لاہور میں گھروندہ کی ایک خوبصورت شام
لاہور میں تقریبات کی بہار آئی ہوئی ہے۔ ہر طرف رنگ و روشنی کے مناظر بکھرے نظر آتے ہیں۔ ایسے میں جب شاعرہ دانشور اور مصنفہ بینا گوئندی نے اپنی تنظیم گھروندہ کے زیر اہتمام ایک تقریب میں شرکت کی دعوت دی تو اظہر سلیم مجوکہ اور ڈاکٹر ذوالفقار علی رانا نے کہا یہ موقع ضائع نہیں کرنا چاہیے۔ سو ہم نے رختِ سفر باندھا اورملتان سے لاہور کی طرف روانہ ہو گئے۔چار گھنٹے بعد جب ہم ڈی ایچ اے میں گھروندہ پہنچے تو وہاں ادیبوں شاعروں کی ایک کہکشاں موجود تھی۔ بیناگوئندی اور حامد محمود سب کے لئے دیدۂ دل فرش راہ کئے ہوئے تھے۔ اس تقریب کا اصل مقصد تو امریکہ سے آئے ہوئے شاعر غضنفر ہاشمی کی پذیرائی تھی تاہم سب شرکاء نے جس طرح اپنی زندگی کے گوشے بیان کئے اس سے یہ تقریب واقعی ایک ایسی داستانِ سرائے کا روپ دھار گئی جس میں ہر کوئی اس خوبصورتی سے اپنی کہانی سناتا ہے کہ وہ طلسم ہزار داستان لگتی ہے۔ لاہور واقعی زندہ دلوں کا شہر ہے جس میں زندگی کے رنگ اپنی پوری آب و تاب سے جلوہ ریز ہوتے ہیں۔گھروندہ بیناگوئندی کی ایک ایسی ادبی تنظیم ہے، جو امریکہ اور پاکستان میں اردو اور ادب سے جڑے لوگوں کو ایک جگہ بیٹھ کے وہ چراغ جلانے کا موقع فراہم کرتی ہے جو زندگی کی تیز رفتاری اور ٹیکنالوجی کے مصنوعی پن کی وجہ سے معدوم ہوتے جا رہے ہیں۔ یہ تقریب کئی حوالوں سے بہت منفرد تھی جس میں شامل ہر شخص اپنی ذات میں انجمن تو تھا ہی تاہم ہر ایک نے جس طرح فکر و نظر کو اجالنے کی کوشش کی اس سے لگا ہم ایک ایسی دنیا میں پہنچ گئے ہیں جو آج بھی سچ اور احساس کی دنیا ہے۔ یہ پہلی تقریب تھی جس میں کوئی صاحب صدر تھا اور نہ مہمانِ خصوصی، سب ایک ہی صف میں کھڑے تھے اور اپنا اپنا قرض اور فرض ادا کر رہے تھے۔ غضنفر ہاشمی ایک عرصے تک پاکستان میں صحافت کے شعبے سے وابستہ رہے۔ کالم لکھے اور ٹی وی کے پروگرام کئے۔ پھر وہ امریکہ چلے گئے۔ جہاں انہوں نے صحافت چھوڑی نہ ادب سے علیحدگی اختیار کی بلکہ عالمی سطح پر اردو اور ترویج ادب کے لئے اپنا کردار ادا کرنے کی ٹھان لی۔ آج وہ امریکہ میں اردو اور اردو ادب کے ایک بڑے علمبردار ہیں۔ ان کی تنظیم ورلڈ ڈائیلاگ فورم اپنا کلیدی کردار ادا کررہی ہے۔ وہ ایک خوبصورت اور قادرالکلام شاعر ہیں، ایسے شاعر جنہوں نے غزل کو منفرد لب و لہجہ عطا کیا ہے۔ وہ فیض میلہ میں شرکت کے لئے لاہور آئے تو بیناگوئندی اور حامدمحمود نے ان کے اعزاز میں دوستوں کی ایک محفل سجانے کا فیصلہ کیا۔ یوں گھروندہ کے زیر اہتمام ایک محفل سجی اور رات گئے تک اس میں فکر و نظر کے چراغ جلتے رہے،جبکہ لذت کام و دہن کا اہتمام سونے پر سہاگہ تھا۔
اس تقریب میں جن چیدہ چیدہ شخصیات نے شرکت کی ان میں ڈاکٹر نجیب جمال سب سے سینئر تھے۔ ڈاکٹر نجیب جمال میرے ایم اے اردو کے استاد بھی ہیں۔ آج اردو کے افق پر جن نقادوں کا نام ایک مستند اور غیر جانبدارانہ حوالے سے معتبر ہے، ان میں ڈاکٹر نجیب جمال سرفہرست ہیں۔ اس تقریب میں پہلی بار انہوں نے اپنے بارے میں گفتگو کی۔23سال کی عمر میں شعبہ اردو بہاء الدین ذکریا یونیورسٹی ملتان سے شروع ہونے والا درس و تدریس کا سفر آج 73سال کی عمر میں بھی جاری ہے۔ ان کی شخصیت آج بھی جاذبِ نظر اور پرکشش ہے، اب وہ گزشتہ دس برسوں سے لاہور میں پڑاؤ کئے ہوئے ہیں اور ادب کی دنیا میں اپنا سکہ جمائے ہوئے ہیں۔ اس تقرب میں محمد حفیظ خان بھی موجود تھے جن کی اب تک 54کتابیں شائع ہو چکی ہیں، ان کا تعلق عدلیہ سے ہے، تاہم اردو اور سرائیکی میں ان کی گراں قدر تخلیقات نے انہیں عالمی سطح پر شناخت بخشی ہے۔ گھروندہ کی اس تقریب کی خاص بات یہ تھی کہ اس میں چھ ایسی ادبی شخصیات موجود تھیں جن کا تعلق ملتان سے تھا، یوں لاہور میں ملتان ہر جگہ موجود ہوتا ہے یہ اور بات ہے بقول اسلم کولسری:
شہر میں آکر پڑھنے والے بھول گئے
کس کی ماں نے کتنا زیور بیچا تھا
تاہم اس تقریب میں شریک ملتان سے تعلق رکھنے والے لاہور کے نامور اہلِ قلم نے اس بات پر فخر کا اظہار کیا کہ ان کے ادبی و شناخت کے سفر میں ملتان کا کردار ناقابل فراموش ہے۔ اس خوبصورت تقریب میں پنجابی کی معروف شاعرہ ثروت محی الدین نے اپنی زندگی کی دلچسپ داستان سناکر شرکاء کو بہت متاثر کیا۔انہوں نے بتایا سولہ برس کی عمر میں ان کی شادی ہوگئی۔ تین بچے ہو گئے تو انہیں اچانک یہ احساس ہوا وہ تعلیم کے معاملے میں پسماندہ رہ گئی ہیں۔ اس کا اپنی والدہ سے ذکر کیا تو انہوں نے کہا ابھی کیا بگڑا ہے، تم پڑھو اور آگے بڑھو، اس کے بعد انہوں نے پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا، معروف گلوکار اور شاعر عدیل برکی کی شخصیت کا اس تقریب میں ایک نیا رنگ نمایاں ہوا۔ ان کی گفتگو سے لگا ان کے اندر ایک صوفی جنم لے چکا ہے، جو زندگی کی چکاچوند کی بجائے انسانی اقدار اور محبت کے سب سے انمول جذبہ ہونے پر یقین رکھتا ہے انہوں نے پنجابی کلام سنا کر ایک سماں باندھ دیا۔
غضنفر ہاشمی سے ان کی غزلیں سننے پر تمام شرکاء نے اصرار کیا تاہم انہوں نے صرف ایک غزل سنائی اور میلہ لوٹ لیا۔اظہرسلیم مجوکہ نے اس موقع پر کہا غضنفر ہاشمی ملتان آ رہے ہیں وہاں یہ جم کر اپنا کلام سنائیں گے۔ اس تقریب کی ایک خاص بات ڈاکٹر ذوالفقار علی رانا کے سفرنامے ”یورپ تیرے روپ ہزار“ کی غیر رسمی تقریب رونمائی بھی تھی۔ ”یورپ تیرے روپ ہزار“ ڈاکٹر ذوالفقار علی رانا کا پہلا سفرنامہ ہے جس نے ادبی حلقوں میں بھرپور پذیرائی حاصل کی ہے۔ یورپ کا یہ سفرنامہ منفرد انداز میں لکھا گیاہے جس میں یورپ کی زندگی کے روشن و تاریک پہلوؤں کی بھرپور عکاسی ملتی ہے۔ تقریب میں لاہور کی مقبول ادبی شخصیت توقیر شریفی کے چٹکلے اور برموقع جملے محفل کو زعفران زار بناتے رہے۔ شاید رضا کی برموقع داد بھی ایک خاص بات تھی جس نے تقریب کو کسی لمحے بھی بوسیدہ نہیں ہونے دیا۔ معروف صحافی اور ٹی وی پروڈیوسر شہزاد علی ذوالقرنین ایک اچھے سامع کی حیثیت سے موجود رہے۔ گھروندہ کی یہ شام لاہور کے اس ادبی تشخص کا ایک تسلسل تھی جو اسے دنیا میں ممتاز کرتا ہے۔