اموی دور اور پاکستان کے حالات
برسوں سے جاری بلوچستان کی گھمبیر اور گْنجلک صورتحال اور اعلیٰ عدلیہ کی موجودہ غیر موزوں کیفیت خراسان کے والی جراح بن عبداللہ بن حکمی کے حضرت عمر بن عبدالعزیزکو لکھے گئے خط کی یاد دلاتی ہے جس میں انہوں نے خلیفہ وقت کو تحریر کیا تھا کہ اہلِ خراسان اتنے سرکش ہیں کہ ان کو کوڑے اور تلوار کے سوا کوئی اور چیز درست نہیں کر سکتی۔ اِس لئے سختی کی اجازت دی جائے۔ حضرت عمر بن عبدالعزیز نے جواباً لکھا، ’’یہ کہنا غلط ہے کہ اہلِ خراسان کو صرف کوڑا اور تلوار ہی درست کر سکتی ہے۔ ان کو عدل اور حق درست کر سکتا ہے۔ جہاں تک ہو سکے، ان دونوں چیزوں کو عام کرو۔‘‘ انہوں نے اس اصول کی پاسداری یوں کی کہ جب ہشام بن عبدالملک نے ایک عیسائی شخص پر مقدمہ دائر کیا تو حضرت عمر بن عبدالعزیز نے دونوں کو عدالت میں برابر کھڑا کیا۔ پاکستان میں بھی عدل اور حق کو عام کرنے کی جتنی ضرورت اب ہے شاید پہلے اتنی نہیں تھی۔
عام تاثر یہ ہے کہ پاکستان میں اقتدار ملنے کے بعد اکثر کنبہ پرور حکمران امیر سے امیر تر ہوتے گئے جبکہ سفید پوشی سے مفلسی تک کا سفر طے کرنے والا طبقہ غربت کی لکیر کے نیچے آتا گیا۔ اِس رسوا کن حقیقت پر عمر بن عبدالعزیز ہمارے حکمرانوں کے برعکس رنگ و روپ اور انداز و اطوار میں شدت سے یاد آتے ہیں۔ خلافت کی ذمہ داریاں سنبھالنے سے پہلے حضرت عمر بن عبدالعزیز اپنے زمانے کے سب سے زیادہ خوش لباس، معطر اور تبختر کی چال چلنے والے شخص تھے۔ جب مدینہ کے گورنر بن کر آئے تو ان کا ذاتی سامان تیس اونٹوں پر بار تھا۔ خوش لباسی اور نفاست کا یہ عالم تھا کہ جس لباس پر ایک دفعہ کسی کی نظر پڑ جاتی پھر اسے دوبارہ نہیں پہنتے تھے مگر خلیفہ بننے کے بعد ان کے پاس کپڑوں کا صرف ایک جوڑا رہ گیا تھا۔ خلوت و جلوت میں خوف خدا ان پر لرزہ طاری کئے رکھتا تھا۔ وہ کہا کرتے تھے، ’’اگر دریا کے کنارے بکری کا بچہ بھی ہلاک ہو جائے تو میں اس کے لئے جوابدہ ہوں۔‘‘ اْن کی وفات کی خبر سن کر شاہ روم نے گلوگیر آواز میں کہا تھا، ’’اگر عیسٰی مسیح کے بعد کوئی شخص مردوں کو زندہ کر سکتا تو وہ عمر بن عبدالعزیزہوتے۔ میں اْس راہب کو پسند نہیں کرتا جو دنیا سے منقطع ہو کر عبادت خانے میں جا بیٹھے۔ میں اْس راہب پر تعجب کرتا ہوں جو دنیا کو اپنے قدموں کے نیچے رکھتا تھا اور پھر بھی راہبانہ زندگی بسر کرتا تھا۔‘‘
عرصہء دراز سے پاکستانی گداگر بھیک مانگنے کے لیے سعودی عرب، ایران اور عراق جا رہے ہیں۔ وزارت اوورسیز پاکستانیز کے سیکریٹری ذوالفقار حیدر نے سینیٹ کی قائمہ کمیٹی کو بتایا کہ بیرون ملک گرفتار ہونے والے 90 فیصد بھیک مانگنے والوں کا تعلق پاکستان سے ہے۔ جون 2023ء میں سعودی حکومت نے وزیر اعظم آفس کو سعودی عرب میں گداگری، جسم فروشی، منشیات کی سمگلنگ اور سفری دستاویزات میں جعل سازی جیسے بڑھتے ہوئے جرائم میں پاکستانیوں کے ملوث ہونے کے متعلق تحریری طور پر آگاہ کیا۔ اندرون ملک اور بیرون ممالک بھیک مانگنے والے یہ فقیر پاکستان کیلئے شدید بدنامی اور سبکی کا باعث بن رہے ہیں۔ اِس مسئلے پر بھی چھٹے اموی خلیفہ، ولید بن عبدالملک کے دور کی یاد ذہن میں کوند جاتی ہے۔ اْس کے دور میں کثرتِ فتوحات کی وجہ سے ملک کی سرحدیں سپین سے لے کر چین اور برصغیر تک پھیل گئی تھیں۔ اتنی بڑی سلطنت میں کوئی بھکاری نہیں تھا کیونکہ بھیک مانگنا ممنوع قرار دیا گیا تھا۔
اقتدار کے خونی کھیل میں جب معصب بن عمیر کا سر کوفہ کے قصرالامار میں پانچویں اموی حکمران عبدالملک بن مروان کے سامنے لایا گیا تو کوفہ کے ایک عمر رسیدہ شخص نے ٹھنڈی آہ بھرتے ہوئے کہا، ’’دنیا عجیب دارالمکافات ہے۔ اسی قصر میں ابن زیاد کے سامنے حضرت امام حسین کا سر کٹ کر آیا تھا۔ پھر یہیں پر ابن زیاد کا سر مختار کے سامنے پیش کیا گیا اور پھر اسی جگہ مختار کا سر معصب کے سامنے آیا اور آج یہیں پر معصب کا سر آپ کے سامنے رکھا ہوا ہے۔‘‘ عبدالملک یہ سنتے ہی لرز گیا اور فوری طور پر اس عمارت کو منہدم کرنے کا حکم جاری کر دیا۔ ہمارے ہاں بھی ’سرِ اقتدار‘ قصرِ اقتدار میں خوب پیش ہوتے رہے۔ ذوالفقار علی بھٹو کو تو عملاً اپنے سر کا نذرانہ دینا پڑا۔
خوفِ خدا غالب آنے پر پانچویں اموی حکمران عبدالملک بن مروان نے ایک دفعہ برسرِ منبر رو کر کہا، ’’اے اللہ تعالیٰ! میرے گناہ عظیم ہیں لیکن تیرا ادنیٰ عفو بھی اْن سے عظیم تر ہے۔ اے اللہ! اپنے قلیل عفو کے ساتھ میرے گناہوں کو مٹا ڈال ۔‘‘ حسن بصری نے یہ الفاظ سنے تو نمدیدہ ہو کر فرمایا، ’’اگر کوئی کلام سنہری حروف میں لکھنا ہو تو میں یہ الفاظ لکھوں۔‘‘ اگر عبدالملک حجاج بن یوسف کو رعیت پر مسلط نہ کرتا تو ایک محبوب حکمران ہوتا۔
ولید بن عبدالملک پڑھا لکھا نہ ہونے کے باوجود ایک اچھا منتظم اور بہت بڑا فاتح حکمران ثابت ہوا۔ محمد بن قاسم، موسیٰ بن نصیر اور طارق بن زیاد جیسے مشہور و معروف کمانڈر اسی چھٹے اموی حکمران کی ریبری میں اپنی فتوحات کے جھنڈے گاڑتے رہے۔ صد حیف! ساتویں اموی حکمران سلیمان بن عبدالملک نے ان کے ساتھ دشمنوں سے بھی کہیں زیادہ بدتر سلوک کیا۔ محمد بن قاسم کو اذیتیں دے کر موت کے گھاٹ اتارا گیا۔ موسیٰ بن نصیر کو بھرے بازار میں بے توقیر کیا تو اس نے جواباً اندلس، میورقہ، منورقہ، سروانیہ اور سوس اقصٰی فتح کرکے خلیفہ کے قدموں میں پھینکنے کے اپنے کارنامے جتلائے۔ اس پر ولید مزید بپھر گیا۔ تاہم یزید بن مہلب کی سفارش پر کئی لاکھ درہم جرمانہ کرکے اْس کی جان بخشی تو ہو گئی مگر وہ اپنی عمر کے آخری ایام میں مدینے کی گلیوں میں بھیک مانگتا ہوا دیکھا گیا۔ طارق بن زیاد کا انجام بھی بہت برا رہا۔ اموی حکمرانوں کی طرح ہمارے ہاں بھی اشرافیہ کی محسن کشی کی بہت سی مثالیں موجود ہیں۔
اموی حکمران یزید ثانی بن عبدالملک ایک دن فلسطین کے پر فضا باغ میں اپنی محبوبہ، حبابہ کی قربت سے لطف اندوز ہو رہا تھا۔ انگور کے گچھے اْن کے سامنے پڑے تھے۔ ترنگ میں آ کر یزید نے انگور کی ایک گٹھلی حبابہ کے منہ میں پھینکی۔ اتفاق سے وہ گٹھلی حبابہ کی سانس کی نالی میں پھنس گئی جس سے اْس کی موت واقع ہو گئی۔ اِس غیر متوقع سانحہ پر یزید ثانی فرطِ غم سے نیم دیوانہ ہو کر حبابہ کی میت سے لپٹ لپٹ کر روتا رہا۔ تین روز بعد جب لاش گلنے سڑنے لگی تو لوگوں نے بڑی مشکل سے اسے چھڑا کر دفن کیا۔ تاہم وہ ایک ہفتے کے بعد اپنی حبابہ کو پیارا ہو گیا۔ برطانیہ کے بادشاہ ایڈورڈ ہشتم کا امریکی نازنین ویلز وارفیلڈ سمپسن کی محبت میں تخت و تاج چھوڑنا ایک عظیم مثال سہی جبکہ یزید ثانی کا جہان چھوڑ جانا اس سے بھی بڑی مثال ہے۔