عجب بازار سیاست۔۔۔۔۔۔۔؟
اسے آپ کوئی نام دے لیجئے‘وہ جب پیدا ہوا تو اس کے والدین نے پیار محبت کے علاوہ اس کی نو عمری میں ہی اس سے صلاح مشورے شروع کردیئے‘ اسکا ہر مشورہ تو نہ مانا جاتا مگر والدین اسے سمجھا دیتے کہ اس کے مشورے کی بجائے اگر دوسرے کسی اور آپشن پر عمل کیا جائیگا؛ اسکے فلاں فلاں فوائد ہونگے‘ اس انداز میں اس بچے کی پرورش نے اس کے اندر خود اعتمادی پیدا کرنی شروع کردی۔ جب وہ بڑا ہو کر عملی زندگی میں داخل ہوا تو وہ ایک خود اعتماد نوجوان تھا۔سڑک پر ٹریفک سگنل بند ہونے پر زیبرا کراسنگ کرتے ہوئے ایک مرتبہ جب کروڑوں روپے مالیت کی گاڑی نے ٹریفک سگنل توڑنے کی کوشش کی تو پولیس نے نہ صرف اس گاڑی کے مالک ڈرائیور کا چالان کیا بلکہ اس کا کیس عدالت میں بھی گیا اور اس کو ٹریفک قانون کی خلاف ورزی کرنے کی پاداش میں ڈرائیونگ لائسنس کینسل کرنے کی وارننگ دی گئی۔ایک مرتبہ اس کے گھر رات کے آخری پہر چور داخل ہوئے‘اس نے پولیس کو اطلاع کی اور کم و بیش پانچ پولیس کی گاڑیاں چند لمحوں میں اس کے گھر کے باہر پہنچ گئیں۔ اسی طرح ایک مرتبہ وہ دفتر میں کام کررہا تھا‘ دفتر کے ساتھیوں نے گفتگو شروع کردی کہ حکومت کی ایک ایسی پالیسی سامنے آئی ہے جس سے کرپشن کا شائبہ ہوتا ہے لہذا عوام میں تشویش کی لہر بڑھ رہی ہے، وہ آئندہ اس ضمن میں ہونے والے احتجاج میں حصہ لیں گے۔ اس نے بھی چند روز بعد اس احتجا ج میں حصہ لیا‘یہ احتجاج پورے ملک میں پر امن انداز میں شروع ہوگیا۔ پولیس اور قانون نافذ کرنے والے ادارے مظاہرین کے پاس رہتے مگر کسی کو قانون کو ہاتھ میں نہ لینے کی وجہ سے تشدد کا نشانہ نہ بنایا جاتا‘ تاہم عوامی احتجاج پر ملک کے وزیر اعظم کو اپنے سینئر وزیروں اور مشیروں کیساتھ مستعفی ہو کر قانون کے کٹہرے میں کھڑا ہونا پڑا۔ یہ نوجوان اپنے بچپن سے گھریلوں تربیت کی صورت میں خود اعتمادی حاصل کرچکا تھا اور معاشرے میں انصاف و قانون کے منصفانہ نظام نے اسکی خود اعتمادی میں مزید اضافہ کردیا تھا۔ یہ واقعہ بعض ترقی یافتہ ممالک کو مد نظر رکھ کر یا پاکستان جیسے ترقی پذیر ممالک کو ذہن نشین رکھتے ہوئے پرکھا اور چانچا جاسکتا ہے‘یہ بات اکثر کہی جاتی ہے کہ بیشتر ترقی یافتہ غیر اسلامی ممالک میں اخلاقیات‘قانون اور انصاف کیلئے “دی عمر لاء ” یا اسلامی قوانین پر عمل کیا جاتا ہے ۔ بد قسمتی سے پاکستان جو اسلام کے نام پر حاصل کیا گیا یہاں پر اسلامی اخلاقیات اور قوانین کا فقدان ہے حالانکہ قائد اعظم محمد علی جناح نے بھی اسلامی اخلاقیات اور میثاق مدینہ کی بار بار بات کی تھی بہرحال ان دنوں وطن عزیز جس قسم کے سیاسی نا مساعد حالات سے دو چار ہے جس کے نتیجہ میں ہماری سماجی اور اخلاقی اقدار کی بھی رہی سہی کسریں نکل چکی ہیں۔دنیا کے جدید تقاضوں کو مد نظر رکھتے ہوئے پولیٹیکل سائیکالوجی کو ریاستی‘حکومتی‘جماعتی اور معاشرتی سطح پر نا صرف اس سے آشنائی حاصل کرنی ہوگی بلکہ اس کے تقاضوں کو مد نظر رکھتے ہوئے ان سانچوں میں خود کو ڈھالنا بھی ہوگا۔ پولیٹیکل سائیکالوجی کے تحت بچے میں خود اعتمادی اور اس کے ٹھوس نظریات کو پروان چڑھائے بغیر معاشرہ اجتماعی طور پر ترقی نہیں کرسکتا کیونکہ گھریلوں ماحول یا جس علاقے میں ہم میں سے کوئی بھی رہائش پذیر ہو؛ اس کا فرد اور افراد کی نفسیاتی تربیت پر گہرا اثر مرتب ہوتا ہے یہی وجہ ہے کہ ایسے معاشروں میں نفرت کی سیاست کو اجاگر کرنے والے اور اپنی کارکردگی کے لئے چند سڑکیں اور پل بنا کر ڈھول پیٹنے والوں کے پیچھے نہ سمجھ عوام کی ایک لمبی قطار لگ جاتی ہے۔جس کے نتیجہ میں معاشرہ زوال پذیر ہوتا چلا جاتا ہے۔ کوئی سیاسی رہنما یا سیاسی جماعت عوام کی حقیقی معنوں میں تربیت کرنے کی ٹھان لیتی ہے تو اس کے ساتھ کیا سلوک کیا جاتا ہے‘یہ سارے معاملات اب کسی سے ڈھکے چھپے نہیں۔ پولیٹیکل سائیکالوجی کے تین بنیادی اصول: حفاظت‘وقار اور فرد کی قبولیت کو پوری دنیا کے پولیٹیکل سائنٹسٹ اور ماہرین نظر انداز نہیں کر پاتے حتی کہ سوشیالوجی کے ماہرین بھی ان نکات پر متفق ہیں۔وہ تمام سیاسی اور ریاستی حکومتی نظام ہائے کو زیر بحث لا کر اس حقیقت کا تو ضرور اعتراف کرتے ہیں کہ پولیٹیکل سائیکالوجی کے ان تین بنیادی نکات کے باوجود ہر نظام چاہے وہ کیمونسٹ‘پارلیمانی جمہوریت‘ لیبرل ڈیموکریسی‘صدارتی نظام یا آمرانہ حکمرانی ہو؛ سو فیصد عوامی امنگوں پر پورا نہیں اترتا اور نہ ہی سو فیصد مسائل کا حل ہوتا ہے۔ اس کی مثال یوں لیجئے کہ امریکہ کی جمہوری تاریخ بہت قدیم ہے لیکن اس کے باوجود نو منتخب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ وہاں کی اسٹیبلشمنٹ پرایسے ایسے الزامات عائدکیے ہیں جنہیں جمہوری تقاضوں کے منافی ہی قرار دیا جاسکتا ہے۔ پولیٹیکل سائیکالوجی ایک طویل تحقیق طلب شعبہ اور قابل مطالعہ ہے‘اس پر درجنوں کے حساب سے کتابیں شائع ہوچکی ہے‘تاہم ایک صورت معاشروں میں مسلسل نا انصافیوں‘محرومی‘لاقانونیت اور جس کی لاٹھی اس کی بھینس کی صورت میں سامنے آتی ہے ۔ جس کا ردعمل حالیہ دنوں میں سری لنکا‘بنگلہ دیش وغیرہ میں دیکھا گیا۔پولیٹیکل سائیکالوجی کے تین اصولوں کی ابتدا گھر‘مملکت اور ریاستی عمل کی صورت میں بالترتیب بٹے ہوئے ہیں لیکن ان کی ڈوریاں آپس میں جڑی ہوئی ہیں۔ معاشروں میں اس تناظر کیلئے معاشرتی سطح پر سماجی تجزیے کے اصول پر عمل پیرا ہوتے ہوئے کم از کم یونین کونسل کی سطح پر ماہرین نفسیات یا ماہرین سماجیات کی خدمات حاصل کی جاسکتی ہیں۔ہمارے عظیم ملک پاکستان کے حالات سب کے سامنے ہیں یہاں خود وزیر اعظم نے نیشنل ایجوکیشن ایمرجنسی نافذ کرتے ہوئے مئی 2024ء میں 26 ملین بچوں کے سکول نہ جانے کا اعتراف کیا تھا لیکن آج تقریبا ایک سال بیتنے کے باوجود کوئی عملی اقدام سامنے نہیں‘عزت اور خود مختاری کا افسوس صد افسوس یہ عالم ہے کہ سیاسی مخالفین آج بھی دشمنوں کی طرح طاقت کے زیر آتے ہیں۔دنیا اور حقائق سے بے خبر عجب بازار سیاست یہاں لگا ہے۔