زبان اور علم
واسطہ یوں رہا سرابوں سے آنکھ نکلی نہیں عذابوں سے میں نے انساں سے رابطہ رکھا میں نے سیکھا نہیں نصابوں سے مگر کتابوں اور نصابوں میں بہت فرق ہے جسے ملحوظ خاطر رکھنا ضروری ہے۔ یعنی خون جلایا ہے رات بھر میں نے لفظ بولے ہیں تب کتابوں سے یہ کتابیں زندگی کے تجربات و مشاہدات کا نچوڑ ہوتی ہیں مگر میں کتاب پر مضمون نہیں لکھ رہا۔ منیر نیازی یاد آ گئے وہ کہا کرتے تھے کہ اچھی کتاب برے آدمی سے اپنے معنی چھپا لیتی ہے۔ دکھ ہوتا ہے جب کوئی کہتا ہے کہ کتاب ختم ہو چکی ہے ایسا علم دشمن کہتے ہیں یا جو سہل طلب ہیں اور کچی پکی شاعری سوشل میڈیا میں فلوٹ کر کے بہت خوش نظر آتے ہیں کہ لائیکس مل رہے ہوتے ہیں۔ اگر میں انگریزی کے لفظ استعمال کر رہا ہوں تو کوئی مضائقہ نہیں اردو کے دامن میں گنجائش ہے کہ جدید دور کے اور خاص طور پر کمپیوٹر سے وابستہ اصطلاحات استعمال کر لی جائیں۔ میں اپنے موضوع کی طرف آ رہا ہوں کہ ہمیں ایک زبان کے ساتھ سٹک نہیں ہو جانا چاہیے یعنی اپنے آپ کو محدود نہیں کر لینا چاہیے دوسری یا تیسری زبان اپنے ساتھ ساتھ دوسرے علوم بھی لے کر آتی ہے۔ اب دیکھیے آج کل پنجابی میلہ ہو رہا ہے۔ الحمرا میں ایک رونق لگی ہوئی ہے۔ بہت اچھی بات ہے۔ میں خود پنجابی ہوں کوئی بھی زبان میں بولوں اس میں پنجابیت کا جھلکنا ایک فطری عمل ہے۔ مگر یہ کیا ہوا کہ حالات و واقعات نے پنجابیوں کو اس زبان سے دور کر دیا۔ پنجابی لکھاریوں پر اردو غالب آ گئی۔ شاید یہ ہماری ارادی کاوش تھی یا ہمیں کچھ آسانیاں فراہم ہو گئیں اور قاری زیادہ میسر آئے۔ کئی عوامل ہیں۔ کچھ کلچر کا معاملہ ہو گیا۔ خود مائوں نے بچوں کے ساتھ اردو بولی اور پنجابی صرف اپنے میاں کے ساتھ چلتی رہی۔ یعنی بچوں کے ساتھ تکلف اور بیوی کے ساتھ بے تکلفی۔ خیر میں اپنے موضوع کی طرف پھر آتا ہوں۔ کہنا میں یہ چاہتا ہوں کہ یہ بات بھی درست ہے کہ سچی تعلیم اپنی مادری زبان ہی میں حاصل کی جا سکتی ہے کہ وہ زبان خون میں رچی بسی ہوتی ہے مگر یہاں تو مادری زبان آہستہ آہستہ اردو ہی بن گئی۔ اس میں رسائل اخبارات اور دوسرے جریدوں نے اپنا حصہ ڈالا حکومت کی بے اعتنائی اپنی جگہ۔ اب ہوا یوں کہ ہم تہذیب و تمدن کے نام پر اردو کو بھی پیچھے چھوڑ رہے ہیں جہاں پر ہم بچوں کو لاتے تھے بچے اس مقام سے بھی آ گئے جا رہے ہیں اور ہم بے بسی سے انہیں دیکھ رہے ہیں۔ ان کی تربیت تو انگریزی سکولوں میں ہو رہی ہے۔ اردو میڈیم سرکاری سکول تو ویسے ہی برباد ہو چکے۔ انگریز نے بھی ہمارے ساتھ کیا تھا کہ ہم سے فارسی کو بھی دور کر دیا جس میں ہمارے ادب اور علم کا خزانہ تھا۔ ہمارے بڑے بڑے پنجابی اور اردو شاعر بھی اپنے حالات فارسی میں بیان کرتے تھے اور فارسی میں ایک اسلامی شناخت بھی وابستہ تھی انگریز نے اس شیریں زبان کو وہاں تک پہنچا دیا کہ محاورہ بن گیا کہ پڑھو فارسی اور بیچو تیل۔ ہمارے بڑوں سے یہ غلطی بھی ہوئی کہ بچوں کو عربی تعلیم بھی نہیں دے سکے کہ جس پر ہمارے دین کی بنیاد تھی۔ عربی صرف انہوں نے پڑھی جو آخری چوائس کے طور پر مدرسوں میں گئے اور پھر فرقوں کا شکار ہوئے۔پھر وہی ہوا کہ بات یہاں تک پہنچی مذہب تک کو اپنے مقاصد کے لئے استعمال کیا گیا۔ وہی جو اقبال نے کہا خود بدلتے نہیں قرآں کو بدل دیتے ہیں۔ بات یہ ہے کہ عربی فارسی سے بھی ایک ہاتھ آگے ہیں۔ اس زبان کی خوبصورتیاں اپنی جگہ آپ ذرا اس طرف آئیں تو ایک اور ہی جہان یہاں ہے ۔ وسعتیں گیرائیاں اور گہرائیاں سب سے بڑی بات کہ کائنات کی سب سے بڑی الہامی کتاب قرآن پاک اس میں ہے۔ کبھی آپ اس میں غوطہ زن ہوں صرف و نحوکا مطالعہ کریں بالکل مختصر سی بات میں کرنا چاہوں گا کہ شاید آپ کو ترغیب مل سکے یہ زبان بڑی پہلو دار ہے۔ اس میں ایک ماضی کا زمانہ ہے اور ایک مضارع اور مضارع ہی میں حال اور مستقبل ہے۔ پھر یہ واحد زبان ہے جس میں اس کے افعال میں باقاعدہ ایک سائنس ہے معنی آفرینی ہے کمال دیکھیے کہ اس کا دارومدار لفظ کے مادہ پر ہوتا ہے صرف ایک مثال کہ میں دقت نہیں ڈالنا چاہتا۔ ایک مادہ ہے ن ز اور ل جس سے بنا ہے نزّلٰ یعنی نازل ہونا اترنا یعنی ثلاثی مجرد باب کا لفظ جب باب افعل میں آتا ہے تو نزّلٰ کے ساتھ الف لگا کر اسے انزل بنا دیا جاتا ہے جس کا مطلب ہے اتارنا گویا ایک لازم فعل کو متعدی بنا دیا جاتا ہے۔ متعدی سے مراد کہ وہ فعل جو مفعول طلب کرے۔ اس کے بعد ایک لفظ نزل باب تفعیل سے ہے۔ گویا اس کا مطلب ہوتا ہے تھوڑا تھوڑا کر کے اتارنا۔ قرآن پاک میں انزل اور نزل دونوں الفاظ استعمال ہوتے ہیں پہلے میں قرآن یک دم لوح محفوظ سے اتارا گیا اور پھر تھوڑا تھوڑا کر کے۔بس میں اجازت چاہوں گا مقصد یہ کہ آپ ذرا عربی زبان کی طرف آئیں تو قرآن کا فہم نصیب ہو گا۔