Read Urdu Columns Online

IMF Ki Pehli Achi Shart

  آئی ایم ایف کی پہلی اچھی شرط

 کل میں نے ایک بڑے سرکاری افسر کو پہلی بار تلملاتے پیچ و تاب کھاتے دیکھا۔ ایسا کم ہی ہوتا ہے کہ کوئی بڑا سرکاری افسر بے چارگی کے عالم میں تلملائے۔ یہ تو پاکستان کے عوام کا مقدر ہے، جو تلملاتے رہتے ہیں، بے بسی سے پیچ و تاب کھاتے رہتے ہیں۔ افسر صاحب کے تلملانے کی وجہ وہ خبر تھی جس میں بتایا گیا تھا کہ آئی ایم ایف نے قرض پروگرام کے لئے کئے گئے معاہدے کی اس شق پر کوئی مزید وقت یا رعایت دینے سے انکار کر دیا ہے جس میں یہ شرط رکھی گئی تھی کہ فروری 2025ء تک سول سرونٹس کے اثاثے ظاہر کئے جائیں گے۔ حکومت نے یہ شرط بڑی مشکل سے منظور کی تھی اور خیال تھا فروری تک حالات بدل جائیں گے اور آئی ایم ایف اپنی اس شرط میں نرمی کر دے گا، یوں گلشن کا کاروبار پہلے کی طرح چلتا رہے گا مگر یہ خواہش پوری ہوتی نظر نہیں آتی۔بیورو کریسی کی اس شرط کی وجہ سے جان نکلی ہوئی ہے۔ حیلے بہانے ڈھونڈے جا رہے ہیں، وہ افسر صاحب غصے میں آگ بگولا ہو کر کہہ رہے تھے آئی ایم ایف کون ہوتا ہے پوچھنے والا کہ کسی کے اثاثے کتنے ہیں۔ یہ ہمارے اداروں کا کام ہے اور ہم ہر سال اپنے گوشواروں میں ان اثاثوں کو ظاہر بھی کر دیتے ہیں۔ ان کی اس بات پر میں دل ہی دل میں سوچ رہا تھا کبھی ایسے افسروں نے اس وقت بھی احتجاج کیا جب آئی ایم ایف ہماری سبزی دال کے ریٹ بھی چیک کررہا ہوتا ہے اور غریبوں کو ملنے والی ذرا سی سبسڈی پر بھی اعتراض لگا دیتا ہے جو پنشن اور تنخواہوں پر ٹیکس بڑھانے اور لگانے کی بات کرتا ہے اور غریبوں کو سستا آٹا ملنے لگے تو سانپ کی طرح سامنے آ جاتا ہے، اس وقت کسی افسر کو یہ توفیق نہیں ہوئی کہ احتجاج کرے۔ اب اپنے پیر پر ہاتھی کا پاؤں آیا ہے تو چیخیں نکل رہی ہیں اور یاد آیا ہے کہ ایک آزاد ملک کے شہریوں سے ان کے اثاثوں کی تفصیلات کیسے پوچھی جا سکتی ہیں۔ ان کے سامنے جو دوست بیٹھے ہوئے تھے انہوں نے کہا جب آپ سالانہ گوشواروں میں سیاسی تفصیلات دے رہے ہیں تو پریشانی کس بات کی ہے۔ ظاہر ہوتے ہیں تو ہونے دیں۔ کہنے لگے اپنے ملک کی خیر ہے، آئی ایم ایف کے ہاتھ کیوں لگیں۔ آخر پرائیویسی بھی کوئی چیز ہوتی ہے، خبر کے مطابق آئی ایم ایف کے سخت پیغام کے بعد وزارتِ خزانہ اور کابینہ ڈویژن میں افسروں کے اثاثوں کو پبلک کرنے کے مسودے پر مشاورت شروع ہو چکی ہے۔ آئی ایم ایف کے وفد کی وزارتِ قانون کے حکام سے بھی ملاقات ہوئی ہے۔ یہ پہلی فرمائش ہے  جو آئی ایم ایف نے طبقہء اشرافیہ کے حوالے سے کی ہے، وگرنہ اس کی فرمائشوں کا دائرہ عوام تک ہی محدود رہتا ہے۔ اصل میں بات اتنی سادہ نہیں، پاکستان میں کرپشن کا حجم بہت بڑا ہے۔ آئی ایم ایف ایک عرصے تک تو اس حوالے سے سویا رہا۔ اب جاگا ہے تو یہ معلوم کرنا چاہتا ہے پاکستان کے افسر اتنے بڑے اثاثے کیسے بنا لیتے ہیں، جو ان کی تنخواہ سے مطابقت نہیں رکھتے۔ ان کے بچے دنیا کے مہنگے تعلیمی اداروں میں کیسے پڑھتے ہیں جن کی فیس ہی لاکھوں روپے ماہانہ ہوتی ہے۔ صرف اثاثوں کی تفصیل ہی نہیں کہا گیا کہ پبلک کی جائے بلکہ یہ بھی حکم دیا گیا ہے ان کے بچوں کی معلومات بھی دی جائیں وہ کن سکولوں میں پڑھتے ہیں اور ان کی فیسیں کتنی ہیں۔

پاکستان  میں کرپشن پر قابو پانے کے لئے جتنے بھی محکمے بنائے گئے، ادارے قائم کئے گئے، ان کی پہنچ صرف پٹواریوں اور کلرکوں تک رہی۔ نیب ایک بہت بڑا ہوا کرتا تھا۔ سیاستدانوں کے لئے اب بھی ہے لیکن جب اسی نیب نے افسروں کی کرپشن پکڑنے کا سلسلہ شروع کیا تو بیورو کریسی نے قلم چھوڑ ہڑتال کر دی۔ فیصلے کرنا بند کر دیئے۔ فائلیں روک لیں۔ عمران خان جیسا اس و قت کا تگڑا وزیراعظم بھی ہارمان گیا اور یقین دہانی کرانی پڑی نیب افسروں کا کچا چٹھا نہیں کھولے گی۔ گویا مکمل طور پر بیورو کریسی کو این آر او دے دیا گیا۔ کام بڑا آسان ہو گیا تھا، جو چاہو کرو، جتنا چاہو مال بناؤ، فارم ہاؤسز خریدو یا بیرون ملک سرمایہ منتقل کردو،کسی کو اختیار نہیں پوچھے کہ بھائی چند سال پہلے تو تمہاری مالی حالت عام پاکستانیوں جیسی تھی یہ افسر بنتے ہی سترھویں گریڈ سے انیسویں گریڈ تک آتے آتے آخر ایسا کیا ہوا دنیا ہی بدل گئی، لیکن اب رنگ میں بھنگ آئی ایم ایف نے ڈال دیا ہے جنہوں نے بے نامی اثاثے بنائے ہیں یا بہن بھائیوں کے نام پر رکھے ہیں، وہ تو اس کڑی شرط سے متاثر نہیں ہوں گے مگر جو بے خوفی کی وجہ سے اپنے نام پر جائیدادیں خریدتے اور بینک اکاؤنٹس بھرتے رہے، انہیں مشکل ضرور پیش آئے گی۔ ہر کوئی جان سکے گا دس پندرہ سال پہلے ایک غریب گھرانے میں پرورش پانے والے نے سی ایس ایس کرتے ہی حیران کن رفتار سے ترقی کیسے کرلی۔ ایک عام لیکچرار بھی سترہویں گریڈ میں بھرتی ہوتا ہے اور ایک سی ایس ایس افسر بھی اسی گریڈ سے ملازمت کا آغاز کرتا ہے۔ لیکچرر بھرتی ہونے والا بیسویں گریڈ کا پروفیسر بننے کے بعد بھی اپنا ذاتی گھر نہیں بنا سکتا اور سی ایس ایس کرکے سترہویں گریڈ میں آنے والے کی ”ترقی“ نظروں کو خیرہ کر دیتی ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اسی بیورو کریسی میں ایماندار افسر بھی موجود ہیں۔ اپنی تنخواہ اور جائز قانونی مراعات میں گزارا کرتے ہیں۔ اثاثوں کا ڈھیر نہیں لگاتے اور اس حوالے سے کسی خوف یا خدشے میں بھی مبتلا نہیں،انہیں آئی ایم ایف کی شرط پر کوئی پریشانی نہیں ہوگی۔ پریشانی صرف انہیں ہوگی جو اس ملک کے بڑے مناصب پر بیٹھ کر خود کو قانون سے ماورا سمجھنے لگتے ہیں۔ وہ یا تو اپنے اثاثے چھپائیں گے یا پھر سامنے لائیں گے تیسری کوئی صورت نہیں۔

میں تو اس پر حیران ہوں کہ آئی ایم ایف کو اس بات کا خیال کیسے آیا۔ یہاں کے کروڑوں عوام تو عرصہ دراز سے واویلا کررہے ہیں کہ ہر عذاب غریبوں پر نازل کیوں ہوتا ہے، اشرافیہ سے کیوں نہیں حساب لیا جاتا۔ اس ٹیکس سسٹم ہی کو دیکھ لیں، سارا بوجھ عوام پر ڈالا گیا ہے جو کروڑ پتی اور ارب پتی ہیں وہ عیش کررہے ہیں۔آئی ایم ایف نے کبھی اس پر زور نہیں دیا کہ پوش آبادیوں میں رہنے والوں اور بڑی منڈیوں کے آڑھتیوں کو بھی ٹیکس کے دائرے میں لایا جائے وگرنہ امداد بند کر دی جائے گی، برق گرتی ہے تو بے چارے عوام پر جو پہلے ہی مہنگائی اور ٹیکسوں کے بوجھ تلے دبے ہوئے ہیں۔ کاش آئی ایم ایف صرف سیلز ٹیکس بڑھانے پر ہی زور نہ دے بلکہ براہ راست ٹیکس نیٹ بڑھانے کا ہدف مقرر کرے۔ یہاں کسی اور کی بات تو سنی ہی نہیں جاتی۔ ایک آئی ایم ایف ہی ہے جو اپنی بات منوا لیتا ہے۔ پاکستان میں کرپشن کا انڈکس بڑھا ہے۔ جب کسی قسم کا خوف ہی نہیں رہے گا تو کرپشن کیسے کم ہوگی۔ ہماری بری گورننس اور ظالمانہ دفتری نظام کی ایک بڑی وجہ یہی کرپشن ہے۔ جب سرکاری الکاروں کا ہدف یہ ہو کہ عوام کو تنگ کرنا ہے تاکہ وہ رشوت پر مجبور ہو جائیں تو وہاں گڈ گورننس کیسے آ سکتی ہے؟

Check Also

Read Urdu Columns Online

Lahore Mein Gharonda Ki Aik Khubsurat Sham

لاہور میں گھروندہ کی ایک خوبصورت شام لاہور میں تقریبات کی بہار آئی ہوئی ہے۔ …

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *