نقار خانے میں صدا
سب جانتے ہیں کہ 8 فروری2024 ء کو پاکستانیوںنے جس رائے کا اظہارکیا ۔ میڈیا کی تو خیراور بات ہے۔ جس دن اس کی شہ رگ پرگرفت ڈھیلی پڑنے لگی، ایک بار پھر سے چہچہانے لگے گا۔ عدلیہ کا معاملہ مگر مختلف ہے۔چیف جسٹس آفریدی صاحب نے بجا طور پر سپریم کورٹ کو ’ٹائٹینک ‘سے تشبیہہ دی ہے۔درحقیقت تمام قومی ادارے ٹائٹینک ہی ہوتے ہیں۔برسوں کی ریاضت سے جو تعمیرکئے جاتے ہیں۔ ایک دفعہ درست سمت سے ہٹ جائیں تو برف کے کسی ہولناک تودے سے اُن کے ٹکرائو کو روکنا سہل نہیں ہوتا۔ خدا سے دعا ہے کہ جن کے قلم اور بازو ئے شمشیر زن کو اُس نے قوت عطا کی ہے، اُن کے دلوں میں رحم بھی ڈال دے۔کچھ اور نہیں تو احساسِ زیاں ہی پیدا کردے۔دل شکستگی کے اس عالم میں، آئیے،8 فروری 2024 ء کے بعدانہی صفحات پرچھپنے والے اپنے کچھ کالموںسے لئے گئے چند اقتباسات کی مدد سے عہدِ زیاں کے ایک برس پر ایک نظر ڈالتے ہیں ۔ ٹھیک ایک برس قبل اپنے 11فروری 2024ء کے کالم میںہم نے لکھا،ـ’’8 فروری کوملک کے طول وعرض میںپھیلے ہزاروں پولنگ سٹیشنوں کے سامنے پاکستانی امڈ آئے تھے۔طویل قطاروں میں کھڑے ووٹ کے ذریعے جنہوں نے’ انتقام‘ لینے کی ٹھان رکھی تھی۔ صرف نوجوان ہی نہیں، بڑی تعداد میں بزرگ بھی گھنٹوں قطار میں کھڑے رہے۔ عام شہریوں کی ایک قطار میں جانے پہچانے ریٹائرڈ جرنیلوں سمیت اپنے کئی دوستوں کو بھی دیکھا توامید کی لَو تیز ہوگئی ۔ وہیل چیئرز پر بیٹھے بزرگوں کو پوتے پوتیاں، نواسے ، نواسیاں اندر باہرلئے پھررہے تھے۔ فضاء میں جوش تھا، ولولہ تھا اور اِک اُمید تھی۔رنج و غم بھی بہت تھا۔مہینوں روا رکھے جانے والے جبر اورپری پول دھاندلیوں کا مگر کوئی تذکرہ نہیں کر رہا تھا۔ دل اگرچہ بھرے ہوئے تھے۔‘‘ ’’نتائج وصول ہونے لگے تو بہت جلد ہوا کا رُخ بھی متعین ہونے لگا۔ تمام تر رکاوٹوں اور مشکلات کہ تاریخ میں جن کی مثال نہیں ملتی، انتخابی نشان کے بغیر میدان میں اترنے والی پارٹی کے’ نامزد امیدوار‘بھاری تعداد میں جیت رہے تھے۔ شام گئے، دن کے غیر معمولی طور پربڑے ٹرن آئوٹ کا اثر صاف دکھائی دینے لگاتھا۔اندرونِ سندھ بوجہ وہی ایک خاندان جیت رہا تھا۔ کراچی اورپختونخوا میں مگرعوامی عزم آندھی بن کرچھا چکا تھا۔دھرتی کا خون چوسنے والے صدیوں پرانے بے ثمروسایہ شجر جڑوں سے اکھڑ رہے تھے۔پنجاب میں بھی غیر معروف امیدواروں کے ہاتھوں بڑے بڑے برج الٹائے جانے کا ’ٹرینڈ‘ جاری تھا۔بیلٹ باکسز بول رہے تھے۔ دو چار گھنٹوں کے اندر ہی مگر نتائج آنے کا سلسلہ بغیر کسی وجہ کے یکدم رک گیا۔ ماسوائے ایک خاندان کے،تمام سیاسی جماعتوںسمیت ہر ٹی وی چینل پر مبصرین نے سوالات اٹھانا شروع کر دیئے۔کیا ہو رہا تھا کوئی نہیں جانتا تھا۔ہر کوئی پوچھ رہا تھا کہ اس ہنگام چیف الیکشن کمشنر صاحب کہاں ہیں؟‘‘ انتخابی نتائج کے بعد 4 مارچ2024 ء کے اپنے ہفتہ وار کالم میں ہم نے عرض کیا،’’ 8 فروری کے بعد سے تواتر کے ساتھ الیکشن میں دھاندلی سے متعلق لگائے جانے والے خوفناک الزامات کوئی نیک شگون نہیں۔ مولانا فضل الرحمٰن اور محمود اچکزئی جیسوں کی جانب سے ’ الیکشن میں رشوت دیئے لئے جانے‘ جیسے الزامات ہم جیسوں کے لئے دلخراش ہیں۔خیبر پختونخوا میں ٹی ٹی پی جیسی پُر تشدد اورپی ٹی ایم جیسی مرکز گریز تحریکیں پہلے سے فعال ہیں ۔ مئوخر الذکر کو تو نہ صرف یہ کہ طاقتور مغربی لابی کی حمایت حاصل ہے بلکہ یہ گروہ نوجوان پختونوں میں کسی حد تک اثر و رسوخ بھی پیدا کرنے میں کامیاب ہو چکا ہے۔ مولانا کی بے چینی کا حل موجودہ حکومتی بندوبست کے اندر اُن کی جماعت کو حصہ دار بنا کر ڈھونڈا جا سکتا ہے۔ تاہم دیگر قوم پرست جماعتوں کے جانب سے بولی جانے والی حالیہ زبان اور الزامات کو سنجیدگی سے لیا جاناضروری ہے۔عالمی مفادات کا ٹکرائو بلوچستان میں لگی آگ پر تیل کا کام کر رہا ہے۔ قومیت پسندوں اور مرکزگریز تحریکوں کے راستے میں پی ٹی آئی نوجوانوں میں مقبول ملک گیر جماعت کی حیثیت سے ایک موثر رکاوٹ رہی ہے۔ یہ وقت مزید محاذ آرائی کا نہیں، زخموں پر مرہم رکھنے کا ہے۔مقتدر حلقوں کی جانب سے اب عوامی مینڈیٹ کو تسلیم کئے جانا ہی دانش مندی کا تقاضہ ہے۔ سیاسی قیدیوں کی فوری رہائی ،چھینے جانے والے انتخابی نشان کی واپسی، اور مخصوص نشستوں کی الاٹمنٹ جیسے اقدامات سے درست سمت میںسفر کا کم از کم آغا ز تو کیا جا سکتا ہے۔ حکمت کا تقاضہ یہ بھی ہے کہ ملک پر ایک غیر مقبول بندوبست مسلط کئے جانے اور اس کی مسلسل پشت پناہی کے تاثرسے متعلق پائی جانے والی اشتعال کی حدوں کو چھوتی بے چینی کی تپش کو محسوس کیا جائے۔‘‘ سیاسی قیدیوں کی رہائی اور مخصوص نشستوں کی واپسی سمیت درست سمت میں سفر کا آغاز تو کیا ہونا تھا،اُلٹا خود چیف جسٹس کی معاونت کے ساتھ حکومت اور پارلیمنٹ جس طرح عدلیہ پر حملہ آور ہوگئے، اس پر ہم نے اپنے3نومبر 2024ء کے کالم میں لکھا،’’ آمرانہ ذہنیت رکھنے والے حکمرانوں کے جن رویوں میں غیر معمولی مماثلت پائی جاتی ہے ان میں آئین سے روگردانی،عام انتخابات کو پسِ پشت یا التواء میں ڈالے جانے اور شخصی آزادیوں کو کچلنے جانا شامل ہیں۔ آزاد عدلیہ اِن من مانیوں کی راہ میں آڑے آتی ہے۔چنانچہ پہلے مرحلے میں عدلیہ کو زیرِ دام لایا جاتا ہے۔ عدلیہ کی سرکوبی کے بعداگلے مرحلے میں سیاسی مخالفین کو انہی عدالتوں سے نااہلی، قید وبند، حتی کہ پر تشدد کاروائیوں کے ذریعے منظر نامے سے ہٹا کر پارلیمنٹ کو اپنے کاسہ لیسوں سے بھر دیاجاتا ہے۔تیسرے اور حتمی مرحلے میں غیر موثرکردی جانے اِسی پارلیمنٹ کوججوں کی تعداد کو گھٹا بڑھا کر’کورٹ پیکنگ‘ اور قوانین میں رد وبدل جیسے ہتھکنڈوں کے ذریعے مزیدبے اثرکئے جانے اور ’کھیل کے من پسند قوانین‘ لکھے جانے کے لئے استعمال کیا جاتا ہے۔ اس سب کے نتیجے میں حکومتیں اور قانون نافذ کرنے والے ادارے بالآخر عوامی جواب دہی سے لا تعلق اور خود سر ہوجاتے ہیں۔ میڈیا کو دھونس دھمکیوں سے خاموش جبکہ سوشل میڈیا پرقوانین میں ردو بدل سمیت دیگر ہتھکنڈوں کے ذریعے قابو پائے جانے کی کوششیں عام ہو جاتی ہیں۔ اس سب کے بیچ بے اثر کر دی جانے والی عدلیہ خاموش بیٹھی سب تماشا دیکھتی ہے۔ ‘‘ ایک اردو اخبار میں لکھنے والا ازکارِ رفتہ سپاہی اب اور کیا لکھے!