Read Urdu Columns Online

William Shakespeare Angrezi Adab Ka Shahzada

  ولیم شیکسپیئر۔انگریزی ادب کا شہزادہ

برطانیہ کے قومی شاعر ولیم شیکسپیئر کو انگریزی ادب کا شہزادہ کہا جاتا ہے۔محض52 سال کی عمر پانے والے اس بے مثال شاعر،ادیب، ڈرامہ نگار اور قلم کار نے دنیائے ادب کے لئے لازوال تخلیقات چھوڑیں جن کا شہرہ آج بھی نہ صرف انگریزی بلکہ عالمی ادب میں تسلیم شدہ  ہے۔ برطانیہ کے اپنے بہت سے وزٹس کے دوران کئی بار یہ خواہش پیدا ہوئی کے اس کے شہر اسٹراٹفورڈ میں جا کر اس ماحول کی ادبی چاشنی کو محسوس کیا جائے جہاں یہ لازوال شاعر و ادیب سانس لیتا رہا اور رب سخن نے جس فضا میں اس پُرتاثیر زندہ رہنے والے لفظوں کی بارشیں برسائیں اور وہ حروف عطا فرمائے جن کی خوشبو آج بھی تروتازہ محسوس ہوتی ہے وہاں کچھ وقت گزارا جائے۔ بھلا ہو فرمان بھائی کا جو اس دیرینہ خواہش کی تکمیل کا وسیلہ بنے۔میرے برطانیہ کے ہر سفر کے دوران وہ اور ان کا گھرانہ جس طرح اپنائیت اور محبت کا اظہار کرتا ہے اس سے گھر سے دوری کا احساس نہیں ہوتا۔برطانیہ میں لوگوں کے پاس وقت نہیں اور اگر کوئی یہاں رہتے ہوئے آپ کو وقت دے رہا ہے تو سمجھ لیں کہ اس محبت اور اخلاص  کی نشانی ہے۔کیونکہ وقت دراصل زندگی ہے اور وقت دینے والا اصل میں اپنی زندگی کے لمحات آپ کو دے رہا ہوتا ہے، جس کی قیمت صرف محبت سے ہی لوٹائی جا سکتی ہے۔تین ماہ پہلے میرے سفر میں بھی فرمان بھائی نے یہاں جانے کا پلان بنایا تھا، مگر بوجوہ موقع نہ مل سکا۔ انھیں میرے مزاج کا علم ہے اس لئے وہ ہر سفر میں کسی نہ کسی ڈسکوری کا پروگرام پہلے سے بنا رکھتے ہیں۔ شیکسپیئر کی جائے پیدائش پر جانا ایک مسحور کن تجربہ تھا جسے ایک شاعر اور تخلیقی ذہن ہی محسو س کر سکتا ہے۔ اس شہر میں داخل ہوتے ہی  ایسا لگتا ہے کہ جیسے حرف و سخن کی وادی میں اتر آئے ہیں جہاں آپ کا استقبال لوگ نہیں فکر و خیال کر رہے ہیں۔ لفظوں کی ٹولیاں چلتی پھرتی محسوس ہوتی ہیں، ادیبانہ جملے قطار اندر قطار کھڑے دکھائی دیتے ہیں، شاعری کی ہواؤں کے جھونکے آنے لگتے ہیں اور خیالات میں تخلیقی لہریں رواں دواں ہونے لگتی ہیں جس میں ادبی ذوق اور مزاج رکھنے والا ذہن تیرنا شروع کر دیتا ہے اور یہ عمل جتنی گہرائی سے محسوس کیا جائے یہ لہریں اتنی ہی گہرائی میں اپنے ہمراہ لئے چلے جاتی ہیں۔ شیکسپیئر کثیر الجہتی صلاحیتوں کا حامل تخلیق کار ہے، جس کی فنی جہات کا دائرہ شاعری، ڈرامہ، اور کردار نگاری و مزاح نگاری کے مختلف زاوئیوں میں پھیلا ہوا ہے جن میں انسانی جذبات و نفسیات اور سماجی حقیقتوں کی بہترین عکاسی کی گئی ہے۔کنگ لیئر، ہیملٹ، میکبیتھ جیسے ڈرامے انسانی المیوں اور گہرے جذبات کی عکاسی کرتے دکھائی دیتے ہیں جس میں اس کی جملہ سازی  تیز دھاری تلوار کی کاٹ کا کام کرتی ہے، جس میں قاری کو اپنے سحر میں گرفتار کر لیتا ہے۔ “رومیو اینڈ جولیٹ” اس کی لازوال تخلیق ہے جو محبت کے نئے دائرے بنتی دکھائی دیتی ہے، جس میں ایک جگہ محبوب کی تعریف کرتے ہوئے وہ لکھتا ہے کہ ” وہ مشعلوں کو روشن ہونا سکھاتی ہے”۔ اسی طرحDream, Twelfth night, The Merchant of Venice A Midsummer Night’s As you like میں اس کی حس مزاح کی داد دینی پڑتی ہے کہ کس طرح وہ زندگی کی تلخیوں میں ہنسنے کا جوا ز تلاش کر لیتا ہے۔ ولیم شیکسپیئر کے برطانیہ کے بادشاہوں پر لکھے گئے تاریخی ڈرامے رچرڈ سوم، ہنری پنجم، جولیس سیزر بھی اپنی مثال آپ ہیں جن میں وہ علامتی انداز میں ایک بہترین ناصح کے طور پر دکھائی دیتا ہے جہاں ایک جگہ لکھتا ہے کہ ”اے میرے آقا! حسد سے بچو، یہ وہ سبز آنکھوں والا عفریت ہے جو اسی کو کھاتا ہے جس پر پلتا ہے“۔ شاعری کی بات کریں تو  اس کے 154سانیٹ اور متنوع موضوعات پر لکھی گئی طویل نظمیں دنیائے ادب کے شعری سرمائے کا افتخار ہیں۔ شیکسپیئر کے جملے تخلیق کرنے کی خدا داد صلاحیت پر رشک آتا ہے کہ کس طرح وہ ایک عام سی بات کو اپنے تخلیقی ذہن سے ادب عالیہ کا حصہ بنا دیتا ہے۔ چند جملے دیکھئے:۔”ہونا یا نہ ہونا بس یہی سوال ہے“۔”کچھ بھی بذات خود اچھا یا برا نہیں، بلکہ ہمارے خیالات اسے ایسا بناتے ہیں“۔”زندگی ایک چلتی پھرتی پرچھائیں ہے“۔ ”رحم آسمان سے برسنے والی نرم بارش کی طرح ہوتا ہے“۔ ”عقلمند احمق، بے عقل عقلمند سے بہتر ہوتا ہے“۔ ”بزدل اپنی موت سے پہلے کئی بار مرتے ہیں، لیکن بہادر کو صرف ایک بار ہی موت آتی ہے“۔ ”جب تک لوگ سانس لیتے رہیں  گے اور آنکھیں دیکھتی رہیں گی شاعری بھی زندہ رہے گی اور یہ تمہیں بھی زندگی بخشتی رہے گی“۔”محبت ایک بخار کی مانند ہے، جو اسی چیز کی خواہش رکھتی ہے،جو اس بیماری کو مزید بڑھا دیتی ہے“۔”محبت، محبت نہیں رہتی اگر وہ حالات کے بدلنے سے بدل جائے“۔ صدیوں سے اس کی تخلیقات پڑھی اور پڑھائی جا رہی ہیں اور اس کے اثرات کا دائرہ ہر آنے والے وقت کے ساتھ وسیع ہو رہا ہے۔ان کی شاعری آج بھی کلاسیکی ادب کے شاہکار کے طور پر دیکھی جاتی ہے، جو گہری معنویت اور وسعت فکر و خیال  کی آئینہ دار ہے۔وہ فطرت کے حسن کا بہترین مشاہدہ کرنے کی خداداد صلاحیت  سے مالا مال اور اسے لفظوں میں پرونے کا جادوگر ہے۔اس کے حسن بیان میں  وہ سحر ہے، جس سے چھ صدیوں بعد بھی نکلا نہیں جا سکا۔میں نے کالج کے زمانے میں اس کا ایک جملہ سنا تھا جس کی معنوی گہرائی سے آج تک نہیں نکل پایا۔ ولیم شیکسپیئر اگر یہ ایک جملہ بھی لکھتا تو اسے دنیائے ادب میں فراموش نہیں کیا جا سکتا تھا جو اس کے ڈرامے “As you Like it” میں موجود ہے کہ:۔“All the world’s a stage, And all the men and women merely players”(یہ پوری دنیا ایک سٹیج ہے، اور سب مرد و عورت محض اداکار ہیں۔)

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *