ججز تعیناتی: کیا ہماری ماتحت عدلیہ نااہل ہے؟
گذشتہ دنوں جوڈیشل کمیشن آف پاکستان نے لاہور ہائی کورٹ میں 9 عدد ایڈیشنل جج صاحبان کی تعیناتی کی منظوری دی۔لاہور ہائی کورٹ کی چیف جسٹس صاحبہ کی طرف سے کل 49افراد کی فہرست جوڈیشل کمیشن کو بھجوائی گئی تھی جن میں سے صرف 4کا تعلق ماتحت عدلیہ سے تھا اور بقیہ پینتالیس کا تعلق مختلف لاء چیمبرز سے تھا۔ یاد رہے اس وقت لاہور ہائی کورٹ میں ججز کی منظور شدہ کل اسامیاں 60 ہیں۔لیکن 34 جج صاحبان کام کر رہے ہیں اور 26 اسامیاں خالی پڑی ہیں۔ قابل افسوس امر یہ ہے کہ جوڈیشل کمیشن کی طرف سے سفارش کردہ 9 نامزدگیوں میں سے ایک بھی ماتحت عدلیہ یعنی ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن ججزسے نہیں کی گئی ہے۔جس کا مطلب یہ لیا جا سکتاہے کہ جو لوگ ایک سخت مقابلہ جاتی تحریری امتحان، نفسیاتی اور رحجانیاتی ٹیسٹ اور پھر انٹرویو سے گزر کر تعینات کیے جاتے ہیں اور سالہا سال کاجوڈیشل کام کا تجربہ بھی رکھتے ہیں وہ اس قابل نہیں ہوتے کہ انھیں ہائی کورٹ میں جج تعینات کیا جائے۔
آئین پاکستان کے آرٹیکل 175-A میں اعلیٰ عدلیہ کے لیے جج صاحبان کی تقرری کے لیے ایک جوڈیشل کمیشن آف پاکستان تشکیل دیا گیا ہے۔ حالیہ چھبیسویں آئینی ترمیم کے ذریعے اس کی تشکیل نو کی گئی ہے۔اب یہ کمیشن کل 13 اراکین پر مشتمل ہے۔چیف جسٹس آف پاکستان اس کے سربراہ ہیں۔اس کے علاوہ سپریم کورٹ کے تین سینئر ترین ججز، آئینی بینچ کا سینئر ترین جج،وفاقی وزیر قانون، اٹارنی جنرل آف پاکستان، دو عدد ممبران قومی اسمبلی(ایک حزب اقتدار اور دوسرا حزب اختلاف سے)، دوعدد ممبران سینٹ،(ایک حزب اقتدار اور دوسرا حزب اختلاف سے)،پاکستان بار کونسل کا ایک نمائندہ اور ایک خاتون یا غیر مسلم جسے سپیکر قومی اسمبلی نامزد کر ے گا، اس کے ممبران ہوں گے۔اگر ہم اس فہرست پر نظر ڈالیں تو عیاں ہوتا ہے کہ 13 اراکین پر مشتمل اس جوڈیشل کمیشن میں 06 اراکین حکومت کے نامز کردہ ہیں۔یوں حکومت ایک اور رکن کو ساتھ ملا کر اکثریت میں ہو جائے گی اور اپنی مرضی کا فیصلہ کروانے کی پوزیشن میں ہو گی۔وہ جسے چاہے گی اس کا نام بطور ایڈیشنل جج منظور ہو جائے گا۔اس طرح جو بھی حکومت آئے گی وہ اپنے ججز لگائے گی تو پھر تیرا جج اور میرا جج کی گردان کا پڑھا جانا لازم و ملزوم ہو گا۔ اورجج صاحبان پر جانبداری کے الزامات لگنا بھی ایک فطرتی عمل ہو گا۔ہماری رائے میں موجودہ جوڈیشل کمیشن کی تشکیل قرین انصاف نہ ہے۔کیونکہ یہ عدلیہ کی آزادی پر قدغن لگانے کے مترادف ہے۔ بیوروکریسی پر مکمل کنٹرول حاصل کرنے کے بعد اب ہمارے سیاستدان عدلیہ کے درپے ہو گئے ہیں۔اور چھبیسویں آئینی ترمیم اس ایجنڈے کی تکمیل کی طرف پہلا قدم ہے۔ آگے آگے دیکھیے ہوتا ہے کیا۔
اب دیکھنا یہ ہے کہ ہائی کورٹ میں جج صاحبان کی تقرری میں کون سے میرٹ اور معیار کو ملحوظ خاطر رکھا جاتا ہے؟ آئین پاکستان کے آرٹیکل 193 کے مطابق ہائی کورٹ کا جج بننے کے لیے پاکستان کا شہری ہونا، عمر کم از کم 45 سال ہونا اور بطور وکیل کم از کم 10 سال کا تجربہ ہونا ضروری ہے۔ اس تعیناتی کے لیے نہ تو کسی امتحان کی ضرورت ہے اور نہ ہی کسی رحجانیاتی و نفسیاتی ٹیسٹ یا انٹرویو کی۔ جب کہ عدلیہ میں سول جج بھرتی ہونے کے لیے 1000 نمبروں کا تحریری امتحان 100نمبروں کا رحجانیاتی اور نفسیاتی ٹیسٹ اور 100 نمبروں کا انٹرویو لیا جاتا ہے۔ ایڈیشنل ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج بھرتی ہونے کے لیے 700 نمبروں کا تحریری امتحان اور 200 نمبروں کا انٹرویو لیا جاتا ہے۔ لیکن جسٹس بننے کے لیے نہ تو کوئی امتحان اور نہ ہی کوئی انٹرویو۔جس کی وجہ سے میرٹ کو پس پشت ڈال کر بھائی بھانجے، چیمبر فیلوز، ججز کے بیٹے اور رشتہ دار اورسیاستدانوں کے قریبی وکلا کو جسٹس قرر کردیا جاتا ہے۔یہ سراسر ظلم، زیادتی اور نا انصافی ہے۔ سب سے بڑی زیادتی ماتحت عدلیہ کے جج صاحبان کے ساتھ کی جاتی ہے۔انھیں ترقی کے مواقع بالکل نہیں دیے جاتے۔ انھیں ان کے آئینی حق سے محروم رکھا جاتا ہے۔ اور وہ اس پر احتجاج بھی نہیں کر سکتے۔کیا یہ زیادتی نہیں ہے کہ آپ ایک شخص کو ایڈیشنل ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج بھرتی کریں۔پوری زندگی میں اس کی صرف ایک دفعہ بطور ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج ترقی ہو اور وہ اسی عہدے سے ریٹائر ہو جائے۔لاہور ہائی کورٹ میں گذشتہ دنوں ایڈیشنل جج کی تعیناتی کے لیے جن وکلا کے ناموں کی جوڈیشل کمیشن نے منظوری دی ہے ان میں سے ایک صاحب سابقہ ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل ہیں اورموجودہ وفاقی وزیر قانون کے چیمبر فیلو ہیں۔ دوسرے صاحب ایک سابقہ سینیٹر کے داماد ہیں۔ایک اور صاحب لاہور ہائی کورٹ کے ایک موجودہ جج صاحب کے چیمبر سے ہیں۔ایک صاحب جو ایڈووکیٹ جنرل پنجاب ہیں جن کی وفاداریاں موجودہ پنجاب حکومت کے ساتھ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں ہے۔ ایک اور صاحب پاکستان پیپلز پارٹی کے ایک سینیٹر کے چیمبر فیلو ہیں۔بقیہ جج صاحبان بھی کسی نہ کسی طرح حکومتی بنچوں کے ساتھ منسلک ہوں گے۔ اس سے اچھی طرح اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ اعلیٰ عدلیہ میں جج صاحبان کی تقرری کا میرٹ کیا ہےِ؟
اگر ہم چاہتے ہیں کہ ہماری عدالتوں میں انصاف کا بول بالا ہو، ملک میں قانون کی حکمرانی ہو، عدالتوں میں فیصلے میرٹ پر ہوں۔تیز رفتار انصاف میسر ہو، عوام کا عدالتوں پر اعتماد ہو، مظلوموں کا ساتھ دینا ہمارے عدالتی افسروں کا اوڑھنا بچھونا ہو،ججز نہ بولیں بلکہ ان کے فیصلے بولیں، ظالموں کا جینا دوبھر ہو، ملک میں امن و امان کی صورتحال مثالی ہو، ہر ادارہ اپنی حد میں رہ کر کام کرے، کوئی کسی کے کام میں مداخلت نہ کرے، نہ تو عدلیہ انتظامیہ کے معاملات میں دخل اندازی کرے اور نہ انتظامیہ عدلیہ کو نیچا دکھانے کی کوشش کرے تو ہمیں اپنے نظام عدل میں تبدیلیاں لانا ہوں گی۔ جن میں سب سے بڑی تبدیلی اعلیٰ عدلیہ میں ججز کی تقرری میرٹ پر کرنا ہو گی، اس کے لیے بھی ایک مقابلہ جاتی امتحان منعقد کرنا ہو گا یا براہ راست ججز بھرتی کرنے کی بجائے ماتحت عدلیہ سے سنیارٹی کم فٹنس کی بنیاد پر جج صاحبان کو ترقی دینا ہو گی۔ جب ججز میرٹ پر تعینات ہوں گے تو وہ فیصلے بھی میرٹ پر کریں گے۔ہمارے حکمران اور سیاستدان اگر اس قوم کے ساتھ مخلص ہیں تو انھیں ذاتی مفادات سے بالا تر ہو کر آئینی ترامیم لا کر جج صاحبان کی تعیناتی میرٹ پر کرنا ہو گی۔ یہ کام جتنی جلدی ہو سکے کرنا ہو گا۔ ورنہ ہمارے ملک کی ترقی کی راہیں مسدود ہوتی چلی جائیں گی۔