شب برأت کی برکتیں اور ہم
شب برأت آئی، گزر گئی،شعبان کی پندرہ ہے، اس بار یہ رات جمعرات اور جمعہ کی درمیانی شب تھی۔ یوں دعاؤں کا جو سلسلہ گزری شب تھا وہ آج بھی جاری رہے گا۔ جمعرات کی شب مسلمانان پاکستان نے رات بھر جاگ کر عبادت میں گزاری، مساجد بھر گئیں۔ ان کو روشنیوں سے بھی سجایا گیا تھا مسلمانوں کی کوشش تھی کہ وہ زیادہ سے زیادہ عبادت کر سکیں اور یوں مساجد کے علاوہ گھروں میں بھی جاء نماز بچھے تھے اور خواتین بھی عبادت کرتی رہیں، شب برأت کی برکات کے حوالے سے علماء کرام نے لکھا اور وعظ بھی کئے۔
مجھے یاد ہے کہ جب ہم طالب علم تھے تو یہ تہوار مبارک کئی حوالوں سے یادگار ہوتا تھا، مساجد میں ذکر الٰہی اور گھروں سے میٹھی سوئیاں کھلائی جاتی تھیں ہمارے شہر کا یہ بھی دستور تھا کہ والدین کھل کر اپنی شادی شدہ صاحبزادیوں کے گھر تحائف لاتے۔ خصوصی طور پر حلوہ اور لچیاں (بڑی پوڑی کہہ لیں) لائی جاتیں اور بیٹیوں کو دعاؤں سے نوازا جاتا، اب میں پرانے شہر سے آکر دور کی بستی میں رہتا ہوں یہاں ویسی (شہریاروالی) روایت نظرنہیں آئی حالانکہ میرے جیسے اور بھی کئی معزز حضرات منتقل ہو چکے ہوئے ہیں، لیکن نمک کی کان والا مسئلہ ہے۔
میں گزشتہ شب اپنے گھر میں موجود اس دور کو یاد کر رہا تھا جب ہم سب دوست محلے دار مل کر جامع مسجد وزیر خان جاتے، وعظ سنتے اور مل کر نوافل بھی پڑھتے تھے اس کے علاوہ دن میں زردہ، پوری حلوہ اور مٹھائیاں تقسیم ہوتی تھیں، شہر میں آج بھی ایسا ہی ہوتا ہے لیکن شادی شدہ بیٹیوں کی اکثریت اب والدین کی راہ تکتی رہ جاتی ہے کہ بتدریج اس رسم میں بہت کمی آ گئی ہے، لیکن عبادت میں توجہ بڑھ گئی ہے۔ جمعرات اور جمعہ کی اس درمیانی شب میں بھی بڑی عبادت ہوئی اور لوگوں نے اپنے گناہوں کی بخشش اور ملکی سلامتی کے لئے اللہ سے مدد مانگی کہ آج دنیا بھر میں مسلمان جن مسائل و مصائب کا شکار ہیں، اللہ ان کو اس مشکل سے نکالے۔ مساجد اور گھروں میں ہونے والی عبادت سے یہ تاثر ملتا ہے کہ اب بھی مسلمانوں کے دلوں میں عظمت رفتہ کی کسک اٹھتی اور وہ اللہ سے مدد طلب کرتے ہیں وہ بڑا رحیم ہے کہ بن مانگے ہی دیتا ہے تو کیوں نہ اس سے فریاد کی جائے لیکن یہاں بات پھر وہی ہے کہ دعا کی قبولیت بھی عمل سے متصف ہے اگر اعمال اچھے ہوں گے اور ہم برے کاموں سے اجتناب کرتے ہوں گے تو اللہ بھی مدد کرتا ہے۔
آج دنیا بھر میں مسلمانوں پر جو دور ابتلا ہے وہ کسی سے ڈھکا چھپا نہیں، غزہ میں ہونے والے مظالم اور روہنگیا والے مسلمانوں کی تکالیف سے ہی دل زخمی ہوچکا کہ تنازعہ کشمیربھی 77سال سے اٹکا ہوا ہے اور بھارتی ہٹ دھرمی یہ نہیں جانتی کہ انسانیت پر ظلم کیاپریشانی لاتے ہیں لیکن اس میں کوئی شبہ نہیں کہ آج دنیابھر میں مسلمان دکھ اور پریشانی میں مبتلا ہیں اور حالت یہ ہے کہ دشمن اکیلا اکیلا کرکے نسل کشی کی طرف جا رہا ہے اور ہم اس سے خائف ہیں، رات کی عبادت ہمیں یہ بھی یاد دلاتی ہے کہ ہم مسلمانوں کو آخرت کازادراہ جمع کرنے کے ساتھ ساتھ دنیاوی امور کی طرف بھی توجہ دینا ہوگی اور گھوڑوں کو تیار رکھنا ہوگا، لیکن آج ہماری حالت یہ ہے کہ ہم دشمن سے خائف اور اس کے نام نہاد انسانیت کے دعوؤں کی داد دیتے ہیں، رات ہمارے شہر کے قبرستانوں میں بھی روشنی تھی اور ہم لوگ اپنے بچھڑ کر چلے جانے والے اعزہ کی یاد میں قبروں پر پھول چڑھا کر فاتحہ خوانی کر رہے تھے۔اللہ سے یہی امید رکھنا چاہیے کہ وہ ہماری سن لے گا اور رحم فرمائے گا، اگر گزری شب نے ہم میں چند ہی حضرات کو اس اعتماد پر پورا اترتے دیکھ لیا کہ توبہ کی اور دنیاوی اعمال کو سیدھا رکھنے کی ٹھان لی۔
بچپن سے اب تک بعض ایسی باتیں اور کہاوتیں سنتا آیا ہوں کہ اب عقل دنگ ہے اور یہ سب اب بھی کہا جاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اس شب پیدائش و اموات کا حساب کرتا اور اس کی ہدائت کی روشنی میں فرشتہ اجل دنیاء سے اٹھا لئے جانے والے افراد کی فہرست تیا رکرلیتا ے۔ یہ سینہ بہ سینہ چلنے والی باتیں اب بھی جاری ہیں حالانکہ ہمارے دینی سکالر لکھ لکھ اور وعظ کرکر کے تھک گئے کہ یہ رات برکتوں والی رات ہے اللہ تعالیٰ کی رحمت جوش میں ہوتی اور مانگنے والوں کی حاجات بھی پوری کی جاتی ہیں۔ اس کے لئے راست زندگی کے لئے توبہ اور خلوص نیت کی شرط ہے یقینا رات میرے سمیت اکثریت نے توبہ کے دروازہ کا رخ کرلیا ہوگا اور دعا بھی دل سے نکلی ہوگی جو صرف اپنے لئے نہیں اپنے ملک کے لئے بھی ہوگی، مجھے یقین ہے کہ اللہ تعالیٰ دل سے نکلی دعا قبول کرتے ہیں، مجھے یہ بھی یقین ہے کہ ہم نے اس مبارک رات میں جھوٹ سے گریز اور برے اعمال سے توبہ بھی کی ہوگی۔ معاشرہ افراد ہی سے ہوتا ہے،لیکن یقین کریں کہ یہ فرد سے فرد کے ملنے ہی سے وجود میں آتا ہے۔ اچھائی کے لئے دوسروں سے توقع رکھنا اور خود کچھ نہ کرنا، اس سے معاشرہ ٹھیک نہیں ہوگا، معاشرہ جب صحیح معنوں میں درست ہوگا،جب فرد توبہ کرے گا اور یوں فرد سے مل کر معاشرہ بنے گا۔
آج دنیا میں دشمن دین، دشمن مسلم ممالک اور دشمن مسلمان بڑے منظم اور سرگرم بھی ہیں، ہم ان کی طرح نہ تو متحدہ اور نہ ہی جدید ٹیکنالوجی سے ہم آہنگ ہوئے ہیں۔
ہمارا عالم یہ ہے کہ ہم اپنے بھائیوں کو کشمیر، روہنگیا اور غزہ میں عیار اور مکار دشمنوں کے ہاتھوں قتل ہوتے دیکھتے چلے جا رہے ہیں۔ قراردادوں اور مذمتوں سے کام چلا رہے ہیں، ہوش میں نہیں آتے، اب تو یہ لازم ہے کہ ہم مسلمان سوچیں اور عمل کے لئے تیارہوں،ورنہ دشمن تو لحاظ پر آمادہ نہیں ہے،وہ متحد ہیں اور یہ ہنود و یہودکے ساتھ ان عیسائی حضرات کا بھی ہے وہ بھول گئے کہ اللہ کے نبی حضرت عیسی کو صلیب پر چڑھانے والے چالاکی سے ان کو ساتھ لئے ہوئے ہیں۔