کلیم عثمانی
میں کلیم صاحب کی رہائش گاہ 85 سکندر بلاک، اقبال ٹائون پہنچا۔ کلیم صاحب میرے منتظر تھے میں نے انہیں گاڑی میں اپنے ساتھ بٹھایا۔ سارا راستہ ہمارے درمیان کسی ایک جملے کا تبادلہ نہیں ہوا۔ دفتر پہنچ کر میں نے کلیم عثمانی سے اپنے خط پر دست بستہ معافی چاہی اور ان سے عرض کیا کہ مالی مشکلات یقینا بہت ہیں مگر آپ کا اور میرا ساتھ تو ازلی اور ابدی ہونا چاہئے۔ اگر ادارہ سے میری اپنی ضرورتیں پوری ہورہی ہیں تو آپ کی وابستگی بھی جاری رہنا چاہئے۔ آپ مجھے معاف فرمادیں اور ’’جرأت‘‘ کے لئے قطعہ لکھنے کا سلسلہ جاری رکھیں۔ کلیم صاحب نے نہایت نحیف آواز میں کہا، ’’جمیل صاحب آپ جو کچھ مجھے دیتے ہیں وہ آپ کو علم ہی ہے مگر آپ کو یہ معلوم نہیں کہ اس سے میرے کون کون سے بل ادا ہوتے ہیں‘‘۔ خدا گواہ ہے کہ یہ سن کر میری آنکھوں میں آنسو آگئے۔ میں نے نہ صرف کلیم عثمانی سے دوبارہ معافی مانگی بلکہ نور نبی نور صاحب کو بھی مزید مالی بحران کے باوجود دوبارہ ادارہ ’’جرأت‘‘ سے وابستگی کی دعوت دی۔
میں کلیم عثمانی کے عرصہ علالت میں بہت کم ان کی خدمت میں حاضر ہوا، میں نے ان کے بیٹے اور اپنے بھتیجے ہارون کلیم کو اعتماد میں لے کر بتادیا تھا کہ کلیم صاحب شدید علالت کے باعث جسمانی طور پر جس ضعف اور اضمحلال سے گزر رہے ہیں میرے اندر اس حالت میں انہیں دیکھنے کی ہمت نہیں ہے۔ ان کی رحلت سے تقریباً دو ہفتے قبل جب میں ان کی خدمت میں حاضر ہوا تو مجھے دیکھتے ہی وہ بستر سے اٹھے اور بستر پر ہی مجھے گلے لگایا اور کہنے لگے، ’’جمیل صاحب میری عیادت کے لئے آنے والوں کا دن بھر تانتا بندھا رہتا ہے مگر آپ کو اپنے پاس دیکھنے کے لئے میری آنکھیں دن بھر دروازے پر لگی رہتی ہیں۔ یہ تھے جناب کلیم عثمانی اور ان کی محبتیں میں اور مقبول جلیس اب انہیں کہاں سے ڈھونڈ کر لائیں گے۔ اللہ تعالیٰ ان کی قبر پر اپنی رحمتوں کی چھتری تان دے اور ان کی روح کو تا ابد آسودہ رکھے اور ان کی قدر و منزلت کے تقاضے پورے کرنے میں ہم سے جو کوتاہیاں ہوئی ہیں ان کے لئے ہمیں معاف فرمادے۔ آمین
آج کا کالم بزرگ صحافی، دانش ور اور کالم نویس جناب مقبول جلیس کی نذر ہے وہ اپنے گرامی نامہ میں لکھتے ہیں۔
گرامی قدر محترم جمیل اطہر
السلام علیکم
ہمارے مشترک دوست کلیم عثمانی کے باب میں آپ کے کالم ’’جرأت‘‘ میں پابندی سے پڑھ رہا ہوں۔ جن میں جذبوں کی صداقت زیادہ اور ’’پیشہ ور کالم نویسوں‘‘ کی طرح الفاظ کی بازی گری کم ہے۔ میں پوری دیانت داری کے ساتھ عرض کرتا ہوں کہ اس بھری دنیا میں آپ کلیم عثمانی کے واحد دوست و غم خوار ثابت ہورہے ہیں۔ کلیم عثمانی مرزا اسداللہ خان غالب کی طرح ’’مردم گزیدہ‘‘ تھا۔ اسی لئے تو آپ کی تحریروں سے اندازہ ہوا کہ اس خوددار نے گوشہ نشینی اختیار کرلی تھی۔دوستی، انسانیت، رواداری، شرافت اور قناعت پسندی سب پر سے اس کا اعتماد اٹھ گیا تھا مگر اس کے باوجود کلیم عثمانی نے اپنی وضع بدلی نہ اپنے اقدار سے ناطہ توڑا۔ اس مردم گزیدہ شخص نے پھر بھی ’’سانپوں‘‘ کے درمیان رہ کر پیار کی دولت لٹانے میں کم ظرفی کا مظاہرہ نہیں کیا۔
گرامی قدر
میں گذشتہ دو ہفتوں سے اس دور سے گزررہا ہوں کہ نہ اپنے آپ کو صحت مند کہہ سکتا ہوں نہ بیمار۔ یوں جانئے کہ اک پل صراط سے گزر رہا ہوں اور اس سفر میں خود اپنے کندھے پر سوار ہوں۔ البتہ کالم نویسی کی بے گار سے کچھ وقت نکال کردس بارہ سطریں کلیم عثمانی (مرحوم) کے بارے میں اپنی تیس برسوں کی رفاقت اور یادوں کے سہارے لکھتا جارہا ہوں۔ کیا عرض کروں کہ وہ شخص ایک کتاب کی طرح مختلف ادوار لئے ورق ورق میرے سامنے آتا جاتا ہے اور اپنی مخصوص شریفانہ مسکراہٹ کے ساتھ کہتا جاتا ہے۔
’’یار مقبول… تجھے فلاں محفل یاد ہے‘‘
وہ محفل کیا یاد آتی ہے کہ یادوں کی ایک بارات سی چل پڑتی ہے۔ قلم کی سست رفتاری ذہن کی تیزی کا ساتھ نہیں دے پاتی۔ کلیم عثمانی تو ایسی کتاب ہے کہ جس کا ہر ورق بجائے خود ایک کتاب ہے۔
میں اس کی شاعری، فلمی نغمہ نگاری اور قومی ترانوں کے بارے میں کیا لکھ سکتا ہوں۔ نقاد ہوں نہ سخن فہم۔ صرف اس کا طرف دار پہلے بھی تھا اورتا دمِ مرگ رہوں گا۔ یہ طویل مضمون جوں ہی مکمل ہوگا میں انشاء اللہ آپ کی خدمت اور روزنامہ ’’جرأت‘‘ کے قارئین کی نذر کروں گا۔
’’جرأت‘‘ کے تازہ شمارے میں صفحہ اول پر ایک اشتہار نظر سے گزرا … ماہنامہ ’’پاسبان وطن‘‘… جو کہ آپ کلیم عثمانی کی یاد میں بچوں کے لئے شائع کرنا چاہتے ہیں۔ اس ماہنامے کا نہ صرف انتظار ہے بلکہ زندگی بخیر میں اس کے لئے ہر ماہ لکھتا رہوں گا۔ یہ بچوں کے لئے آسان ترین زبان میں چھوٹی چھوٹی کہانیاں ہوں گی، جس کا عنوان ہوگا… ’’کوا کہانی‘‘۔
طارق عزیز اور سہام مرزا نے جب ’’بچوں کا رسالہ‘‘ کراچی سے شائع کرنا شروع کیا تھا تو میری ان کہانیوں کا سلسلہ بہت مقبول ہوا تھا۔
رات کے دو بجے ہیں اور بقول زیڈ اے بخاری
’’نہ تصور کوئی بندھتا ہے نہ نیند آتی ہے‘‘
اس لئے آپ کو بھی جگا رہا ہوں
مخلص
مقبول جلیس
کلیم عثمانی کو منگل کی صبح منوں مٹی تلے دفن کر دیا گیا اور اس کے ساتھ توکل، قناعت اور فقر و درویشی کا ایک حسین پیکر سپردِ خاک ہوگیا۔ کلیم عثمانی سے پہلی ملاقات شاید 1965ء کے لگ بھگ انار کلی میں واقع ادارہ اسلامیات میں جناب زکی کیفی کے ہاں ہوئی جہاں عصر کے بعد ہم خیال صحافی، ادیب اور شاعر چائے کی پیالی پر اکٹھے ہو جاتے تھے لیکن کلیم عثمانی کا نام ریڈیو کے مشاعروں میں خوبصورت ترنم کے ساتھ ان کی غزل گوئی کے حوالے سے ذہن میں محفوظ تھا اور جب پہلی باران کے ساتھ نشست ہوئی تو اجنبیت اور غیریت کا کوئی شائبہ اس میں نہ تھا۔ پھر زکی کیفی صاحب کے گھر ’کاشانۂ زکی‘ میں منعقد ہونے والی شعری نشستوں میں بھی شریک ہونے کا موقع ملا۔ کلیم عثمانی اور زکی کیفی کا دیوبند میں بچپن سے ہی دوستانہ اور برادرانہ رشتہ تھا اور دونوں میں خیالات اور تصورات کا اشتراک اکثر دیکھنے میں آتا تھا۔