زمرد حسین بحیثیت معلم سیاستدان ،دوست
میں اس وقت ایف ایس سی کا طالب علم تھا جب ریڈیو پاکستان عروج پا چکا تھا جبکہ پی ٹی وی کوئٹہ سینٹر عروج پانے کو تھا اس وقت میٹرک کے بعد نوجوانوں کو شہر کے سینماؤں ، کتاب مراکز یا ہوٹلوں تک کسی نہ کسی طرح رسائی ہوتی تھی ہم نے بھی باقاعدہ کتابوں کی دکانوں پر روزانہ یا ایک آدھ دن کے بعد چکر لگانے کو عادت بنالی تھی قلات پریس میں کوثر حسین زمرد ، گوشہ ادب میں مقصود بخاری اور کوئٹہ بک اسٹال پر روحیل اور بک لینڈ میں ندیم بخاری کے ساتھ دوستانہ ہوا ۔ ہاشمی برادرز کے پاس بھی جانا ہوتا تھا ۔ ڈاکٹر تاج رئیسانی ہمارے گروپ لیڈر تھے، افضل مراد ،ڈاکٹر منیر رئیسانی ، خادم لہڑی، کفایت رودینی ،ظفر معراج اس سنگتی کا حصہ تھے ۔ باقی ادیب، طالب علم دوست اور نوجوان سیاسی قیادت بھی کسی ہوٹل ، لائبریری یا ان کتابوں کی دکانوں میں ملا کرتے تھے کوئی نہ کوئی موضوع چھیڑ کر اس سے متعلق کتابوں ، رسالوں ، خاص طور پر شعر وادب کو حوالہ بنا کر گفتگو میں چاشنی ، مزید پڑھنے کی خواہش میں اضافہ کی فضا پیدا کی جاتی تھی اس کے علاوہ نامور سیاسی رہنماؤں ، ادیبوں کی بیٹھک تک رسائی کے مواقع تلاش کئے جاتے تھے اس کے لئے قلات پریس وپبلشرز سے بہتر کوئی اور ٹھکانہ ہو ہی نہیں سکتا تھا ۔ وہاں اکثرمیر گل خان نصیر اور سینیٹر زمرد حسین موجود ہوتے تھے باقی ان کے دوست ورفقاءبھی کبھی کبھار آجاتے تھے ان سے سلام دعا کی حد تک بے تکلفی تھی ۔ باقی کتابوں کا سرسری جائزہ لینے یا کوثر حسین زمرد کے ساتھ کسی کونے میں بیٹھ کر یا کھڑے ہوکر انکی گفتگو ، والہانہ دوستی میں بے تکلفی ، قہقہوں کو انجوائے کرتے تھے ۔ سینیٹر زمرد حسین کتابوں کے معاملے میں نہ صرف رہنمائی کرتے تھے ۔ طالب علموں کی مالی حالت سمجھتے ہوئے کتاب نہایت کم قیمت پر دیتے تھے اور بعض موقعوں پر کتاب کے رسیا طالبعلموں کو مفت کتاب دیتے ہوئے بھی ہم نے انہیں دیکھا ۔ انہی دنوں انہوں نے بلوچستانی زبانوں کی ترقی وترویج کے پیش نظر ، مادری زبانوں کے پروگرام کے مطابق بلوچی ، پشتو ، براہوئی،پنجابی زبانوں میں بلوچستان کے قلمکاروں کی کتابیں چھاپیں‘ وہ کبھی بلوچستان سے باہر کے کسی ادیب کو ہمارے ہاں کے ادیبوں پر ترجیح نہیں دیتے تھے ۔ بلوچستان کے پروفیسروں ، ادیبوں اور شاعروں کی کتابیں چھاپتے رہے ملک اور بیرون ملک ان کا تعارف پیش کرتے رہے ۔ تاریخ ، مذہب ، زبان وادب کے موضوعات پر گل خان نصیر ، پروفیسر خلیل صدیقی ، پروفیسر رشید ،پروفیسر رفیق احمد کے علاوہ دیگر ادیبوں اور خصوصی طور پر انہوں نے خواتین ادیبوں کی تخلیقات سامنے لانے کے لئے ان کی حوصلہ افزائی کی ، بعض کتابوں کی بڑے پیمانے پر تقریب رونمائی کا اہتمام بھی کروایا کوئٹہ اور مستونگ میں کتاب وعلم دوستی کے اپنے مراکز کو کاروباری لحاظ سے وسعت دینے کی بجائے علم وکتاب دوستی پر توجہ مرکوز رکھی ۔ اور ساتھ میں نظریاتی سیاست کے پھیلاؤ میں اہم کردار ادا کیا ۔ اگر یہ بات کی جائے درست ہے کہ ان کی قربت کی وجہ سے بعض گم نام ادیب نامور ہوئے۔ پریس کے معاملات میں صحافیوں کے ساتھ تعاون کرتے رہے اور بعض نوجوانوں کو اہل قلم کی فہرستوں میں شامل ہونے کے مواقع نصیب ہوئے ۔ سیاسی طور پر انہیں انتقامی کارروائیوں یا اپنے نظریے وسیاسی وابستگی سے دور رہنے کے لئے بے حد نقصان پہنچایا جاتا رہا۔ انکی دوستیوں اور نظریاتی سیاست میں دراڑ پیدا کرنے کے لئے غلط فہمیاں پیدا کی گئیں ۔ انہیں آپس میں لڑایا گیا ’ انہیں جمہوری سیاست کرنے سے روکا گیا ’ یقینا ہر قسم کے منافع بخش کاروبار کرنے کی لالچ بھی دی جاتی رہی ہو گی‘ لیکن مجال ہے وہ خوف زدہ ہوئے یا لالچ میں آکر فوراً لوٹا بننے پر راضی ہوئے ۔ یہ سب اس علم دوستی کا کمال تھا جس سے تمام رہنما وابستہ تھے نظریاتی سیاست پر انکا پختہ یقین تھا جس کے لئے جان ومال کی قربانیاں دیتے رہے سب سے بڑی بات جیل یاترا کے تسلسل کے باوجود انکے قہقہوں میں کمی نہیں آئی نہ ہی انہوں نے
رد عمل میں پاگل پن کا مظاہرہ کیا اس کے باوجود حکمرانوں کو سمجھاتے رہے ۔ انہیں زیادتیاں ختم کرنے کا کہتے رہے عوام کو دست وگریباں کرنے کی پالیسیوں پر انہیں ٹوکتے رہے نئی نسل اور طالب علموں کو تاریخ ، سیاسیات ، فلسفہ ادب پڑھانے کی ترغیب دیتے رہے جس کی پرچھائیاں کتابوں اور اب تک قائم زمرد گھرانے کی کتاب دوستی سے پُرخلوص رشتہ استوار رکھنے کے جذبات سے لگایا جاسکتا ہے ۔اس خاندان کے موجودہ سربراہ نذر حسین زمرد میں ایسی بے شمار خوبیاں نظر آئیں گی جو مرحوم سینیٹر زمرد حسین میں تھیں ۔ یاروں کا حلقہ پیدا کرنا ،اُسے جوڑے رکھنا ، بے غرض دوستی نبھانا نادر حسین زمرد صحافی ،قبائلی تعلق اور دوستی کو قائم رکھنے میں اکثر سر گرم نظر آتے ہیں کوئی تکبر نہیں ، اپنے عہدوں‘ کاروبار یا سیاسی تعلقات میں عاجزی کے ساتھ وقت گزارنا ، قابل تقلید اعمال ہیں یہ مثالیں اب ناپید ہوتی جارہی ہیں‘ یہ اور بات انہیں گزشتہ چند برسوں میں مختلف انداز میں تنگ کیا جاتا رہا مستونگ میں انکے لئے مسائل پیدا ہوئے‘ کوثر حسین زمرد کو جس کی وجہ سے دل کا عارضہ لاحق ہوا اسکے باوجود انہوں نے کبھی کسی قسم کے رد عمل کا نہ تو مظاہرہ کیا اور نہ ہی اس موقع سے فائدہ اٹھانے کیلئے کسی اور ملک میں سیاسی پناہ حاصل کرنے کا فیصلہ کیا‘ ہر قسم کے دباؤ کے باوجود اپنے حصے کا محبتوں بھرا کام کرتے رہے ہیں‘ پرانی دوستیوں اور تعلق میں زیادہ وقت صرف کرتے ہوئے اپنی سفید پوشی پر قائم ہیں کیونکہ یہ سب اس معلم کا کمال ہے جو انکے بابا کہلاتے ہیں ہر سال ان کی برسی کے موقع پر دوستوں کو اپنے بابا اور بلوچستان کے اس بے غرض سیاسی رہنما کی یاد دلانے کے لئے انکی برسی مناتے ہیں اپنے بچوں کو انکے فکر وفلسفہ سے آگاہ کرتے ہیں ملک بھر میں سیاست اور سیاسی تعلق پر قیمتیں لگ رہی ہیں معمولی سیاستدان ارب ،کھرب پتی بن رہے ہیں‘ جس طرح کتابوں کا کاروبار کرنے والے منافع بخش کاروبار کے لئے یہ کام چھوڑ چکے ہیں ارب پتی بن چکے ہیں ہر طرف مافیاز کا راج ہے اور بے شمار خرابیاں پیدا ہوچکی ہیں اس موقع پر ایک شاندار ماضی کو یاد کرنے کا مقصد اچھی اور بڑی نیتوں واعمال کا موازانہ کرنا ہے اس موازنے کے بعد اچھے اور خیر والوں کی قربانیوں کے مثبت نتائج کی تلاش میں نکلنا ہم سب کی ذمہ داری ہے۔