Read Urdu Columns Online

Mera Lahore Ka Professional Daur Part 2

میرا لاہور کا پروفیشنل دور!(حصہ دوم)

پارٹ ون

میں ذکر کررہا تھا لاہور میں اخباری صنعت کی ٹریڈ یونین میں اپنی انٹری کا جس کے باعث میری عمر اور صحافتی حیثیت سے کہیں بڑھ کر بڑے قدکاٹھ کے صحافیوں سے تعلقات اور دوستیوں کا سلسلہ شروع ہوا، لیکن پہلے مختصر طور پر اس وقت کی ٹریڈ یونین پالیٹکس کا احوال بتا دوں۔ اس وقت ملکی سطح پر صحافتی تنظیموں کے شاید کئی الگ الگ گروپ ہیں، لیکن تب ایک ہی پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس(پی ایف یو جے) اور اس کے تحت ایک ہی پنجاب یونین آف جرنلسٹس(پی یو جے) تھی۔ بلاشک دو بڑے دھڑے تھے لیکن وہ ایک ہی تنظیم کے اندر رہتے ہوئے اپنی سیاست کرتے تھے۔ تب پورے ملک میں منہاج برنا کا طوطی بولتا تھا جن کا برنا گروپ ہر جگہ جاری تھا۔ دوسرے دھڑے کو آپ برنا مخالف گروپ کہہ سکتے ہیں جس میں دو سب گروپ تھے۔ ایک سب گروپ کے سربراہ سید عباس اطہر (شاہ جی) اور دوسرے سب گروپ کے سربراہ رشید صدیقی تھے جن کی پشت پر ضیاء الاسلام انصاری جیسے قد کاٹھ کے وسیع تعلقات کے حامل سینئر صحافی تھے۔ منہاج برنا اور سید عباس اطہر نظریاتی اعتبار سے دونوں ترقی پسند تھے لیکن ٹریڈ یونین میں ایک دوسرے کے شدید مخالف تھے جس کے باعث عباس اطہر نے منہاج برنا کے خلاف رشید صدیقی سے اتحاد کر رکھا تھا جو قدامت پسند گروپ کی نمائندگی کرتے تھے۔

میں نے ٹریڈ یونین کی اے بی سی نصراللہ غلزئی اور اشرف طاہر سے سیکھی اور اس سیاست کا آغاز اگرچہ رشید صدیقی گروپ میں شمولیت کرکے کیا۔ برنا گروپ کی مخالفت تو طے شدہ تھی لیکن میں آہستہ آہستہ اس سب گروپ سے نکل کر عباس اطہر کو بہت پسند کرنے کے باعث ان کی بھی حمایت کر دیتا تھا۔ میں اس دوران مصطفے صادق کے اخبار ”وفاق“ میں نیوز سب ایڈیٹر کی حیثیت سے شامل ہو چکا تھا۔ یہ دوسرے درجے کے چھوٹے اخباروں میں شمار ہوتا تھا۔ ان چھوٹے اخباروں میں معاوضوں کے حالات خراب تھے اور ویج بورڈ ایوارڈ کے اطلاق میں ان کے مالکان رکاوٹ تھے۔ اس طرح ٹریڈ یونین میں چھوٹے اخباروں میں صحافیوں پر زیادتی کا مسئلہ ہمیں سیاست کرنے کو مل گیا اور پہلے ہی سال پنجاب یونین آف جرنلسٹس کی مجلس عاملہ کا رکن منتخب ہو گیا۔ یہ شادی سے پہلے کا دور تھا۔ نہ کوئی فکر نہ کوئی فاقہ، لیکن ٹھہریئے فکر تو کوئی نہ تھی لیکن فاقہ ضرور تھا، مطلب کھانے پینے کا بجٹ محدود تھا۔ جاب کے علاوہ زیادہ تر وقت لاہور پریس کلب میں گزرتا تھا جو اس وقت مال روڈ پر دیال سنگھ مینشن میں تھی۔ کھانا تو پریس کلب میں کھاتے تھے جس کا بل ادا کرنا بہت اوقات مشکل ہو جاتا۔ اوکاڑہ میں،مَیں ایک صاحب حیثیت زمیندار اور شہر کے چوٹی کے بزنس مین میاں شاہ دین کا سب سے بڑا صاحبزادہ تھا۔ ان سے ”بیرونی امداد“ لے کر لمبی عیاشی کر سکتا تھا جو لاہور میں ایف سی کالج میں پڑھائی کے دوران کرتا رہا تھا۔ اب ہم اپنے گھر والوں کے لئے لاہور کے ایک انتہائی معتبر اور جانے پہچانے صحافی تھے۔ تنخواہ اور آمدن کا معاملہ اپنی عزت رکھنے کو ان سے چھپا کر رکھا تھا۔ اس لئے اپنی انا کی خاطر بُرے حالات میں بھی گزارہ کیا اور اوکاڑہ میں پتہ نہیں لگنے دیا۔

دوسرے برس میں پنجاب یونین آف جرنلسٹس کا جوائنٹ سیکرٹری منتخب ہو گیا اور چھوٹے اخباروں کا ٹریڈ یونین میں اہم لیڈر بن گیا۔ بڑی سیاست میں قدم رکھنے کے بعد یہاں بڑے مسئلے شروع ہو گئے۔ اب میں کچھ لوگوں کی پردہ پوشی کرتے ہوئے آگے بڑھنا چاہتا ہوں۔ آپ کو سمجھ آ جائے تو ٹھیک ہے لیکن میرا ذمہ نہیں رہے گا۔ پریس کلب میں، مَیں ٹیبل ٹینس یا کیرم کھیلتا تھا۔ ٹی وی دیکھتا  اور کھانا کھاتا تھا۔ ایک الگ کمرے میں تاش کھیلی جاتی تھی جس میں جواء بھی چلتا تھا کبھی کبھار۔ ”کُپی“ پینے والے چھت پر بیٹھتے تھے۔ میں نے کُپی تو کجا کبھی زندگی میں سگریٹ تک نہیں پیا۔ کُپی کا کوارٹر تب 29روپے کا آتا تھا جس کے لئے جب پریس کلب کا ملازم شریف کسی ”کُپی نوش“ کے لئے چندہ جمع کرتا تھا تو کبھی کبھار پانچ دس روپے کا چندہ مجھے بھی دینا پڑتا۔ کُپی سے نفرت کے باوجود میں ان کُپی نوشوں کی مجلس بہت پسند کرتا تھا  جو چھت پر جمتی تھی جہاں میں ان کے ساتھ سیون اپ پی کر شرکت کرتا تھا۔

اس کُپی گروپ میں میرے پسندیدہ دوست عباس اطہر، خالد چودھری، مظفر شیخ، مولوی سعید اظہر، سہیل ظفر وغیرہ شامل تھے جو سب اب اس دنیا میں نہیں ہیں۔ ایک ر وز اسی چھت کی چار دیواری کے سوراخوں سے ریگل چوک میں بھٹو دور ، سیدھی گولیوں سے لاشیں گرتی دیکھیں۔ میری مستقبل میں شریک حیات بننے والی عصمت تب سٹوڈنٹ تھی اور عین اس معرکے کے وقت سڑک کے اس پار پھنس گئی اور اس نے بھی چھپ کر نوجوان  کوگولیوں سے گرتے دیکھے۔یہ محض اتفاق تھا کہ ہم دونوں ایک ہی جگہ یہ منظر دیکھ رہے تھے جوبعد میں ایک دوسرے کے ساتھی بن گئے۔

میں اگرچہ برنا مخالف گروپ میں تھا۔ باقاعدہ رشید صدیقی سب گروپ کے ساتھ تھا لیکن عباس اطہر سب گروپ کا بھی برابر کا ہمدرد تھا۔ اس دور میں ایک بات سیکھی کہ سیاست ایک الگ چیز ہے اور ذاتی تعلقات ایک دوسرا معاملہ ہے۔ٹریڈ یونین میں دھڑے کا ساتھ ضرور دیا لیکن اس ”سیاسی مخالفت“ کو ذاتی دشمنی نہیں بنایا۔ مجھے یاد ہے کہ پی یو جے میں جوائنٹ سیکرٹری کی دو سیٹیں تھیں جب ہم نے یہ الیکشن لڑا۔ برنا گروپ کے امیدوار معروف ترین پسند انقلابی لیڈر ہمراز احسن (حال مقیم برطانیہ) اور عظیم قریشی تھے۔ برنا مخالف گروپ کا ٹکٹ مجھے اور خلیل ملک (خوشنود علی خان کے بڑے بھائی)کو ملا۔ ہمراز احسن اور میں جوائنٹ سیکرٹری منتخب ہو گئے۔ عظیم قریشی اور خلیل ملک ہار گئے۔ خلیل ملک نے شاہ جی (سید عباس اطہر) سے گلہ کیا کہ شاید اس کے ساتھ منافقت ہوئی ہے۔ شاہ جی نے واضح کیا کہ دھڑا ایک حد تک ساتھ دیتا ہے ووٹ لینے کے لئے ذاتی تعلقات کی بہت اہمیت ہے اور اظہر زمان کو ذاتی دوستیوں کی وجہ سے برنا گروپ سے بھی ووٹ ملے ہیں۔

پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس (پی ایف یو جے) کی فیڈرل ایگزیکٹو کمیٹی(ایف ای سی) کے سالانہ اجلاس لاہور میں پنجاب یونین آف جرنلسٹس (پی یو جے) کی میزبانی میں  ہوتے تھے۔ کراچی سے وفاقی صدر منہاج برنا کی قیادت میں اہم عہدیدار (جن میں عبدالحمید چھاپڑہ اور حبیب غوری شامل تھے) لاہور آکر ہوٹلوں میں پی یو جے کے انتظامات کے تحت ٹھہرتے تو ہم ان کی میزبانی میں کوئی کسر نہ چھوڑتے۔ اپنا بھرم رکھنے کو پی یو جے کے بجٹ کے ساتھ مجھے اپنے دوسرے ساتھیوں کے ساتھ ذاتی پاکٹ سے بھی کبھی خرچ کرنا پڑ جاتا تھا۔ دوچار دن پرانے شہر میں تانگوں کی سیر اور حلوہ پوری وغیرہ کا ناشتہ اس عیاشی میں شامل ہوتا تھا۔ جتنے دن وہ رہتے شہر کی معتبر شخصیتوں کی طرف سے ان کی دعوتیں جاری رہتیں جن میں فلم سٹار محمد علی ہمیشہ پیش پیش ہوتے اور بیرونی مہمانوں کے مستقل میزبان ہونے کی وجہ سے ہم خود بھی ان دعوتوں میں برابر کے شریک ہوتے اور اس میں رابطہ کاری کی ذمہ داری بھی نبھاتے۔(جاری ہے)

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *