Read Urdu Columns Online

Tankhawa Dar Tabqay Per Bojh Baqi Sab Azad Kion

تنخواہ دار طبقے پر بوجھ، باقی سب آزاد کیوں؟

وطن عزیز میں تنخواہ دار طبقہ اللہ میاں کی وہ گائے ہے جو دودھ بھی دیتی ہے اور سب سے زیادہ مار بھی کھاتی ہے۔ کل وزیراعظم شہبازشریف نے یومِ تعمیر و ترقی کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے جہاں اور بہت سی باتیں کیں وہاں یہ بھی تسلیم کیا کہ تنخواہ دار طبقے نے معیشت کی بحالی کے لئے اپنی بساط سے بڑھ کر کردار ادا کیا جب کوئی شخص سخت مشکل میں ہو، مگر اس کے باوجود اس پر بوجھ ڈال دیا جائے تو اسے کہا جاتا ہے بساط سے بڑھ کر بوجھ اٹھانا، ویسے تو ہمیشہ ہی سے ٹیکسوں کا زیادہ تر بوجھ تنخواہ دار طبقہ ہی اٹھاتا آیا تاہم پچھلے دو برسوں میں جتنا زیادہ بوجھ تنخواہ دار طبقے پر ڈالا گیا ہے، اس کی مثال نہیں ملتی۔ شاید اسی لئے وزیراعظم شہباز شریف کو یہ کہنا پڑا کہ تنخواہ داروں نے کڑے وقت میں بڑی قربانی دی۔ لیکن یوں لگتا ہے ابھی تنخواہ دار طبقے کی مشکلات کم نہیں ہوئیں، یا کم نہیں ہوں گی۔ ایک مصدقہ خبر کے مطابق ایف بی آر نے ملازمت پیشہ طبقوں پر ٹیکسوں کا بوجھ مزید بڑھانے کا فیصلہ کیا ہے اور اس سال یہ طبقہ 54فیصد زائد سالانہ ٹیکس ادا کرے گا۔ کل مجھے ایک اچھے بھلے عہدے پر فائز شخص نے بتایا اس کی ویسے تو تنخواہ تین لاکھ روپے ہے لیکن ٹیکس کٹنے کے بعد اسے صرف دو لاکھ روپے ملتی ہے۔ گویا ہر ماہ اس کی محنت کا 33فیصد حصہ حکومت رکھ لیتی ہے۔ اب اگر اس شرح کو مزید بڑھانے کا فیصلہ کیا گیا ہے تو یقینا اس کی تنخواہ ڈیڑھ لاکھ روپے رہ جائے گی، یہی حال اوپر سے لے کر نچلے درجے تک کے ملازمین کا ہے۔ بجٹ میں تنخواہیں پندرہ فیصدبڑھتی ہیں مگر ٹیکس دوگنا بڑھادیا جاتا ہے۔ یعنی ملازمین کو لینے کے دینے پڑ جاتے ہیں۔ ایک ہی بھینس سے آخر کتنا دودھ نکالا جا سکتا ہے۔ ٹیکسوں کے بوجھ کو تقسیم ہونا چاہیے۔ وزیراعظم شہبازشریف نے یہ تو کہا ہے اب بزنس کمیونٹی کو بھی آگے آنا چاہیے مگر ایسے کون آگے آتا ہے۔ تنخواہ داروں کو تو تنخواہ ملنے سے پہلے ٹیکس کٹ جاتا ہے۔ وہ نہ چھپ سکتے ہیں نہ ٹیکس چھپا سکتے ہیں، اگر انہیں بھی رضاکارانہ ٹیکس دینے کی پیشکش کی جائے ان میں سے آدھے ہاتھ کھڑا کر دیں کہ حضور گزارا نہیں ہوتا ٹیکس کیسے دیں۔ کسی سیانے کی یہ بات بالکل درست ہے کہ تنخواہ لینے والے کبھی خوشحال نہیں ہو سکتے۔ وہ اپنی محدود آمدنی کے دائرے میں گھومتے رہتے ہیں اور حکومت کو خراج ادا کرنے پر مجبور  ہیں۔ ہمارے علاقے میں چند برس پہلے ایک سپرسٹور کھلا۔ مالکان کے پاس سرمایہ زیادہ نہیں تھا۔ کرایہ پر ایک جگہ لے کر سٹور بنایا گیا۔ علاقے میں چونکہ کوئی اچھا سپرسٹور نہیں تھا، سو چل گیا۔ اب انہوں نے وہ کرائے والی جگہ بھی خرید لی ہے۔ کالونی  میں ایک بڑی کوٹھی بھی لے چکے ہیں۔ مہنگی گاڑیاں بھی رکھی ہوئی ہیں۔ کچھ عرصہ پہلے میرے ایک پروفیسر دوست نے جو تازہ تازہ ریٹائر ہوئے ہیں، پوچھا کہ میں 37سال ملازمت کرنے کے بعد ریٹائر ہوا ہوں تو مجھے چند لاکھ روپے ملے ہیں۔ میں اپنی زندگی میں گھر بھی نہیں بنا سکا۔ ٹیکس اتنا دیا ہے کہ بڑے بڑے سٹور والے بھی نہیں دیتے ہوں گے۔ اچھا ہوتا پروفیسری کی بجائے کوئی دکان کھول کے بیٹھ جاتا، آج کم از کم کروڑ پتی تو ہوتا۔ کہتے تو وہ بھی سچ ہیں۔ اس ملک میں کاروبار کو کھلی چھٹی ہے جس ریٹ پر مرضی چاہے بیچو اور سیلز ٹیکس بھی لوگوں سے وصول کرکے قومی خزانے میں جمع نہ کراؤ، انکم ٹیکس کی تو بات ہی نہ کرو، کوئی دباؤ ڈالے تو ہڑتال کردو، حکومت کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کرو اور اپنا دھندہ جاری رکھو۔

وزیراعظم فرماتے ہیں میرا بس چلے تو ٹیکس فوری طور پر پندرہ فیصد کم کردوں۔ میرا بس نہیں چلتا کہ آئی ایم ایف تازیانہ لے کر کھڑا ہے۔ چلئے صاحب مان لیتے ہیں آپ پندرہ فیصد ٹیکس کم نہیں کر سکتے مگر اتنا تو کر سکتے ہیں ٹیکس نیٹ کو بڑھائیں۔ گھوم پھر کر تنخواہ دار طبقے کی طرف ہی کیوں دیکھتے ہیں۔ اس ملک میں اربوں روپے کی جائیدادیں رکھنے والے، لاکھوں روپے روزانہ کا منافع کمانے اور عیش و عشرت کی زندگی گزارنے والے ٹیکسوں سے مبرا کیوں ہیں؟ آخر کیا وجہ ہے ان کا ڈیٹا ایف بی آر اکٹھا کرنے میں ناکام رہتا ہے۔ کبھی سمیں بلاک کرنے اور کبھی چھوٹی موٹی رکاوٹوں کا ڈراوا دے کر خاموش کیوں ہو جاتا ہے۔ ایک محفل میں بعض سرکاری ملازم بیٹھے ٹھٹھہ مخول کررہے تھے۔ ان کا کہنا تھا ایف بی آر افسروں کو ایک ہزار دس نئی گاڑیاں دینے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ ان افسروں نے آخر کرنا کیا ہے۔ ٹیکس تو صرف تنخواہ دار طبقے نے دینا ہے۔ اس کا ڈیٹا تو پہلے ہی ایف بی آر کے پاس ہوتا ہے۔ پھر یہ گاڑیاں سڑکوں پر بھگانے اور کروڑوں روپے کا پٹرول جلانے کی کیا ضرورت ہے۔ اب اسے چاہے مذاق سمجھا جائے، لیکن تلخ حقیقت یہی ہے۔ تاجر طبقہ ٹیکس دیتا نہیں، جو اشرافیہ ہے وہ کسی حکومت کو اپنی طرف دیکھنے کی اجازت نہیں دیتی۔ گھوم پھر کے وزیرخزانہ کی نظر تنخواہ دار طبقے پر آ ٹکتی ہے اور چھری کے نیچے وہی آ جاتا ہے۔

وزیراعظم خوش گمان ہیں کہ مشکل فیصلے کرلئے اب آگے بڑھنا ہے۔ حضور آپ نے کون سے مشکل فیصلے کئے۔تنخواہ دار تو گھڑے کی مچھلی ہیں جنہیں کسی وقت بھی پکڑا جا سکتا ہے۔ مشکل فیصلے اگر یہی ہیں کہ اس مجبور طبقے پر ٹیکس بڑھا دو تو حضور یہ مشکل نہیں سب سے آسان فیصلہ ہے۔ مشکل فیصلہ یہ ہوگا جب حکومت پنجاب حکومت کی طرح ٹیکس نہ دینے والے اور آمدنی چھپانے والوں کے خلاف تجاوزات ختم کرنے جیسی مہم شروع کرے گی۔ کارپوریٹ شعبے اور بزنس کمیونٹی کو حصہ ڈالنے کے مشورے نہیں دے گی بلکہ قومی خزانے کی لئے ان کی آمدنی کے مطابق حصہ وصول کرے گی۔ یہاں آکر حکومت اس منفی پروپیگنڈے کا شکار ہو جاتی ہے کہ بزنس کمیونٹی پر زیادہ سختی کی گئی تو سرمایہ کاری رک جائے گی اور ملک کا بڑا نقصان ہوگا۔ کیا دنیا کے کسی اور ملک میں بھی ایسا ہوتا ہے کہ لوگ بے تحاشہ کماتے ہوں، چند برسوں میں کروڑ پتی بلکہ ارب پتی بن جاتے ہوں مگر ان کے گوشوارے کسی مفلسی کی داستان پیش کررہے ہوں۔ منڈیوں کے کروڑ پتی آڑھتیوں میں تو اکثریت ایسے افراد کی ہوتی ہے، جو فائلر بننے کا جھنجھٹ بھی نہیں پالتے۔ پاکستان نے اگر ترقی کرنی ہے تو اسے دنیا بھر میں رائج ٹیکسوں کا نظام اپنانا ہوگا۔ وہاں تنخواہ دار طبقے اور بزنس کمیونٹی کے درمیان کوئی تفریق نہیں رکھی گئی۔ ایک جدول بنا دیا گیا ہے جس کے مطابق سب کو ٹیکس دینا پڑتا ہے۔ یہ نہیں جو جال میں آ جائے اس سے ٹیکس وصول کرلو اور جو جال میں نہ آ سکے اس کے آگے منتوں،ترلوں کی بساط بچھا دو۔ پاکستان میں جس طرح کاروبار پھل پھول رہا ہے۔ ہاؤسنگ سوسائٹیاں، بڑے بڑے شاپنگ مالز اور فیکٹریاں کارخانے لگ رہے ہین، نیز نت نئے ہوٹلوں اور ریستورانوں کی بہار آئی ہوئی ہے، اس کے حساب سے ٹیکس نیٹ میں اضافہ کیوں نہیں ہو رہا۔ کھربوں روپے کی ٹیکس چوری جیسے انکشافات تو کئے جاتے ہیں مگر یہ خبر کبھی نہیں آتی کہ اتنے ہزار ٹیکس چوروں کو پکڑ لیا ہے۔ خرابی کہیں نہ کہیں تو ہے جسے دور نہی کیا جا رہا۔

Check Also

Read Urdu Columns Online

Lahore Mein Gharonda Ki Aik Khubsurat Sham

لاہور میں گھروندہ کی ایک خوبصورت شام لاہور میں تقریبات کی بہار آئی ہوئی ہے۔ …

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *