Urdu Columns Today

Farosda Nazam Ki Islah Kab Hogi

فرسودہ نظام کی اصلاح کب ہوگی؟

ہماری اقتصادی حالت بہت خراب اور دیوالیہ پن کے نزدیک پہنچ چکی ہے۔پاکستان نے 11 جولائی 1950 میں IMF جوائن کیا تھا۔ ہمارے نام نہاد لیڈران کرپشن اور اقربا پروری کے سایے تلے تمام حکومتی ادارے اور سرکاری کمپنیوں کو نا اہل ڈائریکٹروں کی سرپرستی میں چلا رہے تھے اور آج بھی کچھ نہیں بدلا۔ کہتے ہیں کہ جیسی قوم ویسے حکمران ۔ مگر میرا دماغ آج تک یہ سمجھنے سے قاصر ہے کہ کرپشن اعلیٰ سطح سے نیچے کی طرف چلتی ہے یا نیچے سے اوپر کی طرف۔ جہاں تک میرا ذہن کام کرتا ہے جیسے بڑے ہوں گے ویسے ہی چھوٹے ہوں گے تو میرے نزدیک کرپشن اوپر سے نیچے کی طرف آتی ہے۔ ہمارے بہت سے سرکاری کمپنیوں کے اعلیٰ عہدے داران انہیں لْوٹنے اور تباہ کرنے میں مصروف تھے اور ہیں۔ افسوس در افسوس ہے کہ دنیا کے بڑے سمندر میں پاکستان بے پتوار کی کشتی کی طرح بہے چلا جا رہا ہے جس کے بادبان تک پھٹے ہوئے ہیں۔ ہمارا قومی اعتماد اس وقت تار تار ہو چکا ہے۔ ملکی معیشت تباہی کے دہانے پر پہنچ چکی ہے۔ کیا بابائے قوم قائدِ اعظم نے ایک ایسے آزاد ملک اور ایسی جمہوریت کے خواب دیکھا تھا؟ کیا اس طرح کے کرپٹ ملک کے لیے انہوں نے اتنی تگ و دو کی تھی؟ مقالاتِ سر سید کتاب میں ان کا ایک مضمون ہے: ’’اپنی مدد آپ‘‘ جس میں وہ فرماتے ہیں کہ ’’جو قومیں جس قدر دوسرں پر بھروسہ کرتی چلی جاتی ہیں وہ اسی قدر بے عزت اور بے مدد ہوئے جاتی ہیں۔ گورنمنٹ کا فرض ہے عوام کی جان و مال کی مکمل حفاظت کرے۔ حکومت جس قدر عمدہ ہو گی اتنا ہی قوم کا نقصان کم ہوگا۔ یہ نیچر کا ایک قاعدہ ہے کہ جیسا مجموعہ قوم کی چال چلن کا ہوتا ہے یعنی اس کے موافق اس کے قانون اور اس کے مناسب حال گورنمنٹ ہوتی ہے‘‘۔ ہمارے ملک کی مختصر سیاسی تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ جمہوریت کے حصول میں ہم شدید ناکام رہے۔ یہاں سب لوگ جمہوری چوغے میں آمروں کی طرح حکومت کرتے رہے۔ میڈیا میں بہت سے رسائل اور اخبار نویس مختلف اوقات میں گرفتار ہوئے۔ کبھی نو ستاروں نے بڑھ ایک سورج کی روشنی کو بْجھانا چاہا اور بالآخر ضیا نے بھٹو کے خلاف مذہبی سیاسی نعروں کی مَد میں 11 سال حکومت کی جبکہ ضیا نے نوے دنوں کے اندر اندر قوم سے الیکشن کروانے کا وعدہ کیا تھا۔ جسے ریفرنڈم میں بدل دیا۔ مگر ہم 1950سے لے کر آج تک IMF کے قرض دار ہیں۔ ان کی مدد کے بغیر دو قدم بھی نہیں چل سکتے۔ کاش! ہم نے قانون کی حاکمیت کو یقنی بنایا ہوتا۔ کاش! ہم نے عدلیہ کو واقع ہی منصفانہ طور پر اپنایا ہوتا۔ کاش! ہم نے ریاستی اداروں سے سیاست کا خاتمہ کیا ہوتا۔ کاش! ہمارے حکمرانوں نے اقتدار کی منتقلی عوامی سطح تک کی ہوتی۔ کاش! اس ملک میں غیر جانب دارانہ اور فوری احتساب کیا گیا ہوتا؟ کاش! غربت کا خاتمہ، صحت، تعلیم اور عورتوں کی سماجی آزادی کی ترقی پر کام کیا ہوتا؟ کاش! حقیقی آزادی اور جمہوریت کے لیے سیاسی تعمیر نَو کی ہوتی؟ مگر ابھی تک ہم انہی پرانے دقیانوسی طریقوں پر چلے جا رہے ہیں۔ آج بھی سڑکیں بنا کر اور بازاروں سے ریڑھیوں والوں کو ہٹا کر عوام کو سستی خوشی کے لالی پاپ دیئے چلے جا رہے ہیں۔ مرحوم پرویز مشرف نے قومی احتساب بیورو بنایا تھا۔ NAB کا مقصد تھا کہ طاقتور اور صاحبِ اختیار لوگ قوم کا پیسہ نہ لْوٹیں۔ نجانے اس محکمے کے تحت کتنی دیانت داری سے کام لیا گیا۔ کیا عوام کی لوٹی ہوئی قومی دولت کے اربوں روپے واپس ہوئے یا نہیں یہ بھی ایک سوالیہ نشان ہے۔ عوام چاہتے ہیں کہ حاکموں اور سیاست دانوں کو ان کے کردہ گناہوں کی سزائیں دی جائیں لیکن بد قسمتی سے اس ملک میں مجرم اور کرپٹ لیڈران کو قانون کے کٹہرے میں کھڑا کرنا اتنا آسان نہیں ہے۔ کیوں کہ طاقت ور سرکاری اہل کارکوئی ایسا ثبوت نہیں چھوڑتے کہ ان پر الزام ثابت کیا جا سکے۔ اس وقت ملک کو سڑکوں اور بتیوں کی نہیں بلکہ تعمیرِ نو کی ضرورت ہے۔ حکومت اور افسر شاہی کو نئے سرے سے دیانت داری کے اصولوں پر چلانے کی اہمیت کو جانچنا اور لاگو کرنا ہر کام سے زیادہ ضروری ہے۔ کیا دنیا کا کوئی ملک جمہوریت کے بغیر چل سکتا ہے؟ ایک متحرک اور سچی جمہوریت اپنے عوام کو با اختیار بناتی ہے۔ اگر ایسا نہیں ہے تو وہ جمہوریت کا لبادہ اوڑھے ہوئے ایک نقلی حکومت ہوتی ہے۔ دیکھا جائے تو ہم نے وطنِ عزیز میں چھوٹے چھوٹے مراعات یافتہ طبقوں کو حکومتیں سونپ دی ہیں جو زبردستی جمہوری کہلاتی ہیں مگر اصل میں آمرانہ ہوتی ہیں۔ قبائلی اور جاگیردارانہ سوچ کے حامی اپنے اپنے قبیلوں اور برادریوں سے باہر ووٹ تک نہیں ڈالتے۔ ہماری نام نہاد نا کارہ جمہوریت سے ملک کو نا قابلِ تلافی نقصان پہنچا۔ موجودہ صورتِ حال پر عوام بلبلا اْٹھے ہیں اور خصوصاً 8 فروری 2024 کے الیکشن کے بعد لوگ زیادہ سے زیادہ اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ اب ان کے لیے حقیقی جمہوریت کے بغیر ہر گز کوئی چارہ نہیں۔ جب تک ہم بیرونی امداد کی طرف نظریں جمائے رکھیں گے ترقی ناپید ہوتی رہے گی۔ حیرت ہے کہ ہمارے ملک میں بے شمار انتخابات ہونے کے باوجود ہمیشہ مراعات یافتہ طبقہ ہی کیوں جیتتا ہے اور اس طبقے کا اولین مقصد محض اپنی ہی مراعات کو بچانا ہو تا ہے چاہے ملک داؤ پر لگتا ہے تو ان کی بلا سے۔ ہماری چٹ پٹی سیاسی تاریخ میں جمہوریت اور مارشل لاء کے درمیان کرکٹ کا میچ ہوتا رہا۔ اس میچ میں فاؤل کھلاڑی آتے رہے اور ایمپائر انہیں جتاتے رہے۔ پاکستان میں سیاسی پارٹی کا لیڈر ہی پوری پارٹی ہے۔ نجانے ہمارے اس فرسودہ نظام کی اصلاح کب ہوگی؟

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *