مفاہمت، اس دیس کا سنہرااصول
ہر شخص اسے مجبور کر رہا تھا کہ وہ مفاہمت کر لے ، مگر اسے سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ کیا مفاہمت کرے۔ ایک چیز اس کی تھی اور اصولی طور پر اسی کی ہے ۔ غاصب کو حقدار تسلیم کر لوں۔یہ کہاں کا انصاف ہے؟کورٹوں میں بیٹھے انصاف کے رکھوالوں کو بھی اس نے دیکھا ہے ۔ وہ پورا ایک ماہ بھاگ دوڑ کرتا رہا ، بڑے بڑے با اثر لوگوں سے ملا، کوئی اس کی مدد کو تیار نہیں تھا۔سب کو اندازہ تھا کہ قبضہ کرنے والے بدمعاش اور اس علاقے کی پولیس کی ملی بھگت ہے جس کا واحد حل یہی ہے کہ بات مفاہمت سے ہی ختم ہو سکتی ہے ۔یہی سب کا مشورہ تھا۔ ٰوہ میرا ساتھی اور دوست ہے۔اس وقت وہ لاہور کے ایک مقامی کالج میں پڑھاتا تھا۔ دوپہر کو کالج سے فارغ ہو کر گھر جاتا۔ گھر میں کھانا کھانے کے بعد وہ اپنے ٹیوشن سنٹر چلا جاتا۔ ٹیوشن سنٹر کے لئے اس نے لاہور کے ایک علاقے میں ذاتی مکان خریدا ہوا تھا ۔ وہ تین بجے وہاں پہنچ جاتا اور رات دس بجے تک بچوں کو پڑھا رہا ہوتا۔ٰیہ بات شاید 2000 کی ہے۔ اس دن وہ حسب معمول اپنے ٹیوشن سنٹر پہنچا تو پڑھنے والے بچے گھر میں جانے کی بجائے سڑک پر کھڑے تھے۔ اس نے ایک چابی اپنے پہلے بیج کے طالب علموں کو دی ہوئی تھی کہ وہ گھر کا دروازہ کھول کر اندر بیٹھ جائیں۔ مگر آج وہ باہر کھڑے تھے۔اس نے گاڑی کھڑی کی اور پوچھا کہ بھائی اندر کیوں نہیں گئے، سڑک پر کیوں کھڑے ہو۔ جواب ملا کہ کچھ لوگ اندر موجود ہیں انہوں نے اندر گھسنے سے منع کر دیا ہے۔ تم نے انہیں چابی کیوں دی، اس نے اپنے طلبا کو کہا۔ کہنے لگے سر ہم نے چابی نہیں دی ، پتہ نہیں انہوں نے کیسے دروازہ کھول لیا ہے۔ کون ہیں وہ، اس نے حیرانی سے کہا اور دروازے کو چل دیا۔ دروازہ کھلا تھا۔ اس نے ایک قدم دروازے پر رکھا تو ایک آدمی بھاگ کر آگے آیا۔ باہر رہو، اس نے حکم دیا۔ اس کا حکم کیسے نہ مانا جاتا۔ اس کی زبان پر گالیاں اور کندھے پر کلاشنکوف تھی۔ وہ گھبرا کر پیچھے ہٹا اور بڑے آرام سے پوچھا کہ بھائی تم یہاں کیسے ہو۔ جواب ملا، ہمارا گھر ہے، ہم یہاں نہ ہوں گے تو اور کون ہو گا۔ ابھی وہ بات کر رہے تھے کہ مزید پانچ چھ کلاشنکوف بردار اس کے ساتھ آ کھڑے ہوئے۔ اسے کہا گیا کہ یہ مکان ہمارا ہے ، ہم یہاں رہتے ہیں ۔ یہاں کوئی شور کرو گے تو مار مار کر بھرکس نکال دیں گے۔ صورت حال کو بگڑی دیکھ کر اس نے ایک دو محلے داروں سے بات کی ۔ انہوں نے افسوس کا اظہار کیا اور کہا کہ یہ یہاں کی روٹین ہے ۔ یہ بدمعاش کسی نہ کسی گھر پر قبضہ کر لیتے ہیں اور کوئی ان کا کچھ بگاڑ نہیں سکتا۔محلے دار بھی ان کے ڈر سے آپ کی مدد نہیں کریں گے۔ ان لوگوں کا مقابلہ کون کرے۔ بہتر ہے آپ پولیس سے رابطہ کریں ۔ وہ شاید آپ کی مدد کر دے، ورنہ کوئی صورت نہیں۔ اس نے پولیس سے رابطہ کیا تو پولیس نے ایک درخواست وصول کرنے کے بعد کہا کہ وہ معاملے کا جائزہ لے کر آپ کے فون پرآپ سے رابطہ کریں گے۔ دو دن بعد تھانے سے بلاوہ آیا کہ چار بجے شام اپنے کاغذات لے کر آ جائیں۔ وہ ایک دوست کے ساتھ وہاں پہنچا تو ایک بڑا ہجوم اس کے مد مقابل موجود تھا۔اس ہجوم کا ہر شخص دعویدار تھا کہ وہ اس محلے میں عرصے سے رہ رہا ہے مگر اس نے کبھی پروفیسر کو وہاں نہیں دیکھا۔اس مکان کے تو وہ پہلوان ہی مالک ہیں، ہمیشہ وہی نظر آتے ہیں۔ اس نے رجسٹری دکھائی تو تھانیدار نے کہا کہ ان کی بھی رجسٹری دیکھ لیں۔دونوں کے پاس رجسٹریاں ہیں ۔ پورے محلے کے معززین ان کے ساتھ ہیں ، بتائیں میں کیا کروں۔ مگر وہ بندے میں نے محلے میں کبھی نہیں دیکھے ۔ میں بیس سال سے وہاں ہوں ۔محلے کا ہر شخص مجھے اور میں اسے جانتا ہوں۔ میری واقفیت تو سب ہے مگر کوئی ذاتی تعلقات نہیں۔لیکن یہ جانتا ہوںکہ ان میں کوئی اس محلے کا نہیں۔میں کوشش کرکے ایک آدھ کو لے آتا ہوں۔ تھانے دار کہنے لگا کہ اس طرح تو میں روز عدالت نہیں لگا سکتا، یا آپ آپس میں نپٹ لیں یا میرا مشورہ ہے کہ آپس میں مفاہمت کر لیں، لڑائی کا کوئی فائدہ نہیں، مفاہمت ہی میں دونوں کی بھلائی ہے۔میرے دوست پروفیسر نے ایک ماہ تک انصاف کے علم بردار ہر شخص کا دروازہ کھٹکھٹایا۔ مگر کوئی اس کی مدد کو تیار نہیں تھا۔ہر شخص یہی کہتا کہ بدمعاشوں سے کیسے نپٹاجائے ، وہ صرف پولیس ہی ہے جو مدد کرے۔ آخر انصاف کے آخری روشن مینار جناب تھانیدار کی خدمات حاصل کی گئیں۔ مفاہمت ہو گئی۔ مکان کی تقریباً آدھی قیمت پروفیسر صاحب نے ان تھانیدار صاحب کو بدمعاشوں کے لئے دی کہ مفاہمت کا یہی فارمولا طے ہوا تھا۔ تھانیدار صاحب نے بتایا کہ وہ یہ سب کام خدمت خلق سمجھ کر کر رہے ہیں۔ ان کی اس ڈیل میں کوئی دلچسپی نہیں ماسوائے اس کے کہ ایک شخص جس کے ساتھ زیادتی ہو رہی ہے اسے اس کا حق مل جائے۔ پروفیسر صاحب واپس آنے لگے تو تھانیدار صاحب نے کہا کہ دیکھیں آپ کی خاطر میں نے نوکری کی بھی پرواہ نہیں کی اور جیسے بھی ہو سکا آپ کی ان سے مفاہمت کرا دی حانکہ یہ وہ لوگ ہیں جن سے سب ڈرتے ہیں ۔ میری آپ سے درخواست ہے کہ اس نیک کام کے صلے میں میرے حق میں دعا ضرور کریں۔جی ضرور ضرور۔ پروفیسر صاحب نے کہا اور بھیگی پلکوں کے ساتھ اس مفاہمت کے مضبوط شکنجے سے باہر نکل آئے۔ اگلے دن بدمعاش مکان خالی کر کے چلے گئے۔ پروفیسر صاحب نے مکان کی مرمت کرائی اور اسے بیچ دیا کہ اب وہ کسی مزید مفاہمت کے متحمل نہیں ہو سکتے تھے۔ کسی محلے میں اگر چور اور کتا مل جائیں تو اس محلے کے مکینوں کو ایسی ہی مفاہمت کرنا مجبوری بن جاتا ہے۔