ہمیں بھی اپنی روش بدلنی چاہیے
ہمارے محترم مجیب الرحمن شامی صاحب اور چوہدری خادم حسین ایک عرصے سے یہ کوشش کرتے اور لکھتے آ رہے ہیں کہ پاکستان کے تمام اسٹیک ہولڈرز کو پاکستان کی خاطر اپنی اپنی انا کو چھوڑ دینا چاہیے اور استحکام پاکستان کے لیے سب کو مل بیٹھ کر معاملات کو حل کرنے کی کوشش کرنا چاہیے چوہدری خادم حسین فلسطین اور کشمیر کی صورتحال پر اپنی پریشانی کا اپنے کالموں میں بارہا اظہار کر چکے ہیں لیکن ابھی تک کسی طرف سے روشنی کی کوئی کرن نظر نہیں آ رہی، دنیا کا سورج تو مشرق کی طرف سے روشنی کی کرنیں بکھیرتا ہوا نمودار ہوتا ہے لیکن ہماری روشنی کی کرن مغرب کی طرف سے ہی نکلتی ہے لیکن انہوں نے تو جیسے تمام دیے گل کر رکھے ہیں۔
کیا ہمارے حکمرانوں اور سیاستدانوں کو دنیا کی پل پل بدلتی صورتحال کا ادراک نہیں یا پھر کبوتر کی طرح آنکھیں موند کر سمجھ رہے ہیں کہ خطرہ ٹل جائے گا؟ ادھر امریکی صدر ٹرمپ آنکھوں میں خمار لیے ایک طوفان کی مانند دنیا کے لیے خطرات پیدا کر رہے ہیں کتنی دیدہ دلیری سے غزہ پر قبضے کا اعلان کر کے اس پر مصر ہیں اور سعودی عرب کو امریکہ میں سرمایہ کاری کرنے کا حکم صادر کر دیا ہے ادھر اسرائیلی وزیر اعظم نے امریکی دورے کے دوران اپنے میڈیا کے سامنے کس بے شرمی سے بیان دیا ہے کہ سعودی عرب فلسطینیوں کو اپنے ملک میں ریاست بنانے دے کیونکہ سعودیہ کے پاس رقبہ بہت زیادہ ہے. اس کے ساتھ ہی نیتن یاہو کا کہنا تھا کہ ٹرمپ اسرائیل کا سب سے اچھا دوست ہے اور ٹرمپ کی قیادت میں امریکہ اسرائیل دوستی مزید مضبوط ہوگی اور ہم ڈونلڈ ٹرمپ کے ساتھ مل کر تاریخ بدل سکتے ہیں نیز ہم حماس کی باقیات کو ختم کر دیں گے (دوسرے لفظوں میں فلسطینیوں کو ختم کریں گے) ٹرمپ اور نیتن یاہو کے بیانات سے یہ بات واضح ہو گئی ہے کہ ان کے عزائم انتہائی خطرناک ہیں یہ نہ صرف فلسطینیوں کی نسل کشی اور ان کی اپنی زمین سے انہیں بے دخل کرنے کا منصوبہ رکھتے ہیں بلکہ ان کی نظریں سعودی عرب، ایران اور دوسرے عرب ممالک پر بھی ہیں کہ کس طرح مسلمانوں کو کمزور کیا جائے، ٹرمپ نے اقتدار سنبھالتے ہی کئی احمقانہ اقدامات کا اعلان کرتے ہوئے اپنے ہمسایہ ممالک، چین اور یورپ کے ساتھ معاشی محاذ آرائی شروع کر دی ہے جس سے یہ تمام ممالک پریشان اور جوابی کاروائی کے اقدامات کر رہے ہیں ایک ہم ہیں کہ خواب خرگوش کے مزے لے رہے ہیں پاکستان کی بین الاقوامی برادری میں کیا حیثیت ہے؟ کسی بھی بین الاقوامی فورم پر پاکستان کی آواز نہیں ہے ہماری ساری قوت آپس میں ایک دوسرے کو ہرانے اور نیچا دکھانے پر لگائی جا رہی ہے ہماری فوجی قیادت اور عوام کے بیچ خلیج پیدا کی جا رہی ہے سیاستدان آپس میں باہم دست و گریبان ہیں، اعلی عدلیہ کے ججز بھی ایک دوسرے کے خلاف شکوے شکایت کرتے نظر آتے ہیں میڈیا پیکا قانون کی زد میں ہے حکمران اور اسٹیبلشمنٹ ہر کام ڈنڈے کے زور پر کرنا چاہتے ہیں ادھر دہشت گردی بڑھتی جا رہی ہے جس کی وجہ سے ہمسایہ ملک افغانستان کے ساتھ تعلقات میں بھی بگاڑ پیدا ہو رہا ہے ملک قرضوں تلے کراہ رہا ہے اور مہنگائی کم ہونے کے تمام تر دعووئں کے باوجود زیادہ تر اشیاء کی قیمتوں میں اضافہ دیکھنے میں آ رہا ہے خدا خدا کر کے ملک میں بین الاقوامی کرکٹ بحال ہو رہی ہے اور چمپئن ٹرافی کا مکمل نہ سہی اور بغیر افتتاحی تقریب ہی کے سہی پاکستان میں انعقاد تو ہو ہی رہا ہے لیکن اسی دوران پی ٹی آئی کی طرف سے احتجاج کی دھمکیاں بھی دی جا رہی ہیں، آئی ایم ایف کا وفد بھی پاکستان میں موجود ہے جو کئی شعبوں میں بدعنوانی اور قانون کی حکمرانی کا جائزہ لینے آیا ہوا ہے یہ وفد، اسٹیٹ بینک، ایف بی آر کے سربراہان، وزارت قانون و انصاف کے علاوہ الیکشن کمیشن کے کام کا جائزہ بھی لے گا، اس تمام صورتحال کے باوجود ہمارے حکمران اپوزیشن سے بامعنی اور بامقصد بات چیت کی بجائے دھونس دھاندلی سے کام لے رہے ہیں۔
کیا ہمارے ارباب اختیار کبھی اپنی روش بدلیں گے یا نہیں؟ کیونکہ 77 برس سے اس ملک کی میں روش جاری ہے کہ ایک حکومت آتی ہے اسے کام نہیں کرنے دیا جاتا اور دو سے چار برس میں انہیں گھر بھیج دیا جاتا ہے جس سے پالیسیوں کا تسلسل رہتا ہے نہ ملک آگے بڑھتا ہے۔
کم از کم اس وقت عالمی خطرات کا ہی ادراک کر لیا جائے اور اپنے گھر کے معاملات کو سلجھا کر کشمیریوں اور فلسطینیوں کی مدد کی کوئی راہ نکالی جائے، ہم سنتے آئے ہیں کہ پاکستان اسلام کا قلعہ ہے کیا قلعے ایسے ہوتے ہیں جن کے اندر رہنے والے باہر کے خطرات پر نظر رکھنے کی بجائے قلعے کے اندر خود دست و گریبان ہوں؟ کیا پاکستان میں کوئی بھی ایسی سیاسی قیادت نہیں جو موجودہ عدم استحکام کو ختم کر کے حالات ٹھیک کرنے کا کردار ادا کر سکے؟ ہماری فوجی قیادت کو بھی یقیناً مسلمانوں کی طرف بڑھتے خطرات کا باخوبی اندازہ ہوگا اور وہ یہ بھی جانتے ہیں کہ پاکستان میں کوئی بھی ایسا سیاسی لیڈر یا سیاسی جماعت نہیں ہے جو مقتدرہ کی مکمل حکم عدولی کی سکت رکھتی ہو لیکن جب کسی کو بالکل دیوار سے لگانے اور عوامی رائے کو روند کر اپنی مرضی کے قوانین بنانے اور لاگو کرنے کی کوشش کی جائے اور انصاف کے سارے راستے بند کر دئیے جائیں گے تو پھر ملک کے اندر گھٹن تو ہوگی اور اس گھٹن میں کچھ لوگ پھڑکنے کی کوشش تو کریں گے نا، ہمارے ہاں ریاست کا مطلب فوجی قیادت ہی کو سمجھا جاتا ہے اور ریاست کو ماں بھی کہا جاتا ہے تو پھر ماں کو اپنا کردار ادا کرنا چاہیے اور ساری اولاد کو ایک ہی نظر سے دیکھ کر فیصلے کرنے چاہئیں پاکستان کو عرب اور دوسرے کئی مسلم ممالک میں یہ امتیاز حاصل ہے کہ ایک تو ہم ایٹمی طاقت ہیں دوسرا جیسے کیسے بھی ہوں ہم جمہوری مملکت ہیں ہمارا ایک آئین ہے جس کی چھتری تلے ہم مضبوط ہیں تو پھر کیوں نہیں سوچتے کہ ہم تمام مسلمانوں کے لیے بڑا کردار ادا کریں؟