خطوط کی سیاست
پاکستان میں خطوط لکھنے کی روایت پاکستان کے سابق چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے شروع کی تھی۔ اسلام آباد ہائی کورٹ کے آٹھ ججوں نے چیف جسٹس پاکستان کے نام مبینہ مداخلت کے سلسلے میں خط لکھ کر اس روایت کو آگے بڑھایا ۔ پاکستان تحریک انصاف کے بانی چیئرمین اور سابق وزیراعظم عمران خان نے آرمی چیف جنرل عاصم منیر کے نام تین فروری کو پہلا خط لکھا جس میں انہوں نے چھ نکات اٹھائے اور آرمی چیف سے مطالبہ کیا کہ وہ اپنی پالیسیوں پر نظر ثانی کریں ۔ ان نکات میں 8 فروری 2024ء کے انتخابات میں مبینہ دھاندلی، 26ویں آئینی ترمیم، پیکا ایکٹ میں ترمیم، تحریک انصاف کے کارکنوں پر جبر و تشدد کرنا اور انہیں قید و بند کی صعوبتوں سے دو چار کرنا شامل تھے ۔ سکیورٹی فورسز کے ذرائع نے عمران خان کے پہلے خط کے بارے میں کہا تھا کہ ان کو کسی قسم کا کوئی خط موصول نہیں ہوا اور نہ ہی وہ کسی کے خط میں دلچسپی رکھتے ہیں۔ جس نے بھی کوئی سیاسی بات کرنی ہے وہ حکومت سے کرے ۔ غالب نے کہا تھا
قاصد کے آتے آتے خط اک اور لکھ رکھوں
میں جانتا ہوں جو وہ لکھیں گے جواب میں۔ اب عمران خان نے آرمی چیف کے نام دوسرا خط لکھ دیا ہے جو پہلے سے زیادہ سخت زبان میں ہے۔ عمران خان نے اپنے دوسرے خط میں تحریر کیا ہے کہ انہوں نے پہلا خط نیک نیتی کے ساتھ لکھا تھا مگر اس کا جواب انتہائی غیر سنجیدگی سے دیا گیا۔ میں پاکستان کا سابق وزیراعظم اور ملک کی مقبول سیاسی جماعت کا سربراہ ہوں۔ میں نے اپنی ساری زندگی عالمی سطح پر ملک و قوم کا نام روشن کرنے میں گزاری ہے۔ 1970ء سے اب تک میری 55 سال کی پبلک لائف اور 30 سال کی کمائی سب کے سامنے ہے۔ میرا جینا مرنا صرف اور صرف پاکستان میں ہے۔
عمران خان نے اپنے خط میں کہا ہے کہ جیل انتظامیہ نے مجھ پر دباؤ ڈالنے کے لیے ہر طرح کی ناانصافی اور بنیادی انسانی حقوق کی کھلم کھلا خلاف ورزی کی ہے۔ مجھے ڈیتھ سیل میں 20 روز تک مکمل تنہائی میں رکھا گیا، حتیٰ کہ سورج کی روشنی سے بھی محروم رکھا گیا عمران خان نے انکشاف کیا کہ ان کے سیل کی بجلی کاٹ دی گئی اور مسلسل 5 روز تک مکمل اندھیرے میں رکھا گیا۔
خط میں مزید کہا گیا ہے کہ میرے ورزش کے آلات اور ٹیلی ویڑن ضبط کر لیے گئے اور مجھے اخبارات تک رسائی سے روک دیا گیا۔ یہاں تک کہ کتابوں کو بھی من مانے طریقے سے روکا جاتا ہے۔ ان 20 دنوں کی قید کے علاوہ مجھے دوبارہ 40 گھنٹے کے لئے بند کر دیا گیا تھا. پچھلے 6 ماہ میں مجھے صرف3 بار اپنے بیٹوں سے بات کرنے کی اجازت دی گئی ہے۔پی ٹی آئی کے بانی نے خط میں مزید کہا ہے کہ اگر عوام کی رائے لی جائے تو 90 فیصد عوام ان کے پچھلے خط میں اٹھائے گئے نکات کی حمایت کریں گے۔
انہوں نے ملک میں حالیہ قانونی اور سیاسی پیش رفت کے ساتھ ساتھ اپنی پارٹی اور اس کے کارکنوں کو درپیش چیلنجوں پر تشویش کا اظہار کیا۔عمران خان نے اپنے پہلے خط میں ظاہر کیے گئے خدشات کا اعادہ کرتے ہوئے لکھا ہے کہ یہ تمام کارروائیاں ہماری روایات کے خلاف ہیں جن کی وجہ سے عوامی ناراضی میں نمایاں اضافہ ہوا ہے۔ اگر فوری طور پر میری تجاویز پر توجہ دی جائے تو اس سے فوج اور قوم دونوں کو فائدہ ہوگا بصورت دیگر اس کے نتائج ناقابل تلافی نقصان کا باعث بن سکتے ہیں۔عمران خان نے کہا کہ ملک کے استحکام اور سلامتی کے لیے ضروری ہے کہ فوج اپنے آئینی کردار میں واپس آ جائے، خود کو سیاست سے دور کرے اور اپنی تفویض کردہ ذمہ داریوں پر توجہ دے بصورت دیگر قومی سلامتی کے لیے خطرہ بننے والی فالٹ لائنوں میں اضافہ ہو سکتا ہے۔عمران خان نے پریوینشن آف الیکٹرانک کرائمز ایکٹ (پیکا) میں حالیہ ترامیم، سوشل میڈیا کے خلاف کریک ڈاؤن، دہشت گردی کے الزامات، چھاپوں اور پی ٹی آئی کارکنوں کے خلاف طاقت کے استعمال پر بھی تنقید کی ہے ۔ ان کے بقول سیاسی عدم استحکام اور جس کی لاٹھی اس کی بھینس کی ریت ڈال کر ملکی معیشت کو تباہی کی جانب گامزن کرنا، ملک کی سب سے بڑی سیاسی جماعت کو مسلسل نشانہ بنانا اور ریاستی اداروں کو سیاسی انجینئرنگ اور سیاسی انتقام میں شامل کرنا عوامی جذبات کو مجروح کر رہا ہے اس لیے پالیسی وجوہات کا از سرنو جائزہ لیا جانا چاہیے ۔ ایک مصدقہ رپورٹ کے مطابق امریکہ کی حکمران جماعت ریپبلکن پارٹی کے کانگرس مین جو ولسن نے امریکن کانگرس میں خطاب کرتے ہوئے حکومت پاکستان سے مطالبہ کیا کہ وہ عمران خان کو رہا کرے۔ جو ولسن فارن افیئرز کمیٹی اور آرمڈ سروسز کمیٹی کے اہم رکن ہیں ۔ انہوں نے پاکستان کے صدر آصف علی زرداری، آرمی چیف جنرل عاصم منیر اور وزیراعظم پاکستان میاں شہباز شریف کے نام بھی خطوط روانہ کیے ہیں اور کہا ہے کہ پاکستان میں انسانی حقوق اور جمہوریت کے اصولوں اور آئین و قانون کی حکمرانی کی صورتحال کو بہتر کیا جائے۔ انہوں نے اپنے خط میں تحریر کیا کہ اگر عمران خان کو رہا کر دیا جائے تو اس اقدام سے پاک امریکہ تعلقات مستحکم ہوں گے کیونکہ امریکہ انسانی حقوق کا علمبردار رہا ہے ۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ عمران خان پاکستان کے مقبول سیاسی لیڈر ہیں ۔ وہ آکسفورڈ یونیورسٹی کے تعلیم یافتہ ہیں اور پاکستان کے سابق وزیراعظم ہیں۔ سیاست کے میدان میں ان کا 22 سال کا تجربہ ہے ۔ پاکستان کے موجودہ معروضی حالات کے بارے میں ان کے تحفظات کا سنجیدگی کے ساتھ جائزہ لینا پاکستان کے قومی مفاد میں ہوگا ۔ بدقسمتی سے پاکستان کو سنگین اندرونی اور بیرونی چیلنجوں کا سامنا ہے جن کا مقابلہ کرنے کے لیے عوام اور ریاستی اداروں کے درمیان اعتماد انتہائی لازمی ہے ۔ پاکستان سیاسی اور معاشی حوالے سے بے یقینی کی صورتحال سے گزر رہا ہے ۔ موجودہ سٹیٹس کو زیادہ عرصہ قائم نہیں رکھا جا سکتا ۔ پی پی پی اور مسلم لیگ نون کے لیڈر عمران خان کے خطوط اور بیانات سے خوش ہوں گے کیونکہ ماضی میں دونوں سیاسی جماعتوں کو عتاب کا سامنا کرنا پڑا ۔ پاکستان کے تین بار منتخب ہونے والے وزیراعظم میاں محمد نواز شریف نے اس غیر یقینی صورتحال کا اندازہ کر لیا ہے اور انہوں نے مسلم لیگ نون کے اراکین قومی و صوبائی اسمبلی سے ملاقاتیں شروع کر دی ہیں تاکہ وہ آنے والے انتخابات کی تیاری کر سکیں۔ غیر جانبدار الیکشن کمیشن کی نگرانی میں صاف اور شفاف انتخابات کرانا اور عوام کے حق حکمرانی کو تسلیم کرنا ہی واحد حل ہے جس پر عمل کر کے سیاسی اور معاشی ابتری کو مستقل بنیادوں پر روکا جا سکتا ہے ۔ غیر جانبدار مبصرین کی رائے ہے کہ حکمران اشرافیہ اندرونی اور بیرونی دباؤ کا مقابلہ نہیں کر سکے گی اور اسے نئے انتخابات کی طرف آنا پڑے گا۔