تاریخ کے ترارزُو میں
رُبع صدی قبل ہم نے برِ صغیر کی رنگا رنگ بلکہ دنگا دنگ تاریخ کے تناظر میں مؤرخ کے مقابل مُورکھ کی اصطلاح وضع کی تھی کیونکہ ہر اہلِ نظر جانتا ہے کہ جو قلم کار عقل کو استعمال میں لاتے ہوئے تاریخ رقم کرے اسے تو مؤرخ کہا جا سکتا لیکن جو قلمی مزدور اَکل (رزق) کو مدِ نظر رکھ کر حالات کا تجزیہ کرے، اُسے نہایت آسانی اور روانی سے مُورکھ کہا جا سکتا ہے۔ سچ پوچھیں کبھی کبھی تو درہم و دینار کے ہُڑک میں رقم کیے گئے مغموم ’شاہنامے‘ منظوم کرنے والے غرض مندوں کے شاہ پاروں کو بھی منٹو کے ’سیاہ حاشیے‘کی رِیت میں ’سیاہ نامے‘ کا نام دینے کو جی چاہتا ہے۔ سب جانتے ہیں کہ برِ صغیر میں مستند مسلم تاریخ کا آغاز تیرہ صدیاں قبل محمد بن قاسم (712ئ) سے ہوتا ہے۔ اُس سترہ سالہ نوجوان مردِ مجاہد کا جو انجام سامنے آیا، اس پر تاریخ حیرت میں، جغرافیہ انگشت بدنداں اور اخلاقیات گم صم ہے کہ اسے فاتح کہیں یا مفتوح؟ مقبول کہیں یا مقتول؟ بہادر کہیں یا مظلوم؟ پھر ذرا اپنے ہزاروں سال پرانے اس لاہور ہی پہ نظر کر لیں، جس کی ہزار سال سے پہلے کی مستندیا تفصیلی تاریخ ہی غائب ہے۔ اسی ہندوستان میں غزنوی دور 1021ء سے 1186ء تک یعنی ایک سو پینسٹھ برس پر محیط ہے، جس میں راج کرنے والے سولہ بادشاہوں کے نام بھی شاید کسی کو یاد نہ ہوں۔ سرکاری مطالعہ پاکستان کے مطابق محض محمود غزنوی کے سومنات پر سترہ حملوں کی بازگشت سنائی دیتی ہے۔ اسے بھی ہم سنہری اور ہندو سونا طلبی کا نام دیتے ہیں۔ اسی طرح غوری دور پہ غور کریں تو وہ تین سو اڑتیس سالوں پر محیط ہے، جس میں چھیاسی سال تو خاندانِ غلاماں کی ایڈہاک تقرری کا زمانہ ہے۔ حیرت کی حد یہ ہے وہاں کسی کو نیا بادشاہ مقرر کرنے کی فرصت نہیں ملی اور یہاں خاندانِ غلاماں ہی کے غلام ہونے پر نہ صرف فخر کیا جا رہا ہے بلکہ ان کے کارناموں کے قصیدے پڑھے جاتے ہیں۔ حالانکہ حقیقت میں ہمارے پاس انارکلی کی ایک مہین سی گلی میں واقع گھوڑے سے گر کے ’شہید‘ ہو جانے والے قطب الدین ایبک کے بوسیدہ سے مزار اور شفیق الرحمن کی ’تزکِ نادری جدید‘ کے سوا کچھ نہیں بچا، جس میں ہمارے شوخ مزاح نگار لکھتے ہیں کہ: ’ ہم اہلِ ہند کو غیر ملکیوں سے حکومت کروانے کا اتنا شوق ہے کہ ہم نے تو خاندانِ غلاماں سے بھی حکومت کروائی۔‘ تھوڑا آگے چلیں تو پتہ چلتا ہے کہ اُردو نصابوں میں خاندانِ تیموریہ کا بانی ایک مدرس چیونٹی یا اپنے لنگ کی وساطت سے زندہ ہے۔آج کل ہمارے مختلف شہروں میں ’تجاوزات‘ کی آڑ میں جو کچھ ہو رہا ہے۔ اس سے ہمیں ایک مسلم بھارتی ادیب کا رقم کردہ واقعہ یا المیہ یاد آ گیا کہ پورے ملک میں مسلمانوں کو روایتی ہندو تعصب کا نشانہ بنایا جا رہا تھا کہ ایک ماہرِ آثارِ قدیمہ نے کسی مخالف کے گھر کی بابت نشان دہی کر دی کہ اس کے نیچے خاندانِ تیموریہ کے نہایت اہم آثار ملنے کا اِمکان ہے۔ چنانچہ پورے گھر کو مسمار کر کے بنیادیں تک کھود ڈالی گئیں۔ مصنف موصوف لکھتے ہیں کہ اُس گھر سے اور تو کچھ نہ نکلا البتہ نشان دہی کرنے والے کی حسرت نکل گئی۔ پھر فلموں ڈراموں کی نظرِ کرم سے تاریخ واضح ہونا شروع ہوتی ہے تو معلوم ہوتا ہے کہ 1524ء میں تختِ لاہور ظہیر الدین بابر کے قبضے میں آ گیا۔ پھر 1526ء کو اس کی پورے ہندوستان پر باقاعدہ حکومت قائم ہو گئی لیکن چار سال بعد وہ ہمیں ’بہ عیش کوش کہ عالم دوبارہ نیست‘ کا درس دے کر خود اس کی حسرت ہی میں وفات پا گیا۔ اس کے بعد والے شہنشاہِ ہند جناب نصیر الدین ہمایوں کا تو سرکاری کتابوں میں بھی حال اتنا پَتلاہے کہ اس پہ فخر کم اور ترس زیادہ آتا ہے کہ موصوف آج بھی اپنے کسی ذاتی کارنامے کی بجائے نظام سقہ کے مشکیزے اور یک روزہ اقتدار کے حوالے سے زندہ ہیں، جب کہ لاہور پر دس سال حکومت کرنے والے انھی کے ایک برادر جناب کامران کی صرف بارہ دری باقی ہے۔ مرزا مُفتہ کے بقول تو لاہور میں اتنا بادشاہ کامران مشہور نہیں جتنا کامران لاشاری مشہور ہے۔ ذہن کے کچھ مزید قدم بڑھائیں تو ذرا سا آگے ہمیں ارد گرد کے با اثر خاندانوںکی سُندر ہندو رانیوں اور مزاروں کے راجوں سے بیٹا طلب کرنے والے مہاراجہ نیز دینِ الٰہی کے بانی، ابو الفضل کے تابع غیر مہمل، رنگا رنگ نو رَتنوں پہ فاخر، فلم سازوں کے فیورٹ یعنی جاہ و جلال والے مغلِ اعظم جناب جلال الدین اکبر کی بازگشت سنائی دیتی ہے، جن کے دور ِ حکومت میں ہندوستان کو مبالغے کی معجون کھلا کے بھی ’اسلامی سلطنت‘ تو کسی طور نہیں کہا جا سکتا۔ اُس کا تو سب سے بڑا اِٹ کھڑکا بھی مَنتوں مرادوں سے حاصل کردہ لاڈلے بیٹے شیخو یعنی نور الدین جہانگیر سے پڑتا ہے، جس کو عمر بھر ہرنوں اور ’ہرنیوں‘ کے شکار سے ہی فرصت نہیں ملی۔ اس پر مجھے اپنا ہی ایک پرانا جملہ رہ رہ کے یاد آ رہا ہے کہ: ’’انارکلی کی ماں اکبر کے گھر میں آیا تھی، اکبر کا بیٹا بھی انارکلی کے گھر میں آیا تھا۔‘‘ اس کے بعد محض چودہ بیویوں پہ گزارہ کرنے والے شہاب الدین محمد شاہجہان کہ جس کا ایک لاڈلی بیوی ممتاز محل کی یاد میں بنوایا ہوا تاج محل اور بے تاج کمپنی کے سُرمے کی سلائیاں پھرواتا نورِ نظر نیز بے شمار خوابوں سے سجی ہوئی بے نور آنکھیں تاریخ کے پَنّوں پہ دھری ملتی ہیں۔ تاریخ اور ادب کے پارکھوں کے نزدیک بے پناہ لاگت اور بے مثل پتھروں سے تعمیر کردہ دنیا کے اس آٹھویں عجوبے پر بھی ساحر لدھیانوی کی نظم کا سایہ ہے۔ اِک شہنشاہ نے دولت کا سہارا لے کر ہم غریبوں کی محبت کا اڑایا ہے مذاق میری محبوب کہیں اور ملا کر مجھ سے پھر اپنے دُور پار کے ایک پیارے بھائی (کیونکہ اصلی والے تو اللہ کو پیارے ہو چکے تھے) کے ذریعے عظیم عالمگیری مسجد تعمیر کرانے اور برِ عظیم میں بادشاہی کی نصف صدی کی بھرپور اننگز کھیلنے، مسجدوں کو بادشاہی بخشنے اور ٹوپیوں کی سلائی پہ گزر بسر کرنے والے (بعض منھ پھٹ تو یہ سوال کرنے سے بھی نہیں چُوکتے کہ باپ کی آنکھوں میں پھرنے والی سلائی اور ٹوپیوں کی سلائی میں کیا فرق ہے؟ کئی ناقدین (اس سے مراد ،دین کے ناقد نہیں) تو منھ بھر کے یہ سوال بھی پوچھتے پائے گئے ہیں کہ اتنی بڑی سلطنت کے فرماں روا اور اتنی مصروف ازدواجی زندگی والے شوہر کو مزدوروں والے معمولی کام پہ وقت ضائع کرنا زیب دیتا ہے؟ ) جی ہاں دوستو! یہ اپنے ہر دل عزیز محی الدین اورنگزیب عالمگیر ہیں کہ جن پہ صدیوں سے لگا کٹھ ملّاؤں کے اسلام کا الزام نظرانداز بھی کیا جا سکتا ہے لیکن شہروں کے قہروں سے کوچ کرنے والے جوگی، ابنِ انشا کے اس جملے کا کیا کیا جائے؟ ’’اورنگ زیب بڑا متدین بادشاہ تھا۔ اس نے زندگی میں کوئی نماز قضا نہیں کی اور کوئی بھائی زندہ نہیں چھوڑا۔‘‘ ایسے میں لالہ بسمل بھی یاد آتا ہے: ایک اِک قطرہ ندامت ، دو دو ماشے غیرت کے شرم سے آنکھیں جھکی پڑی ہیں، منھ بھی کھلے ہیں غیرت کے (جاری)