تاریخ عالم کی یہ ایک حیرت انگیز سچائی ہے کہ کسی شخصیت کو دنیا بھر کی نظروں اور عشق وطن کی انتہا کے پیمانے پر سرخرو کرنے سے پہلے اسے لامتناہی آزمائشوں اور ابتلا کی کسوٹی پر غیر متوقع مگر انتہائی بیدردی سے پرکھنا شروع کر دیتی ہے جب بھی ایسی شخصیت کو امتحان کی بھٹی میں پھینک رہے ہوتے ہیں اس وقت ان میں سے کسی ایک کو اس عمل کی حکمت کا علم اور احساس تک نہیں ہوتا اور دیکھتے سنتے ہوئے یوں لگتا ہے کہ اب اس شخصیت کا وجود سمجھو کہ ختم ہو چکا ہے اور دیکھتے ہی دیکھتے اس کا ذکر ایک قصہ پارینہ بن کر رہ جائے گا۔ دوسرے لفظوں میں جسے مائنس فارمولے کا نام بھی دیا جاتا ہے لیکن دیکھنے والے چند لوگ اور دانا ایسے شخص کا احاطہ اس طرح کرتے ہیں کہ حالات کے یہ نشیب و فراز اس شخص کی اہمیت کو پہلے سے کئی گنا بڑھا کر اسے یوں اجاگر کر دیتے ہیں کہ دیکھنے والے دنگ رہ جاتے ہیں ۔ وہ لوگ جو اس شخص کو قصہ پارینہ سمجھے ہوئے تھے یہ ماننے پر مجبور ہو جاتے ہیں کہ آزمائشوں کا وہ دور جس کا احساس کرتے ہوئے ہماری روحیں کانپ جاتی تھیں اس شخص کو نئی زندگی اور مقام عطا کر گئی ہیں اور اگر اس پر آزمائشوں ،ظلم و ستم اور تکالیف کا یہ دور نہ گذرا ہوتا تو شائد اس شخص کے وہ جو ہر جو پوشیدہ تھے کبھی بھی کھل کر اس طرح پھول بن کر سامنے نہ آتے۔ ایسے تاریخ ساز افراد کو آزمائش کے امتحانات اور چکی کے پاٹوں کے حوالے کرنے والوںکو معمولی سا بھی ادراک تک نہیں ہوتا کہ جسے وہ ختم کرنے جا رہے ہیں اس شخص کو گھن چکروں میں پھنسا کر اس کی سانس کی ڈوری میں ہلچل مچانے کا خواب ان کی سب تدبیروں پر اس طرح پانی پھیر گیا ہے کہ وہ چوٹ جو اسے درد میں مبتلا کر کے لگائی گئی اسی طرح کی چوٹوں اور رگڑ سے روشنی پھوٹتی ہے۔ جس سے زندگانی کی شمع جلانے کیلئے آگ حاصل کی جا تی ہے یہی تو آگ اور اس کی حدت ہے جو کاروبار حیات چلانے اور معاشرے کا رنگ و روپ سنوارنے کیلئے ضروری ہوتی ہے یہی حرارت تو ہر ایک کیلئے خوراک کا حصول ممکن بناتی ہے اسی آگ سے اورا س آگ کی روشنی سے پھر چاروں جانب عمارات ور شاہراہیں روشن ہوتی ہیں۔ اس وقت وطن عزیز کی ٖفضا میں عجیب نفسا نفسی، یاسیت اور مایوسی گھلی ہوئی ہے اور کوئی بھی اس کی تطہیر اور اصلاح کیلئے آگے نہیں آ رہا بلکہ سچ پوچھئے تو جن سے امیدیں تھی وہ خود اس دلدل میں دھنستے نظر آ رہے ہیں۔ پورا معاشرہ ایک دوسرے سے لا تعلق ہو کر گروہی، لسانی مسلکی، علاقائی اور سیا سی عصبیتوں کی دلدل میں دھنس چکا ہے۔ اس وقت سیا سی وابستگیاں ایک دوسرے کی جان کی دشمن بن چکی ہیں ۔ یہ سلسلہ کچھ عرصہ اور چلتا رہا تو ہر گھر سے دھواں اٹھنے کے امکانات کو رد نہیں کیا جا سکتا۔جدھر دیکھو سینوں اور الفاظ میں آتش فشاں کھول رہا ہے جو آہستہ آہستہ بری طرح پھٹنے کیلئے کسی چنگاری کے انتظار میں ہے۔گزشتہ تین برسوں سے قوم جس بے یقینی، کرب تکلیف اور دکھ میں گزار چکی ہے وہ فقط ایک ڈرائونا خواب نہیں۔ یہ دکھ کچھ لوگوں کو دکھائی نہیں دے رہا۔ یا وہ سمجھ ہی نہیں پا رہے کہ یہ دکھ ایک دیمک کی طرح وطن کی بنیادوں کو چاٹے جا رہا ہے۔جس طرح ادھ کھلے شگوفوں کو جیل کی کال کوٹھڑیوں میں مسلاجا رہا ہے ۔ اس وقت پاکستان کی معیشت جس نہج پر پہنچ چکی ہے وہ کسی سے ڈھکی چھپی نہیں اور المیہ دیکھئے کہ جو اس کے ذمہ دار ان ہیں ان سے کسی نے کبھی پوچھنے کی کوشش ہی نہیں کی اور ان کی حکومت کی کارگردگی کا پیمانہ اور سدھار بس اسی ایک نقطہ پر ہے کہ ہاتھ آئے ہوئے مقابل کو کس طرح تباہ کرنا ہے ا سکے خلاف کون سی بات اچھالنی ہے اسے کس طرح بد نام کرنا ہے اسے کس طرح طویل مدت تک زندان میں رکھوانے کا بند وبست کرنا ہے۔ اس کیلئے انصاف کی کون کون سی کرسی اور میز کا استعمال کرنا پاکستان کی کتاب جسے آئین کا نام دیا جاتا ہے اس میں انصاف کا لفظ اب دیکھنے کو بھی نہیں مل رہا شائد کمپیوٹر یا کلیریکل مسٹیک سے یہ لفظ ڈیلیٹ ہو چکا ہے۔ وقت کبھی ایک جیسا نہیں رہتا آج آگ اور اس کی تپش سے بے گناہوں کو جلانے والے شائد بھول چکے ہیں کہ کل کی طرح دس گیارہ برس بعد یہ نہیں ہو گا کہ آنے والی نسلیں صرف کتابوں یا تحریروں میں ان برسوں کے ذمہ داروں کو کوسنے پر اکتفا کریں گے بلکہ یہ نسل ایک ایک چوٹ کا درد کا اور وطن کی عصمت اور مقام کو تار تار کرنے والوں کو آئین پاکستان کے انصاف کے کٹہرے میں لائے گی۔ تاریخ کا ہر طالب علم یہ پوچھے بغیر نہیں رہے گا کہ ان ہاتھوں کو یہ گلشن اجاڑنے کی اجا زت کیوں اور کس نے دی وہ لوگ جن کے ہاتھوں میں سوائے پتھروں کے اور کچھ بھی نہیں تھا انہیں اپنے لائو لشکر سمیت شیشے کے اس محل میں داخل ہونے کی ا جا زت کیسے دی؟۔۔!!
