Urdu Columns Today

Bharat Per Nawazshat

بھارت پر نوازشات

امریکہ میں جب ڈونلڈ ٹرمپ اور بھارتی وزیراعظم نریندر مودی یہ کہہ رہے تھے کہ امریکہ بہت پرانی اور بھارت دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت ہے تو ہمارے ہاں یہ بحث جاری تھی کیا پاکستان میں پارلیمنٹ کا کردار ختم ہو گیا ہے۔ مولانا فضل الرحمن تو یہ تک کہتے ہیں پاکستان میں جمہوریت اپنا مقدمہ ہار رہی ہے،ہمیں سب سے زیادہ نظر بھارت پر رکھنی پڑتی ہے،کیونکہ وہ ہمارا ازلی دشمن ہے اُس نے کبھی پاکستان کو دِل سے تسلیم نہیں کیا اور وہ پاکستان کو دہشت گرد،در اندازی کرنے والا اور جارحیت کا مرتکب ملک ثابت کرنے میں کبھی بخل سے کام نہیں لیتا،مگر بات تو بہت آگے نکلی جا رہی ہے۔بھارت امریکہ سے وہ کچھ منوا رہا ہے جو سرا سر ہمارے خلاف اس کے متعصبانہ اور جھوٹے بیانیے کو درست ثابت کرے۔نریندر مودی نے صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے بھارت کا ایک دیرینہ مطالبہ منوا لیا ہے۔ صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ممبئی حملوں کے مبینہ سہولت کار پاکستانی نژاد کینیڈین بزنس مین تیمو رانا کو بھارت کے حوالے کرنے پر آمادگی ظاہر کر دی ہے۔تیمور رانا پاکستانی فوج میں بطور ڈاکٹر خدمات سرانجام دیتے رہے ہیں۔ پاکستان کا موقف ہمیشہ یہ رہا ہے کہ ممبئی حملے خود بھارت کی اختراع ہے اور اس میں بھارت کے علیحدگی پسند گروہ ہی ملوث تھے، امریکہ بھی اس بات کو ماننے پر آمادہ نہیں تھا کہ تیمور رانا کا کوئی لنک اس معاملے سے بنتا ہے مگر اب نریندر مودی نے ڈونلڈ ٹرمپ کو نجانے کس طرح قائل کر لیا ہے اور انہوں نے تیمور رانا کو بھارت کے حوالے کرنے پر آمادگی ظاہر کی ہے۔پرانی جمہوریت اور بڑی جمہوریت والے یہ دو ملک اپنی اپنی ضرورتوں کے تحت ایک دوسرے کے ساتھ بندھے ہوئے ہیں۔ ڈونلڈ ٹرمپ کو بھارت کے مقبوضہ کشمیر میں مظالم نظر آئیں گے اور نہ اُس کے غاصبانہ قبضے کی کوئی خبر ہو گی۔وہ اُسے سب سے بڑی جمہوریہ ہی قرار دیتے رہیں گے، اسی طرح بھارت کو ڈونلڈ ٹرمپ کے اسلامی ممالک کے خلاف منصوبوں پر کوئی اعتراض نہیں ہو گا کہ اُسے تو صرف خطے میں اپنی چودھراہٹ قائم کرنی ہے۔ ہمیں یہ ماننا پڑے گا بھارت نے اپنی خارجہ پالیسی کے ذریعے دنیا کی سپر پاور  کو بھی شیشے میں اتارا ہوا ہے اور اپنے اردگرد کے ہمسایہ ممالک چین اور روس کو بھی گرفت میں لے رکھا ہے۔ دفاعی لحاظ سے نریندر مودی نے اس دورے میں ایک بڑی کامیابی یہ بھی حاصل کی۔جدید ایف35جنگی طیاروں کی فراہمی کیلئے بھی ڈونلڈ ٹرمپ نے کوئی راستہ نکالنے کی امید دلائی ہے۔ بھارت جو خود مقبوضہ کشمیر اور اپنی دیگر ریاستوں میں ظلم و بربریت کا بازار گرم رکھتا ہے۔امریکہ کو یہ باور کرانے میں کامیاب رہا ہے کہ اُسے دہشت گردی  کے خطرے کا سامنا ہے اور دونوں ممالک نے اس پر اتفاق رائے کیا ہے کہ دہشت گردی سے مشترکہ طور پر لڑا جائے گا۔بھارت کو گویا ایک طرح سے اب یہ شہ مل گئی ہے کہ وہ جب چاہے پاکستان پر دراندازی یا دہشت گردی کا جھوٹا الزام لگا دے۔ امریکہ اُس کی ہاں میں ہاں ملائے گا۔ یہ سب باتیں ہمارے لئے خطرے کی گھنٹی ہیں مگر یہاں تو کسی کو اس طرف دیکھنے کی فرصت ہی نہیں۔

صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے فیصلوں سے نظر آ رہا ہے، اُن کا جھکاؤ بھارت کی ہے اُن کی حلف برداری کی تقریب میں بھارتی وزیر خارجہ کو خصوصی اہمیت دی گئی اور اب اُن کے عہد اقتدار میں نریندر مودی امریکہ کا دورہ کرنے والے کسی ملک کے پہلے حکمران بن گئے۔صدر ڈونلڈ ٹرمپ ٹیرف کے حوالے سے خاصے سخت بیانات اور ایگزیکٹو آرڈر جاری کرتے رہے ہیں لیکن بھارت کیلئے انہوں نے نرم گوشہ ظاہر کیا ہے۔اُسے یہ پیشکش کی ہے کہ جتنا ٹیرف وہ خود لگائیں گے امریکہ بھی اسی تناسب سے لگائے گا۔ دونوں رہنماؤں کی پریس کانفرنس کے وقت ہال میں موجود بعض صحافیوں نے لکھا ہے ڈونلڈ ٹرمپ کی باڈی لینگویج جو عام طور پر جارحانہ نظر آتی ہے اس پریس کانفرنس میں خاصی پرو بھارت تھی اور نریندر مودی کا لہجہ خاصا فاتحانہ تھا۔ انہوں نے اعلان کیا وہ امریکہ سے تعلقات تیزی سے بڑھائیں گے اور خطے میں بھارت امریکہ کا ہر معاملے میں سب سے بڑا پارٹنر ہو گا۔ یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ امریکہ کی لغت میں ملکوں کے درمیان دوستی کوئی چیز نہیں، اصل چیز دو ممالک کے درمیان پارٹنر شپ ہے۔امریکہ اپنی معیشت کو سب سے زیادہ اہمیت دیتا ہے۔بھارت اُس کیلئے سب سے بڑی منڈی ہے پھر امریکہ کا سب سے بڑا دُکھ یہ ہے کہ ایشیاء میں چین اور روس کے اثرو رسوخ کو کم کیا جائے۔ بھارت اس حوالے سے اپنی پوزیشن کو سمجھتا ہے، اس لئے اُس نے چین کے ساتھ معاشی روابط بڑھائے ہوئے ہیں اور اس کے ساتھ سٹرٹیجک روابط بڑھا کر وہ نفسیاتی طور پرامریکہ کو زچ کرتا رہتا ہے۔ بھارت پچھلے چند برسوں میں اپنی معیشت کو خود انحصاری کی طرف لے گیا ہے۔اُس نے اشیاء درآمد کرنے کی بجائے ٹیکنالوجی درآمد کرنے پر زور دیا ہے۔آج وہاں معروف برانڈ کی گاڑیوں کے اسمبلنگ پلانٹ نہیں مینوفیچرنگ پلانٹ لگے ہوئے ہیں۔اسی طرح ادویہ ساز کمپنیاں، آئی ٹی کی مصنوعات اور دیگر ٹیکنالوجی سے منسلک مصنوعات کے پلانٹ اور کارخانے لگائے گئے ہیں،جس سے نہ صرف بھارت کی برآمدات میں اضافہ ہوا ہے بلکہ بیروز گاری میں بھی کمی آئی ہے۔

امریکہ کو مفت میں بیوقوف نہیں بنایا جا سکتا ہم اس کے عادی رہے ہیں کہ امریکی ہم پر ڈالروں کی برسات کرتے رہیں،جس زمانے میں امریکہ نے ڈالروں کے منہ کھولے اُس زمانے میں اُسے اس خطے میں ہماری ضرورت تھی، بھارت روس نواز تھا اور روس ہی سے امریکہ کو خطرہ تھا کہ وہ جنوبی ایشیاء پر قابض ہو سکتا ہے۔ہمیں تسلیم کر لینا چاہئے کہ ہم ماضی میں امریکی ایجنڈے کا ایک کل پرزہ بن کر استعمال ہوئے۔اس سے ہمیں جتنا نقصان ہوا اس کا اندازہ نہیں لگایا جا سکتا، ہزاروں جانیں گئیں،معیشت تباہ ہوئی،دہشت گردی ہمارے اندر در آئی، قومی یکجہتی میں دراڑیں پڑیں،لاکھوں لوگوں کو دربدری کا سامنا کرنا پڑا۔ بعدازاں ہمیں بے یارو مددگار چھوڑ دیا گیا۔ثابت ہوا کہ سر جھکانے اور آلہ کار بننے سے ممالک کے درمیان دوستیاں بنتی ہیں اور نہ برابری کے تعلقات قائم ہوتے ہیں۔ ایک زمانے میں بھارت امریکہ کی نظرمیں ایک معتوب ملک تھا جس کی ڈوریاں روس ہلاتا تھا،مگر پھر بھارت کی پالیسیوں میں تبدیلی آئی۔اُس نے اپنی خارجہ پالیسی کو ازسر نو استوار کیا۔کسی ایک ملک کا بغل بچہ بننے کی بجائے اپنی آبادی کو ہنر مند بنانے اور معیشت کو مضبوط کرنے پر توجہ دی۔آج وہ اس مقام پر ہے کہ بڑے ممالک اُس کے مقبوضہ کشمیر مظالم پر آواز اٹھانے سے کتراتے ہیں، کہیں وہ ناراض نہ ہو جائے۔دوسری طرف ہم ہیں ہمارے رہنما ڈونلڈٹرمپ کی حلف برداری میں شرکت کے لئے ہاتھ پاؤں مارتے رہے۔ وزیر داخلہ محسن نقوی واشنگٹن میں ہونے کے باوجود بلائے نہیں گئے۔ سیانوں نے بہت پہلے کہہ دیا تھا، ہے جرم ضعیفی کی سزا مرگ مفاجات۔ہمیں تو آئی ایم ایف کے سوالات ہی سے فرصت نہیں ملتی،کہیں اور کیسے دیکھ سکتے ہیں۔

Check Also

Read Urdu Columns Online

Lahore Mein Gharonda Ki Aik Khubsurat Sham

لاہور میں گھروندہ کی ایک خوبصورت شام لاہور میں تقریبات کی بہار آئی ہوئی ہے۔ …

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *