Read Urdu Columns Online

Islam Science and Technology

اسلام، سائنس اور ٹیکنالوجی

اگر چہ مسلم امہ کے قدامت پرست زعماء اور رجعت پسند حکمرانوں کی اکثریت جدید ٹیکنالوجی سے آراستہ ذرائع نقل وحمل (پرتعیش گاڑیاں، جدید موبائل فونز، انٹرنیٹ، انسٹا گرام، ٹویٹر، فیس بک) اور لین دین میں کریڈٹ اور ڈیبٹ کارڈز کے ساتھ ڈیجیٹل بینکنگ کا بھی استعمال کرتے ہیں ۔سودی بنکاری کو حیلہ سازی کی فتوؤں کی بنیاد پر “اسلامی بنکاری” کہہ کر حقیقت میں روایتی سودی بنکاری ہی کی جارہی ہے مگر کچھ مذہبی عناصر ریاست اور معاشرتی زندگی کو جدیدیت کی بنیاد پر استوار کرنے میں ہمیشہ مزاحمت کرتے ہیں ۔وہ الگ بات ہے کہ کچھ عرصہ بعد جدید ٹیکنالوجی کی بدولت معاشرتی زندگی میں جو تبدیلیاں واقع ہوتی ہیں انہیں عملاً سبھی لوگ قبول کر لیتے ہیں ۔کبھی لاوڈ اسپیکر کے استعمال، تصویر کھنچا نے اور عورتوں کے مرد معالجین سے علاج کروانے کو غیر اسلامی قرار دیا جاتا تھا، مغربی تعلیم حاصل کرنا معیوب تھا مگر اللہ بھلا کرے سرسید احمد خان کا جس نے برصغیر کے مسلمانوں کو مغربی تعلیم حاصل کرنے پر راغب کیا تو مسلمانوں کی نئی نسل کی خاطر خواہ تعداد کو پسماندگی سے نجات ملی ۔کبھی چاند پر جانے اور ٹیسٹ ٹیوب بے بی اور عورت کی حکمرانی کے خلاف فتوے دیئے جاتے تھے مگر آج صورتحال بدل چکی ہے اب تو علماء نہ صرف تصاویر اور ویڈیوز بنواتے ہیں بلکہ مغربی لباس میں ملبوس خواتین اینکرز کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر انٹرویو دینے کو غلط نہیں سمجھتے ۔ مگر عام مسلمانوں کے لیے علماء کرام جدید طرز زندگی کے متعلق کوئی اجتہادی آراء نہیں دیتے ۔ جسطرح اکثر سادہ مسلمان جدید ایجادات کو استعمال بھی کرتے ہیں مگر اس کو غیر اسلامی سمجھ کر پریشان بھی رہتے ہیں۔ آج بھی افغانستان میں عورتوں کی تعلیم ،کاروبار اور ملازمتوں پر پابندی عائد ہے جبکہ ہمارے ہاں بھی عورتوں کے متعلق تعصبات ہوبہو ویسے ہی ہیں۔ اگر چہ ہمارے لوگوںنے جدید فونز میں الارم کلاک سے پانچ وقت کی نمازوں کے اوقات اور قرآن کی تلاوت کی ایپس، روزے کے اوقات اور قبلہ کی سمت کا تعین تو کر لیا ہے مگر چاند دیکھنے کے لیے انسانی آنکھ اور گواہوں کی شہادتوں کو ہی مؤثر سمجھا جاتا ہے وگرنہ آج فلکیات کی مدد سے ہم سب کو معلوم ہے کہ نئے چاند کی پیدائش کب ہوتی ہے اورکب اس کا زمین کے گرد چکر مکمل ہوتا ہے۔ ہمارے ہاں نئی ٹیکنالوجی اور سائنسی علوم کو ہماری اسلامی اقدار اور معاشرت پر حملہ سمجھنے والوں کی کمی نہیں ہے۔ آج بائیومیٹرکس، فرانزک، ڈی این اے ٹیسٹ کے بغیر ہم معاشرے میں رہ ہی نہیں سکتے چاہے ہم مذہبی ہیں یا سیکولر ۔معاشرے کی اکثریت اور تنوع کو بڑھانے اور انفرادی اور اجتماعی شناخت کو برقرار رکھنے کے لیے ہماری زندگیوں میں جدید ٹیکنالوجی اور سائنسی علوم کا گہرا کردار ہے جب نئی سے نئی ایجادات ہوتی ہیں اس کے ساتھ ساتھ معاشرتی اور اخلاقی اقدار بھی بدلتی ہیں۔ آج آرٹیفشل انٹیلیجنس کے دور میں بہت ساری مذہبی رسم و رواج کی صورت گری بھی ہو گی۔ سیکولر ازم کو عملاً اجتہاد کے طورپر قبولیت حاصل ہونا قدرتی امر بن جائے گا بلکہ یہ کہنا مناسب ہو گا کہ قبولیت حاصل ہو چکی ہے۔ ہو سکتا ہے کہ آنے والے زمانے میں مسلمان ایسے علماء کی پیروی شروع کر دیں جو اجتہادی سوچ و فکر کے ساتھ غیر روایتی مکتبہ فکر کے نمائندے ہوں۔ جاوید احمد غامدی اور رحمت العالمین اتھارٹی کے چیرمین خورشید احمد ندیم کی فقہی مسائل کے حل کے متعلق موجودہ دور کے تقاضوں کے مطابق اپروچ نے پاکستان کے تعلیم یافتہ نوجوانوں کو اسلام کی حقیقت پسندانہ تعبیر کے ذریعے بہت سے مخمصوں سے نجات دلانے میںاہم کردار ادا کیا ہے۔ وہ الگ بات ہے کہ اجارہ داروں نے ان قابل قدر سکالرز کی آراء کو قبول کرنے میں کبھی فراخ دلی نہیں دکھائی مگر یہ حضرات آج بھی جدید دور کے نوجوان کو سائنس، مذہب اور قرآن کی تطبیق کے متعلق اپنی تحریروں اور تقریروں میں اسقدر دلیل اور منطق سے احاط کرتے ہیں جو نوجوانوں کو اسلام کے حقیقی تصور حیات کو عصر حاضر کے تقاضوں کے مطابق سمجھنے میں بے حد مدرگار ثابت ہو رہے ہیں ۔ یہی اپروچ مسلمان نوجوانوں کو مذہب سے برگشتہ ہونے سے بچا سکتی ہے وگرنہ عام مسلمان کو مشکلات پیش آرہی ہیں۔ اکثر لادینیت، انتہا پسندی یا راہبانہ طرز حیات کو ہی دین اسلام سمجھ کر آخرت میں سرخرو ہونے کے خواب سجائے بے عملی کا شکار دکھائی دے رہی ہے۔اسلام کو بطور دین اپنانے کو چھوڑ کر اپنی خاندانی اور معاشرتی زندگیوں سے بھی کٹ آف ہونے کو ہی حقیقی مذہب تصور کر لیتے ہیں جس کے اجتماعی اسلامی طرز حیات پر منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ اگر ہم اسلام اور قرآن کا عمیق مطالعہ کریں تو تو پتہ چلتا ہے کہ قرآن مسلمانوں کو نہ صرف جدید علم حاصل کرنے کی تلقین کرتا ہے۔ قرآن کا فرمان ہے “اور زمین و آسمان کی تخلیق، زبانوں اور رنگوں کا تنوع اس (اللہ) کی نشانیوں میں سے ایک ہے بے شک صاحب علم انسانوں کے لیے ان میں نشانیاں موجود ہیں” یہ فرمان ہمیں کائنات کے چھپے رازوں کو جاننے کی جستجو کی طرف راغب کرتا ہے۔ کبھی یورپ ازمنہ تاریک میں بھٹک رہا تھا اور امت مسلمہ زندگی کے تمام شعبوں میں جدت طرازی کا نمونہ بنی ہوئی تھی۔ یورپ کے لوگ سپین کی یونیورسٹیوں میں تعلیم حاصل کرنے کے لیے جاتے تھے۔ جو جدید انفرا سٹرکچر اس وقت سپین میں تھا وہ یورپ میں پانچ سو سال بعد میں قائم ہوا۔ مگر آج بدقسمتی سے یہ الٹ ہو گیا ہے ۔مسلمان تمام تر مادی وسائل کے باوجود ہزیمت کا شکار ہیں جبکہ چین جیسے ممالک ٹیکنالوجی کے شعبے میں امریکہ اور مغرب کو مات دے رہے ہیں۔ ڈیپ سیک ایپ نے جسطرح چیٹ جی پی ٹی کی اجارہ داری کے بخیے ادھیڑے ہیں، کاش اسطرح کا کام دفاعی یا انفارمیشن ٹیکنالوجی میں کوئی مسلمان ملک بھی مثال قائم کرے تو اسرائیل جیسے ممالک کے ظلم و جبر کا مقابلہ کیا جا سکے۔ آج قرآن اور سائنس کا مطالعہ ہمیں یہ ترغیب دیتا ہے ۔ہم اسلام کو جدید تقاضوں سے ہم آہنگ کرنے کے لیے ایک ایسا فریم ورک تشکیل دے سکیں جو اسلامی تہذیب کی آبیاری جدید سائنسی علوم اور ٹیکنالوجی کی تخلیق اور صورت گری مؤثر انداز میں کرے ۔اگر ہم نے مغربی ایجادات کو استعمال کرنے کے باوجود سماجی زندگی میں جدیدیت کی مخالفت جاری رکھی تو پھر وہ وقت دور نہیں ہے جب ہم اسلامی ثقافت سے بھی مکمل طور پر محروم ہو جائیں ۔اب تو سعودی عرب بھی جدید تقاضوں کے مطابق سماجی زندگیوں میں تبدیلیاں لا رہا ہے تو ہمیں بھی رجعت پسندانہ جکڑ بندیوں سے نجات حاصل کر کے اسلام میں تخلیقی، اجتہادی اور موجدانہ طرز فکر کو اپنانا ہو گا۔ قران سائنس کے مطالعے کی تلقین کرتا ہے۔ سائنس اور قرآن دونوں کا مقصد خدا کے مظاہر کی کھوج لگا کر خدا تک پہنچنا ہے۔ سائنس میں انسان خدا کی تخلیقات کا ہی مطالعہ کرتا ہے۔ اسی لیے قرآن میں کہا گیا ہے “کہہ دیجئے کہ سفر کرو زمین پر اور دیکھو کہ اس نے پہلے کی تخلیقات کو کیسے بنایا اور پھر اللہ بعد کی تخلیقات کو بناتا ہے ۔یقیناً اللہ ہر شے پر قادر ہے”

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *