کاش امریکی جج فرینک کیپریو کبھی پاکستان بھی آتا
گزشتہ چند سالوں سے ایک امریکی جج Frank Caprio ہمارے سوشل میڈیا کا ہیرو بنا ہوا ہے۔ ان جج صاحب کا شفقت بھرا لہجہ، ملزم سے واضح ہمدردی، احسان اور احساس بھرا انصاف اور شگفتہ چہرہ، یہ سب مل کر ان جج صاحب کا مجموعی تاثر اتنا عمدہ اُبھرتا ہے، کہ پاکستانی عوام نے سوشل میڈیا پر اس جج کو idealise کرنا شروع کر دیا ہے۔ مجھے خود بھی ان جج صاحب کا عدالت کرنے کا سٹائل بہت fascinate کرتا ہے، یہ الگ بات ہے، کہ Caprio زیادہ تر صرف ٹریفک violations کے کیسز سُن رہے ہوتے ہیں، اور ان کیسز کا فیصلہ کرتے ہوئے وہ جائز طور پر traffic violators کہ انہیں ملزم لکھنا مناسب نہیں، کی مشکلات، جلد بازی کی وجہ اور اس کے جواز کو اہمیت دیتے ہوئے سزا میں کافی نرمی برتتے ہیں۔ اور ان کا شفقت بھرا لہجہ اور سزا میں نرمی انہیں مقبولیت کے عروج پر لے گئی ہے۔کاش کہ یہ جج صاحب کبھی دوران سروس پاکستانی عدالتوں کا دورہ بھی کرتے۔ ان کے پاس امریکہ میں دن میں چار پانچ مقدمات زیادہ تر ٹریفک قوانین کی خلاف ورزی والے ہی زیر سماعت آتے ہیں،جن میں وکلاء کے بغیر صرف سائلین ہی پیش ہوتے ہیں۔نہ جرح کا جھنجھٹ نہ التوا پر تنازعہ۔نہ ریڈر، اہلمد کے بکھیڑے،جبکہ پاکستان میں خصوصاً پنجاب میں ایک مجسٹریٹ یا سول جج کی نارمل کاذ لسٹ 80 سے 125 تک ہوتی ہے۔ عدالت کے اندر اور باہر سائلین اور وکلا کا ایک جم غفیر ہوتا ہے،بلکہ آج کل تو ہائیکورٹ کے اندر بھی کسی بھی عدالت میں داخل ہونے کے لئے باہر کھڑے لوگوں میں سے گزرنے کے لئے باقاعدہ دھینگا مشتی کرنا پڑتی ہے۔ عدالت کے اندر اگر بیٹھنے کیلئے کرسی مل جائے تو آپ خوش نصیب ٹھہرے۔اگر کسی بھی جج کے پاس 60 سے 100 تک بھی مقدمات ہوں اور چھ سات ورکنگ hours ہوں تو فی کیس کتنا وقت دے سکتا ہے۔ ہر سائل یہ چاہتا ہے کہ اسے کھل کر بولنے کا موقع دیا جائے، وکیل تو engage ہی اس لئے ہوتے ہیں، کہ ان کی بات ذرا تفصیل سے سنی جائے،مگر رش اور مقدمات کی بھرمار کی وجہ سے کچھ سنانے کی نوبت کم کم ہی آتی ہے، بلکہ جج صاحبان کو ہی سننا زیادہ پڑتا ہے، مگر لہجوں کا فرق ہی جج Caprio کو ممتاز کر دیتا ہے۔ ہمارے ہاں وہ عدالتی ماحول بن ہی نہیں پاتا جو جج Caprio کو میسر آتا ہے، کہ وہاں ہم نے کبھی کسی وکیل کو پیش ہوتے نہیں دیکھا اور جج صاحب زیادہ تر خود ہی سائلین سے سوال و جواب کر رہے ہوتے ہیں۔ یہاں ہر مقدمہ میں آواز پڑھنے پر یا ”وکیل کو لینے جارہا ہوں یا بلاؤ اپنے وکیل کو“ کی آوازیں سارا دن سننا پڑتی ہیں۔ وہ دن گئے جب اعجاز بٹالوی اور عابد حسن منٹو جیسے معتبر اور باکمال پروفیشنل وکیل بھی آرام سے اپنی فائل اُٹھا کر اکیلے ہی argueکر رہے ہوتے تھے۔اب تو جب تک پندرہ بیس associates کا ایک جتھہ ساتھ نہ ہو، عدالت کے اندر داخل ہونے کا مزا ہی نہیں آتا۔ ہائیکورٹ میں تو ابھی صورت حال ادب آداب اور decorum کے لحاظ سے کافی بہتر ہے،مگر زیریں عدالتوں میں صورت حال مناسب نہیں۔ یہاں تو بعض اوقات ججز کو باقاعدہ overawe کیا جاتا ہے۔ زبان اور لہجہ بھی سخت ہوتا ہے،جو ماحول کو ہر وقت tense بنائے رکھتا ہے۔ پھر ہمارے ہاں مقدمات کی نوعیت بھی ماحول پر اثر انداز ہوتی ہے۔ اگر امریکن جج Frank Caprio کو لاہور یا کسی بھی ضلع کی کسی سیشن عدالت میں مقدمہ قتل میں شہادت لکھنے یا عدالتی ماحول کو خوشگوار رکھنے کا فریضہ سونپا جائے تو امکان غالب ہے کہ وہ ایک ہفتہ میں یہ عہدہ چھوڑ کر آرام کے لئے امریکہ واپس چلا جائے۔ جب وہ دیکھے کہ شہادت قلمبندی کے دوران گواہ کی طرف سے کس طرح ہر فقرہ پر عدالت میں اُلجھاؤ کی کیفیت اُبھرتی ہے۔ ہر فریق اس فقرہ کو اپنے مطلب کے مطابق ترجمہ کرنا چاہتا ہے۔ اور کس طرح گواہ کو باقاعدہ ہراساں کیا جاتا ہے اور اس ساری مشق میں جج اپنی غیر جانبداری کو بچاتے بچاتے خاموشی سے یہ سارا منظر دیکھ رہا ہوتا ہے۔اگر Caprio کو کوئی ڈائریکشن کیس فیصلہ کرنا پڑ جائے، جس میں ایک فریق کی پوری کوشش کہ کیس طوالت اختیار کرے اور جج اپنی ساری مہارت عدالت کا ماحول خوشگوار رکھنے پر صرف کرے۔ ہماری عدالتوں میں ہمارے جج ہمہ وقت سچ کی تلاش میں ہوتے ہیں، کہ دونوں طرف سے اصل واقعات میں بناوٹ اور جھوٹ کی واضح آمیزش ہوتی ہے۔ یہاں عموماً صرف وقوعہ ٹھیک ہوتا ہے،باقی سب کچھ آمیزش شدہ اور آخر میں کچھ اپنے ججز کے behaviours اور رویوں کے بارے میں۔
ہمارے ہاں مختلف اقسام، رویوں اور عادات کے جج پائے جاتے ہیں۔ بہت کم ہیں جو صرف سنتے ہیں، اور کم بولتے ہیں،بڑی تعداد زیادہ بولنے والوں کی اور کم سننے والوں کی ہے۔ کچھ بہت عمدہ طریقہ سے عدالت چلاتے ہیں، مگر کچھ سے عدالت سنبھل ہی نہیں رہی ہوتی۔ کچھ بات کو جلد سمجھ جاتے ہیں اور جلد کسی نتیجہ پر پہنچ جاتے ہیں، کچھ کو بات سمجھانے کے لئے گھنٹوں لگ جاتے ہیں، مگر بات وہیں اٹکی ہوتی ہے، جہاں سے شروع ہوئی تھی۔ کچھ دلیری سے فیصلے عدالت کے اندر ہی کر دیتے ہیں، کچھ مصلحت کی چادر تلے گزارہ کرتے ہیں۔ کچھ بہت شیریں گفتار ہوتے ہیں اور کچھ کے لہجے کی کڑواہٹ کی حدت کئی دِنوں تک محسوس کی جاتی ہے۔ کچھ انصاف احسان کے ساتھ کرتے ہیں اور کچھ ٹیکنیکل انصاف پر یقین رکھتے ہیں۔ کچھ انصاف تک پہنچنے کیلئے out of box طریقے بھی اختیار کر لیتے ہیں، مگر زیادہ تر قانونی پیچیدگیوں اور کتابی موشگافیوں میں سے ہی گزر کر انصاف تک پہنچنے کی کوشش کرتے ہیں۔ کچھ بہت کچھ خاموشی سے مسکرا کر برداشت اور درگزر کر جاتے ہیں، کچھ بڑی چھوٹی بات کو بڑا بنانے کا گر جانتے ہیں۔ کچھ اپنے conduct سے عدالت میں بیٹھ کر عزت کماتے ہیں، کچھ دوسروں کی عزت پامال کرکے عزت چاہتے ہیں،جو مشکل ہی نہیں ناممکن ہوتا ہے۔ اچھا جج وہی ہوتا ہے جو دوسروں کی عزت کرے اور اپنی کرائے۔ پاکستان کے مخصوص حالات میں اگر متذکرہ بالا کسی بھی خوبی کے ساتھ جج متحمل مزاجی، برد باری ٹھنڈے دِل و دماغ سے اور شیریں گفتار سے بات سننے اور اس کی تہہ تک جلد پہنچنے کا ہنر جانتا ہو اور انصاف کے حصول میں تکنیکی پیچیدگیوں سے بچ بچا کر دلیری اور جرأت سے عدل کے ترازو کو تھامے ہوئے ہو تو وہ پاکستان میں بھی Frank Caprio سے زیادہ عزت،احترام اور توقیر کا حقدار ہے اور جو ججز بھی ان نامساعد حالات کے باوجود یہاں انصاف کی کٹھن پہاڑی سر کرتے ہیں، وہ لائق تحسین و آفرین ہیں۔