خوبصورت میزبانی قاری تنویر اقبال،نوجوان بلال نوشاہی اور عزیزم بلال نقشبندی نے کتاب میں سے کلام پیش کر کے سامعین کو مسحور کیا۔برسٹل سے محمد عطا سلطانی نے بھی پھولوں کے گلدستے کے ساتھ خصوصی شرکت کی۔یہاں رات گئے پیر طیب الرحمن صاحب کی طرف سے  مقامی معروف ہوٹل میں اس کی مختصر رونمائی کی الگ نشست منعقد ہوئی۔  یہاں دو دن قیام میں احباب سے بہت سی نشستیں ہوئیں جن میں آئندہ نعت کے امکانات پر بہت سے زاوئیوں پر کام کرنے کے لیے  لائحہ عمل ترتیب دیا گیا۔ لندن میں ایک نعت ورکشاپ کے عنوان سے بھی ایک سرگرمی پہلی بار منعقد کی گئی  جس میں سو سے زائد بچوں اور بچیوں نے شرکت کی جسے بہت پذیرائی سے نوازا گیا۔محترم علی نوید صاحب کے ہاں بھی مختصر نعتیہ  نشست کتاب کے حوالے سے منعقد ہوئی۔ “حضور جانتے ہیں ” کی تقریب پذیرائی کے سلسلے میں اس مختصر دورانیے کے سفر میں نہ بھولنے والی طویل یادوں کیساتھ وطن لوٹ رہا ہوں۔بیشک نعت اور صاحب نعت کے ساتھ تعلق مبنی بر اخلاص ہو تو خیر اور پذیرائی  کے دروازے ہر طرف کھلے ملتے ہیں۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *