ایک اور رنگیلا شاہ
محمد شاہ رنگیلا سلطنت مغلیہ کا 14واں بادشاہ، انتہائی عیاش طبع اور غیر متزلزل شخصیت کا حامل تھا۔ نت نئے قوانین بنا کر خود توڑنے کا بھی عادی تھا۔ طبیعت اس قدر متلون مزاج تھی کہ دن میں پانچ پانچ وزیر تعینات کرتا، سینکڑوں لوگوں کو انعام و اکرام، خلعتوں سے نوازتا لیکن دوسرے ہی زور سب کچھ واپس لے کر انہیں جیلوں میں ڈال دیا جاتا۔کبھی جیلوں سے مجرموں کو رہا کروا کر ان کی جگہ معصوم لوگوں کو قید کروا دیتا۔ اس کی پارہ صفت سے درباری بھی محفوظ نہ تھے۔ کبھی انہیں گھونگرو پہننا پڑتے تو کبھی انہیں زنانہ لباس میں دربار آنے کا حکم ملتا۔ بسا اوقات شراب کے نشے میں دھت برہنہ دربار آ جاتا تو درباریوں کو بھی برہنہ ہونے کا حکم دیتا۔ عوام اور درباری بجائے کہ اس رویے پر احتجاج کرتے وہ بزدل اس کی بےجا خواہشات کے آگے سرنگوں ہوتے رہے جس سے محمد شاہ رنگیلا کی عجیب و غریب حرکات میں روز بروز تنوع آتا رہا۔ اس کے 27 سالہ دورِ تباہی میں عوام گھڑیال کے لٹکن کی طرح ایک جانب سے دوسری جانب جھولتے رہے۔ کبھی قاضی شہر کو شراب سے وضو کرنے کا حکم صادر ہوتا تو کبھی مملکت کی تمام خوبصورت خواتین اپنی امانت قرار دے کر، امانت میں خیانت کرنے والوں کے قتل کا حکم صادر کرتا۔ کبھی اپنے پسندیدہ گھوڑے کو وزیر کا درجہ دے کر وزراء کے ساتھ بٹھایا جاتا تو کبھی بازاری عورتوں کے جھرمٹ میں بیٹھ کر امورِ سلطنت چلاتا۔درحقیقت وہ مغلیہ سلطنت کے زوال کی سب سی بڑی وجہ بنا۔
صدر ٹرمپ کے غزہ کے باسیوں کے لیے ناقابلِ عمل اور غیر حقیقی بیان پر دنیا بھر سے شدید رد عمل آیا ہے۔ یورپی ممالک نے بھی اس کی مذمت کی حالانکہ وہ حماس کے حق میں نہیں لیکن زبردستی فلسطینیوں کو نکالنے کے بھی سخت مخالف ہیں۔ ادھر امریکہ میں حزبِ مخالف کی جانب سے صدر ٹرمپ کے ایسے متعدد غیر معقولانہ اقدامات پر حلف اٹھانے کے دو ہفتے میں ہی مواخذے کی تیاری شروع ہوچکی ہے۔ صدر ٹرمپ جس طرح صبح ایک فیصلہ کرتے اور رات تک اس پر عمل درآمد رکوا دیتے ہیں وہ دنیا کی واحد سپر پاور کے شایان شان نہیں۔ ٹرمپ کی قیادت میں امریکہ جو پہلے ہی صدر بائیڈن کی بے عملی کے باعث اپنا عالمی دبدبہ، رعب و حیثیت کھوتا جا رہا تھا اب تیزی سے تنزلی کا شکار ہوتا نظر آرہا ہے۔ یورپ پر اس کا اثر و رسوخ اتنا گھٹ گیا ہے کہ ایک طرف وہ یوکرائن میں جنگ بند کروانے کا اعادہ کر رہا ہے جبکہ دوسری طرف فرانس یوکرائن کو مالی امداد کے تسلسل کی یقین دہانی کروانے کے علاوہ اپنے لڑاکا طیارے میراج بھی دے رہا ہے۔ ادھر عالمی فوجداری عدالت کی جانب سے “شیطن یاہو” کے وارنٹ گرفتاری جاری کرنے پر صدر ٹرمپ پابندیاں لگا کر یورپی آئینی ادارے کو سزا دینا چاہتے ہیں جس کے 125 رکن ممالک میں سے 79 نے شدید مذمت کی ہے۔ میکسو اور کینیڈا پر امریکہ کا 25 فیصد ٹیرف عائد کرنے پر ترکی بہ ترکی امریکی اشیاء درآمد کرنے پر جب ٹیکس لگا تو موصوف نے ایک ماہ تک اپنے حکم پر عمل درآمد روک دیا۔ جواز دیا کہ دونوں ممالک اپنی سرحدوں پر سمگلنگ روکنے کے لیے 10 ہزار بارڈر سیکیورٹی فورس تعینات کریں گے یعنی 25 فیصد ٹیرف لگائے بغیر ہی معاملہ بات چیت سے حل ہو سکتا تھا۔ بعینی چین سے درآمدات پر 10 فیصد ٹیرف لگا کر ٹرمپ نے ٹیرف جنگ کا آغاز کیا، جواباً چین نے امریکی درآمدات پر 15 فیصد ٹیرف عائد کر دیا۔ یوں ٹرمپ نے ایسی ٹیرف جنگ چھیڑی ہے جس کا انجام امریکی عوام کے لئے مہنگائی اور ڈبلیو ٹی او کے اختتام پر ہوگا۔ پاناما کینال پر ٹرمپ نے کہا کہ وہاں سے امریکی بحری جہاز بِنا چونگی ادا کئے گزریں گے،جواب آیا کہ ایسا کرنے کی ہرگز اجازت نہیں دی جائے گی۔ گرین لینڈ پر قبضے کے منصوبے پر بھی انہیں ڈنمارک اور یورپی ممالک سے شدید مخالفت کا سامنا ہے۔ غزہ کے فلسطینیوں کو مصر یا اُردن منتقل کرنا بھی خام خیال لگ رہا ہے کیونکہ بطور حفظ ِماتقدم مصر نے صحرائے سینا میں زور و شور سے عسکری مشقیں شروع کر دی ہیں،اُردن بھی مبینہ طور پر اسرائیل کے خلاف جنگ لڑنے کو تیار ہے۔ادھر سعودی عرب نے صدر ٹرمپ کے اس فارمولے پر شدید تنقید کرتے ہوئے کہا کہ فلسطینی ریاست پر ہمارا مؤقف واضح و غیر متزلزل ہے اور ہم مشرقی یروشلم کے فلسطینی ریاست کا دارالخلافہ بننے تک کوششیں جاری رکھیں گے،تاہم فلسطینی ریاست کے قیام تک اسرائیل سے تعلقات قائم نہیں ہو سکتے۔ قطر جو ایسے معاملات میں ثالثی کر رہا ہے بھی غیر یقینی صورتحال سے دوچار ہے ۔ ادھر امریکی میڈیا سے بات کرتے ہوئے “شیطن یاہو” نے مسکراتے ہوئے دعوی کیا کہ سعودی عرب سے سفارتی تعلقات پر جلد ایسی خبر آئے گی کہ دنیا ششدر رہ جائے گی۔ ہندوستان سے اپنے دیرینہ تعلقات کے باوجود متلون مزاج صدر ٹرمپ نے ہندوستانی غیر قانونی تارکینِ وطن کو ہتھکڑیاں اور بیڑیاں لگوا کر، منہ پر کپڑا چڑھوا کر ہندوستان ڈیپورٹ کروایا جس سے دنیا بھر میں ہندوستان کی بہت سبکی ہوئی۔ ٹرمپ اور “شیطن یاہو” کے کاروباری مفادات مشترک ہیں اس لئے ٹرمپ ” شیطن یاہو” کے حق میں حوصلہ افزا و خوش آئیند بیانات دے رہے ہیں تاکہ شیطن یاہو کی پوزیشن حزبِ مخالف کے سامنے حماس و حزب اللہ سے بدترین شکست کے باوجود قائم رہے۔ کچھ عرصے سے “شیطن یاہو” اور صیہونیوں نے ٹرمپ کو گھیرنے کے لئے ایک نئی چال چلی ہے جو کامیاب نظر آتی ہے۔صیہونیوں کے مذہبی عقائد کے مطابق ایک ایسا مددگار آئے گا جس کے انقلابی اقدامات سے اسرائیلی مسجد اقصیٰ کے “قبتہ الصخرہ” کو منہدم کر کے حضرت سلیمانؑ کا مندر تیسری بار تعمیر کریں گے جس میں ان کا مسیحا بیٹھے گا اور ان کا سنہرا دور شروع ہوگا۔ “شیطن یاہو” اور صیہونی ربیوں نے ٹرمپ کو یقین دلا دیا ہے کہ وہی وہ خدائی مددگار ہے جو مسیحا کی آمد کا باعث ہوگا۔ اسی لیے ٹرمپ کے چہرے پر اسرائیل کے ذکر اور جملوں میں مذہبی الفاظ کا تڑکہ بھی نظر آتا ہے۔ ان کے انداز و بیاں سے واضح ہے کہ وہ مکمل طور پر اس صیہونی جال میں پھنس چکے ہیں۔
ٹرمپ کے ان نامعقولانہ اقدامات سے دنیا کا نظام درہم برہم ہو رہا ہے۔ دنیا کی تاحال واحد سپر پاور ایک اور رنگیلا شاہ کے ہاتھوں اپنی بربادی کے سفر کا آغاز کر چکی ہے۔ مغرب کا عروج بلآخر ختم ہوا چاہتا ہے جبکہ سورج مشرق سے ابھرنا شروع ہو چکا ہے۔ دنیا جتنا جلد اس بلکل نئے اور مختلف عالمی نظام کا ادراک کرکے ،خود کو اس سے ہم آہنگ کر لے بہتر ہوگا وگرنہ امریکہ کی تنزلی کے اس سفر میں بہت سے ممالک لپیٹ میں آ جائیں گے اور تباہی وبربادی ان کا مقدر ٹہرے گی۔
؎ کھول آنکھ، زمیں دیکھ، فلک دیکھ، فضا دیکھ
مشرق سے اُبھرتے ہوئے سُورج کو ذرا دیکھ
whatsapp: 0313-8546140