بیک پیکرصحافی
جاپان میں لفٹ مانگنے کا رواج بالکل بھی نہیں ہے۔ ایک عشرے سے زائد عرصے پر محیط اپنے قیام کے دوران میں نے یہاں فقط دو مرتبہ کسی کو لفٹ مانگتے ہوئے دیکھا ہے۔ پہلی دفعہ ایک پہاڑی سلسلے کے دامن میں واقع موٹروے کے سروس ایریا کے کنارے کھڑے شخص کو ہاتھ میں لفٹ کی درخواست کا سائن بورڈ پکڑے دیکھا، اس دن غالباً میں بوجوہ جلدی میں تھا، نظر انداز کرکے گزر گیا۔ اس مرتبہ اسی ڈھنگ سے سڑک کنارے کو ہ پیماؤں جیسا بیگ پشت پر لادے ایک نوجوان کو لفٹ مانگتے دیکھا تو میں رک گیا۔ شدید سردی میں برفانی لمبے کوٹ کے باوجود یہ لڑکا ٹھٹھر رہا تھا۔ سچی بات مگر یہ ہے کہ میں صرف انسانی ہمدردی کے جذبے سے مغلوب ہو کر اس طالب علم کو اپنی گاڑی میں لفٹ دینے پر آمادہ نہیں ہوا تھا، بنیادی محرک شاید اس نایاب مخلوق کی کہانی جاننا بھی تھا۔ آخر یہ فقید المثال کون ہے جو اس دیس میں لفٹ مانگ رہا ہے جہاں شاید اکثریت کو اس درخواست کے مفہوم سے بھی آشنائی نہیں، کیا یہ ممکن ہے کہ جیب میں ٹکٹ کے پیسے نہیں ہیں تو آدمی اس طریقے سے بھی منزل تک پہنچ سکتا ہے؟ مغربی دنیا میں لفٹ مانگنا بہت عام سی بات ہے اور اس طریقے سے مفت سفر کرتے ہوئے بیک پیکر ز بھی آپ کو روز سڑک کنارے انگوٹھے کے اشارے سے،ساتھ لے جانے کی درخواست کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔
مشرقی روایات اور شرمیلے پن کے سبب عمومی طور پر جاپانی لفٹ نہیں مانگتے،میرا گمان تھاکہ یہ آدمی کوئی خاص ہو گا۔اس کی کہانی ذرا الگ ہو گی۔ میرا شک درست نکلا۔ یہ نوجوان طالب علم یونیورسٹی میں صحافت کے آخری برس کی تعلیم حاصل کر رہا تھا۔ تجربے اور ذہنی وسعت کے لئے یہ جاپان کے آخری کونے سے بذریعہ سڑک مختلف لوگوں سے لفٹ لیتا ہوا، یہاں تک پہنچا تھا۔ میری کار میں بیٹھتے ہی اس نے شکریہ ادا کیا اور ٹیپ ریکارڈر آن کرتے ہوئے کہنے لگا،آپ کی اجازت سے میں یہ گفتگو ریکارڈ کرنا چاہتا ہوں۔ اس سے پہلے کہ وہ مجھ سے کوئی سوال کرتا، میں نے گاڑی حرکت میں آتے ہی اس سے پوچھ لیاکہ وہ کہاں سے آیا ہے؟ کیا کرتا ہے؟ یہاں کیسے پہنچا؟ نوجوان بڑے شائستہ لہجے میں بولا کہ میں ہوکائیدو سے آ رہا ہوں، جوکہ جاپان کا آخری کنارہ ہے اور نتہائی سرد علاقہ ہے،یہاں تک وہ بیس لوگوں سے لفٹ لے کر پہنچا تھا، ہمارے پنجابی محاورے کے مطابق ”خجل خوار“ ہو کر مذکورہ مقام تک مجھ سے ملا تھا۔
سفر کا سبب جان کر البتہ مجھے حیرت ہوئی۔وہ گزشتہ تین دن سے اس سفر کے دوران مختلف لوگوں کے انٹرویو لیتا آ رہا تھا، میں اکیسواں ڈرائیور تھا جس سے وہ سوالات کر رہا تھا اور تاثرات ریکارڈ کر رہا تھا۔یہ انٹرویو وہ ریڈیو پوڈ کاسٹ پر نشر کرتا ہے۔ یہ جان کر مجھے مزید حیرت ہوئی کہ یہ اس کی یونیورسٹی کی کوئی اسائینمنٹ نہیں تھی بلکہ ذاتی شوق کے سبب وہ یہ کٹھن سفر کر رہا تھا۔ صحافت کا مصدر صحیفہ ہے اور صحافی فاعل ہے، انگریزی میں جرنلزم، جرنل اور جرنلسٹ بھی اسی مفہوم کے حامل ہیں، میں نے اس نوجوان صحافی کے جذبے کی تعریف کرتے ہوئے یہی بات اس کے سامنے رکھی کہ ریڈیو پوڈکاسٹ کو کیا یہاں صحافت مانا جاتا ہے؟ کہنے لگا کہ الیکٹرانک میڈیا اور بالخصوص انٹر نیٹ کی آمدسے بہت کچھ گڈمڈ ہوگیا ہے۔ یوشیدا نامی اس نوجوان کا مزید کہنا تھاکہ اب صحافت کو دنیا بھر میں میڈیاکے ہم معنی سمجھاجانے لگا ہے، اپنے سفر کا مقصد بیان کرتے ہوئے کہا کہ ذہن کی وسعت اور عملی میدان کی بہتر آگاہی حاصل کرنے کے لئے اس نے رخت سفرباندھا ہے۔ راستے کی مشکلات اور موسم کی شدت کے بارے میں اس سے پوچھا تو کہنے لگاکہ یہاں کے لوگ بہت رحم دل اور اچھے ہیں۔مجھے لفٹ کے لئے زیادہ وقت تک انتظار نہیں کرنا پڑتا۔ ریڈوپوڈکاسٹ یا پھر بلاگ کوصحافت کہنے میں مجھے ذرا تامل ہے،بنیادی اعتراض میرا یہی ہے کہ ہر دو صورتوں میں ایڈیٹرکاوجود نہیں ہوتا۔ذاتی طور پر میں مدیر کوایک ادارہ سمجھتا ہوں اور اس کے بغیر شائع یا نشرہونے والاموادصحافت کے زمرے میں نہیں آتا۔یوشیداکامعاملہ اور مسئلہ بالکل ہی الگ ہے اس کا کہنا یہ ہے کہ عام روزمرہ زندگی میں کوئی جاپانی بات کرنے پرآمادہ ہی نہیں ہوتا، ریڈیو انٹرویو کا نام سن کرتووہ ایسے پھسلتاہے جیسے گیلے ہاتھ سے مچھلی پھسلتی ہے،مگرجب کوئی شخص گاڑی ڈرائیو کرتے ہوئے کہیں جا رہا ہو اور آپ اس کے ہمسفربن جائیں تو پھر بات کرنا آسان ہو جاتا ہے۔ پاکستانی صحافت اور سماج سے لے کرہمارے رسم ورواج تک اس نے مجھ سے ایسے ایسے سوال پوچھے جو مجھ سے زندگی میں آج تک کسی نے نہیں پوچھے۔تین گھنٹے کی اس بات چیت کے اختتام پر اس نے میرے ساتھ سیلفی بنانے کی فرمائش کردی،اس کے بعد کہنے لگا کہ کیا میں یہ انٹرویواپنے پوڈکاسٹ ریڈیو انٹرنیٹ چینل پر نشر کر سکتا ہوں، تصویربھی شائع کر سکتا ہوں۔ میں نے بخوشی ہاں!کردی۔
جس طرح شاعری میں موزونیت بنیادی شرط ہے، عروضی، قافیہ ،ردیف شاعر وقت کے ساتھ ساتھ سیکھ لیتا ہے، اسی طرح صحافی ہونے کی بنیادی شرط صحافتی رویہ ہے،باقی الفاظ کا چناؤ اور اصول و ضوابط وقت کے ساتھ آتے رہتے ہیں،مگر یوشیدا میری بات سے متفق نہیں تھا۔اس کا مانناہے کہ جب وہ عملی میدان میں اترے تواس کی مکمل تیاری ہونی چاہیئے۔نیم حکیم خطرہ جان۔اس کے نظریات سن کر اور جذبہ و شوق دیکھتے ہوئے میں نے اس کے روشن مستقبل کی ضمانت دے دی۔میری بات سن کر کہنے لگاکہ فی الحال تو وہ پارٹ ٹائم ایک میوزیکل گروپ کے سٹاف کے طور پر نوکری کرتا ہے،جہاں ا کا کنسرٹ ہو مجھے ساتھ بلالیتے ہیں،صبح کے وقت تو یونیورسٹی میں پڑھناہوتا ہے،والدین کے بارے میں پوچھاتو کہنے لگاوالدمحترم نے گھرسے نکال دیاہے،کہتے ہیں کہ بیس سال عمر ہو گئی ہے،اپناکماؤاور اپنا کھاؤ۔سفرکے خاتمے پر میں نے اسے ایک سستے کرائے والے ہوسٹل کے سامنے اتاردیا،اس کی بکنگ پہلے سے اس نے دوران سفر کروا لی تھی۔ یہاں وہ چند دیگر مسافروں کے انٹرویو کرنے کی کوشش کرے گا۔ گاڑی کی پچھلی نشست سے اپنا بیک پیک بستہ اٹھاتے ہوئے کہنے لگا کہ میں نے پاکستان کے متعلق بہت عجیب باتیں سن رکھی تھیں،مگرآپ لوگ تو بڑے نرم خو،ہمدرداور اچھے دل والے ہیں۔یہ سن کر میری شام حسین ہو گئی۔