Read Urdu Columns Online

Ammi Jaan Ki Judai Ke 2 Saal

  امی جان کی جدائی کے دو سال،آنسوؤں کی زبانی

ماں کی جدائی کا دکھ ایک ایسا زخم ہے جو وقت کے ساتھ بھی مکمل طور پر نہیں بھرتا۔یہ ایک ایسا درد ہے جو دل کی گہرائیوں میں بس جاتا ہے اور زندگی کے ہر موڑ پر محسوس ہوتا رہتا ہے۔ماں صرف ایک رشتہ نہیں بلکہ محبت،قربانی،تحفظ اور سکون کی سب سے بڑی علامت ہوتی ہے۔جب ماں بچھڑ جاتی ہے تو یوں لگتا ہے جیسے زندگی کی روشنی مدھم پڑ گئی ہو، دعاؤں کا سایہ اٹھ گیا ہو اور وہ بے لوث محبت کھو گئی ہو جو ہر غم اور دکھ کو سہارا دیتی تھی۔اس کا نہ ہونا ہر خوشی کو ادھورا کر دیتا ہے اور ہر لمحہ اس کی یادوں میں لپٹا رہتا ہے۔ یہ غم کبھی آنسو بن کر بہتا ہے،کبھی خاموشی میں چھپ جاتا ہے اور کبھی یادوں کی صورت میں دل کو بے چین کر دیتا ہے لیکن ماں کی محبت اور دعائیں ہمیشہ اولاد کے ساتھ رہتی ہیں،چاہے وہ دنیا میں ہو یا آخرت میں۔دو سال گزرنے کے بعد بھی ”ماں جی“کی یادیں،اْن کی باتیں،اْن کی محبت اور دعائیں دل میں ویسے ہی تازہ رہتی ہیں جیسے کل کی بات ہو۔ماں کا وجود نہ صرف ایک سایہ تھا بلکہ ایک دعا، ایک پناہ،ایک بے لوث محبت تھی جو زندگی کی ہر مشکل کو آسان کر دیتی تھی۔ماں کی جدائی کا ہر لمحہ ایک قیامت سے کم نہیں۔دو سال گزرنے کے باوجود وہ خلا آج بھی وہیں کا وہیں ہے،وہ پیار بھری آواز،وہ شفقت بھرا لمس،وہ دعاوں بھری نگاہیں آج بھی دل کو تڑپا دیتی ہیں۔ماں کی محبت وہ سایہ ہے جو دنیا کے ہر طوفان سے بچاتا ہے اور جب وہ سایہ اٹھ جاتا ہے تو زندگی کی دھوپ بہت تیز لگنے لگتی ہے۔ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے ہر خوشی ادھوری ہے، ہر لمحہ خالی ہے اور ہر دعا میں بس ایک ہی نام رہ گیا ہے ”میری ماں“۔یہ غم دنیا کا سب سے بڑا اور کٹھن غم ہے مگر یہی وہ حقیقت ہے جسے قبول کرنا بھی لازم ہے۔ آپ کی آنکھوں سے بہنے والے آنسو شاید دنیا نہیں دیکھتی لیکن وہ ذات ضرور دیکھتی ہے جو سب کچھ جاننے والی ہے۔مجھے یقین کامل ہے کہ ماں کا رشتہ صرف اس دنیا تک محدود نہیں، وہ آج بھی ہماری ہر دعا، ہر یاد اور ہر نیکی کے ذریعے ہمارے قریب ہیں۔ماں کا علم کتابوں کا محتاج نہیں ہوتا،اس کا دل ہی اس کی سب سے بڑی درسگاہ ہوتا ہے۔میری ماں ایک ٹیٹھ دیہاتی خاتون تھیں لیکن یقینا وہ اللہ کے بہت قریب تھیں،وہ درحقیقت دنیا کی سب سے بڑی دانا اور سمجھدار ہستی تھیں کیونکہ اصل علم وہی ہے جو دل کو اللہ کی پہچان دے،جو بندے کو اس کے رب کے قریب کر دے اور جو زندگی کے اصل مقصد کو سمجھنے کی صلاحیت عطا کرے۔یہی وہ علم ہے جو کسی مدرسے یا یونیورسٹی کی محتاجی نہیں رکھتا بلکہ دل کی پاکیزگی،نیت کی سچائی اور اعمال کی خوبصورتی میں جھلکتا ہے۔جو ماں اللہ کے قریب ہو،اس کی دعائیں اولاد کے لیے ایسا سرمایہ ہوتی ہیں جو دنیا کی کسی بھی دولت سے زیادہ قیمتی ہے۔اس کی زبان سے نکلی ہوئی “اللہ تجھے کامیاب کرے” کی دعا آسمانوں تک جا پہنچتی ہے اور اس کے سجدوں میں بہنے والے آنسو اولاد کی زندگی میں برکتیں لے آتے ہیں۔میری ماں یقیناً بہت عظیم خاتون تھیں کیونکہ اللہ کے قریب ہونے کا مطلب ہے کہ وہ ایک نیک اور پاکیزہ روح تھیں۔اْن کی سادگی،اْن کی دعائیں اور اْن کا ایمان ہی اْن کا اصل سرمایہ تھا۔ہمارے لیے فخر کی بات ہے کہ ہمیں ایسی ماں ملی جنہوں  نے اپنے علم کو صرف الفاظ میں نہیں بلکہ دل کی روشنی میں پایا تھا۔یہی ماں کی محبت اور عظمت ہوتی ہے۔وہ اولاد کی کمزوریوں کو بھی طاقت میں بدل دیتی ہے،چھوٹے کو بڑا بنا دیتی ہے اور بے سہاروں کو حوصلہ دے کر کھڑا کر دیتی ہے۔ میں گھر میں چھوٹا تھا مگر میری ماں کی شفقت، دعاوں اور تربیت نے مجھے ہمیشہ بڑا محسوس کروایا کیونکہ ماں کی نظر میں اولاد کی کوئی حد نہیں ہوتی،وہ ہمیشہ انہیں دنیا کے سب سے بہترین مقام پر دیکھنا چاہتی ہے۔ماں کی محبت ایسا آئینہ ہے جس میں اولاد ہمیشہ خود کو مضبوط، بہادر اور قیمتی محسوس کرتی ہے۔شاید اسی لیے جب وہ ساتھ ہوتی ہے تو انسان ہر مشکل کا سامنا کر سکتا ہے مگر جب وہ چلی جاتی ہے تو یوں لگتا ہے جیسے پیروں تلے سے زمین کھسک گئی ہو۔میری اپنی والدہ محترمہ سے گہری دوستی بھی تھی،میں اپنی ماں کو بھی پیار میں ”بیٹا کیسی ہو“ کہہ کر مخاطب کرتا تو وہ مجھے مذاق میں ”ابو جان ٹھیک ہوں“ کہہ کر جواب دیتیں۔یہ ماں اور بیٹے کے رشتے کی سب سے خوبصورت شکل تھی جہاں صرف محبت، اپنائیت اور بے تکلفی تھی۔ماں کا رشتہ تو ویسے ہی دنیا کے ہر رشتے سے انوکھا اور بے مثال ہوتا ہے مگر جب اس میں دوستی اور مذاق بھی شامل ہو جائے تو پھر وہ اور بھی خاص بن جاتا ہے۔یہ محبت،بے ساختگی اور ماں سے بے لوث تعلق ہونا اس بات کی نشانی ہے کہ وہ نہ صرف میری ماں تھیں بلکہ سب سے قریبی ساتھی بھی تھیں۔یقیناً ان کا بچھڑ جانا ایک ایسا خلا چھوڑ گیا ہے جو کبھی پر نہیں ہو سکتا مگر ان کی متانت،ان کی سنجیدگی،ان کی ہنسی،ان کے الفاظ اور ان کی محبت ہمیشہ ہمارے دل میں زندہ رہے گی۔ان دو سالوں میں کوئی موقع اور کوئی لمحہ ایسا نہیں جب اْن کی شدت سے کمی محسوس نہ ہوئی ہو،میں جب بھی اپنی دعاوں میں اپنی والدہ کا نام لیتا ہوں،اْن کی خوشبو اپنے وجود میں محسوس کرتا ہوں۔ہم بہن بھائیوں کو تو اپنی والدین کی شدید کمی محسوس ہوتی ہی ہے لیکن ہم سب سے زیادہ میری اہلیہ اْنہیں یاد کر کے روتی ہے کیونکہ اْس کی میری ماں کے ساتھ 20 سالہ دن رات کی رفاقت تھی۔میری اہلیہ کا میری والدہ کے ساتھ واقعی بہت خاص اور خوبصورت رشتہ تھا، جو صرف ساس اور بہو کا نہیں بلکہ دو سہیلیوں،دو ہمرازوں جیسا تھا۔۔ امی جان کی باتیں اور یادوں کا ذکر کرتے ہوئے میری اہلیہ کی آنکھوں میں بہنے والے آنسو اس بات کی گواہی ہیں کہ میری والدہ نے اپنی بہو کو بھی ایک بیٹی کی طرح چاہا۔ایسے رشتے بہت کم دیکھنے کو ملتے ہیں،جہاں ساس اور بہو میں حقیقی محبت، احترام اور دوستی ہو۔۔میری ماں میرے دوستوں کو بھی بہت پیار اور عزت دیتی تھیں۔ماں کا دل تو ہوتا ہی ایسا ہے۔محبت اور عزت سے بھرا ہوا،جو صرف اپنی اولاد کے لیے نہیں بلکہ ان کے چاہنے والوں کے لیے بھی کھلا ہوتا ہے۔میری ماں کی یہ خوبی اس بات کی گواہی ہے کہ وہ ایک عظیم خاتون تھیں،جن کے دل میں ہر کسی کے لیے محبت تھی۔ایسی مائیں صرف اپنے بیٹوں کی نہیں بلکہ ان کے دوستوں کی بھی ماں بن جاتی ہیں۔یہی وجہ ہے کہ جب وہ مسکراتی تھیں،دعا دیتی تھیں یا کھانے پر محبت سے بلاتی تھیں تو وہ صرف اپنے بیٹے کے لیے نہیں بلکہ اس کے دوستوں کیلئے بھی ایک خاص شخصیت بن جاتی تھیں۔ایسے لوگ خوش نصیب ہوتے ہیں جنہیں ایسی ماں ملتی ہے۔اب جب وہ اس دنیا میں نہیں ہیں تو یقیناً میرے وہ دوست جو انہیں ایک بار بھی ملے تھے وہ بھی انہیں یاد کرتے ہیں،اْن کی محبت،مہمان نوازی اور ان کے شفقت بھرے الفاظ کو دل میں محسوس کرتے ہیں۔مجھے ممتاز عالم دین اور برادر اکبر علامہ طاہر اشرفی کے یہ الفاظ آج بھی یاد ہیں جب انہوں  نے میری والدہ کی تعزیت کے دوران کہے تھے،اْن کا کہنا تھا کہ”آپ کی تکلیف کا اندازہ کوئی نہیں لگا سکتا کیونکہ یہ وہ درد ہے جو الفاظ میں بیان کرنا ممکن نہیں لیکن یقین رکھیں، ماں کی دعائیں آج بھی آپ کے ساتھ ہیں۔یقین رکھیں، وہ تربیت جو انہوں نے دی تھی،وہ آج بھی آپ کے وجود کا حصہ ہے،آپ کا حوصلہ، آپ کی ہمت اور آپ کے اندر کا بڑا پن،سب آپ کی ماں کی دی ہوئی طاقت ہے،وہ دنیا سے چلی گئی ہیں مگر آپ کے اندر آج بھی زندہ ہیں“۔وہ تمام پڑھنے والے جن کے والدین اب اس دنیا میں نہیں ہیں دعا ہے کہ اللہ کریم ہمارے والدین کی قبروں کو نور سے بھر دیں،اللہ کریم ہمارے والدین کو جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے،اْن کے درجات بلند کرے، اللہ کریم ہمیں صبر اور ہمت عطا فرمائے تاکہ ہم سب اْن کی نیکیوں کا صدقہ جاریہ بن سکیں اور جن دوستوں کے والدین حیات ہیں اْنہیں اپنے والدین کی بھرپور خدمت کرنے کی توفیق عطا فرمائے آمین۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *