Read Urdu Columns Online

America Ka Asali Saddar Kon Trump Or Elon Musk By Asif Mehmood

امریکہ کا اصلی صدر کون؟ ٹرمپ یا ایلون مسک؟

امریکہ میں حکومت کس کی ہے؟ ڈونلڈ ٹرمپ کی یا ایلون مسک کی؟ نیز یہ کہ امریکہ میں جمہوریت ہے یا ایک سفاک اور بے رحم سرمایہ دارانہ ڈیپ سٹیٹ کا راج ہے جو وہاں کی پہلے سے موجود روایتی ڈیپ سٹیٹ سے بھی طاقت ور ہو چکی ہے؟ امریکی اور برطانوی جمہوریت کو دنیا کی آخری سچائی سمجھ کر ان کے فضائل بیان کرنے والوں کے پاس وقت ہو تو ان سوالات پر غور کر لینا چاہیے۔ جمہوریت کی عمومی تعریف یہ کہ جاتی ہے کہ یہ عوام کے ذریعے ، عوام کی خاطر ، عوام کی حکومت ہوتی ہے۔ امریکہ نظام حکومت مگر چیخ چیخ کر کہہ رہا ہے کہ یہ ایلون مسک کے ذریعے قائم ہونے والی حکومت ہے۔ سوال اب یہ ہے کہ کیا یہ صرف ایلون مسک کے ذریعے قائم ہونے والی حکومت ہے یا یہ ایلون مسک ہی کی حکومت ہے ؟ ٹرمپ کی انتخابی مہم میں ایلن مسک نے 290 ملین ڈالر خرچ کیے۔ یعنی ایک چوتھائی ارب ڈالر۔تو کیا الیکشن میں اتنی بھاری رقم ایلون مسک نے محض اللہ کی رضا کے لیے خرچ کی تھی؟ یہ ان 290 ملین ڈالرز کا ہی کمال ہے کہ ایلون مسک کا صاحبزادہ امریکی صدر کے دفتر میں کھڑے ہو کر ناک سے ’ جی جے‘ نکال رہا ہوتا ہے اور سپر پاور کا سربراہ اس کو ذہین اور خوب صورت بچہ قرار دینے پر مجبور ہوتا ہے۔ یہ ذہین اور خوب صورت بچہ باپ کے کندھوں پر چڑھ کر وائٹ ہائوس اس بے ادائی سے جاتا ہے جیسے ہمارے ہاں کوئی بگڑا صاحب زادہ لکی ایرانی سرکس دیکھنے جائے۔ شیر کا بچہ امریکی صدر کی طرف یوں دیکھتا ہے جیسے کہہ رہا ہو، چاچو ! تو ایسے ہی خوش ہو رہا ہے ، حکومت تو میرے باپ کی ہے۔ کاروباری آدمی کسی کی انتخابی مہم میں 290 ملین ڈالر کیوں لگائے گا؟ جب کہ اسے امریکہ میں کاروبار کرنے کے لیے کسی کی ناجائز سرپرستی کی کوئی حاجت بھی نہ ہو جیسے ہمارے ہاں ہوتی ہے۔اگر چہ موصوف ماضی میں یہ کہہ چکے ہیں کہ انہیں سیاست میں کوئی دلچسپی نہیں ، لیکن حقیقت یہ ہے کہ صاحب کو نہ صرف سیاست میں دل چسپی ہے بلکہ وہ بین الاقوامی سیاست میں بھی خود کو گھسیڑ رہے ہیں ۔مثال کے طور پر وہ برطانوی معاملات میں گھسے ہوئے ہیں۔ وہ برطانوی بادشاہ چارلس سے مطالبہ کر چکے ہیں کہ وہ حکومت کو ختم کرتے ہوئے اپنی پارلیمان کو گھر بھیج دے اور برطانوی وزیر اعظم کو جیل میں ڈال دے۔مثال کے طور پر وہ جرمنی کے انکل بننے کی کوششوں میں بھی مصروف ہیں۔ وہ جرمنی کے چانسلر اولف شولز کو بے وقوف قرار دے چکے ہیں۔ وہ جرمنی کے صر فرینک والٹر شٹائن مائر کو جمہوریت دشمن اور غاصب قرار دے چکے ہیں۔ وہ جرمنی کی رہنمائی کرتے ہوئے یہ بھی بتاتے پائے جاتے ہیں کہ ان کے ممدوح ہی اب جرمنی کو بچا سکتے ہیں ۔انہیں اپنی ابلاغی قوت کا بھی احساس ہے۔ وہ دعوی کرتے ہیں کہ مین سٹریم میڈیا اب ختم ہو چکا ، مستقبل سوشل میڈیا کا ہے ۔ یعنی وہ زبان حال سے بتاتے ہیں کہ دنیا میں ابلاغ کے نام پر فتنہ گری کی غیر معمولی قوت ان کے ہاتھ میں ہے اور وہ فیصلہ کیا کریں گے کہ کہاں کس کی حکومت ہونی چاہیے ۔ یورپی یونین کے معاملات میں بھی موصوف گھسے ہوئے ہیں، گرین لینڈ کے ایشو پر بھی داد شجاعت دے رہے ہیں۔ مسلمانوں کے خلاف ایک ابلاغی جارحیت بھی ان سے منسوب ہے۔مغربی معاشروں میں موجود مسلمان اہل فکر کا خیال ہے کہ ایلون مسک اپنی ابلاغی قوت کو اسلامو فوبیا میں استعمال کر رہے ہیں۔ امریکہ کا اعلان آزادی قصہ ماضی ہوا۔ اب ایلون مسک کا سفاک سرمایہ دارانہ نظام ہے جو امریکہ کو چلا رہا ہے۔بظاہر یہ ایک شاندار جمہوریت ہے لیکن ٹرمپ کی ٹیم دیکھیں تو ان میں جمہوری کلچر کہیں نظر نہیں آتا۔ سرمائے کے زور پر معتبر بن جانیوالے البتہ بہت ہیں۔ خود امریکی میڈیا میں ان پسندیدہ 13 شخصیات کے سہرے کہے جا رہے ہیں جو صرف اپنی دولت کے بل بوتے پر ٹرمپ حکومت کے ستون بنے بیٹھے ہیں۔ ٹرمپ حکومت میں شامل ان 13 لوگوں کی دولت کا حجم 172 ممالک کی جی ڈی پی سے زیادہ ہے۔ یہ بھی یاد رہے ہے کہ گذشتہ چار سال میں امریکہ کے 12 امیر ترین لوگوں کی دولت میں 193 فی صد اضافہ ہوا ہے ۔ یہ لوگ اب بیٹھ کر امریکہ کے ملازمین کو ملازمتوں سے نکال کر گھر بھیج رہے ہیں تا کہ حکومتی اخراجات کو کم کیا جا سکے۔ امریکہ تو پھر اس واردات کو برداشت کر جائے گا کہ اس کے نظام میں ابھی چیک اینڈ بیلنس کے کچھ دم توڑتے جراثیم موجود ہوں گے لیکن یہ سفاک سرمایہ دارانہ حکومت دنیا کے دیگر ممالک کے ساتھ کیا کرے گی؟ اس کا تصور ہی ہولناک ہے۔اس کے ابتدائی آثار ابھی سے نمایاں ہو چکے۔ فلاں ملک خود کو امریکہ میں ضم کر لے، فلاں ملک کو ہمارے بحری جہاز کوئی کرایہ نہیں دیا کریں گے۔ فلاں ملک پر ہم ٹیکس لگا رہے ہیں خبردار جو اس نے بھی جواب میں ایسا ٹیکس ہم پر لگایا ، غزہ تو اب میری ملکیت ہو گا ، میں غزہ کے لوگوںکو وہاں سے نکال دوں گا۔ مصرا ور اردن کو حکم دیتا ہوں وہ فلسطینیوں کو اپنے پاس آباد کریں ، فلاں جزیرہ بھی ہمارا ہے۔ ہمارا حکم نہ ماننے والے یاد رکھیں ہم دنیا کو ایک سو مرتبہ تباہ کرنے کی ایٹمی صلاحیت رکھتے ہیں۔ انٹر نیشنل لاء ، اخلاقیات اور اقدار کے باب میں امریکہ کا ہاتھ شروع سے ہی تنگ رہا ہے ۔ لیکن اب وہاں جو لوگ برسر اقتدار بیٹھے ہیں ، وہ بے شرمی کی حد تک ان تمام تکلفات سے یکسر بے نیاز ہیں۔امریکہ میں اس وقت ڈیموکریسی نہیں ہے ، یہاں پلوٹوکریسی ہے ۔ پلُو ٹو کریسی اس نظام کو کہتے ہیں جس کی زمام کار سرمایہ دار کے ہاتھ میں ہو۔ سرمایہ دار بھی وہ جو اپنی افتاد طبع میں مکمل فاشسٹ ہو۔ دنیا ایک نئے بحران سے دوچار ہونے و الی ہے۔سفید فام سرمایہ دارانہ فاشزم۔ اس دنیا نے بڑی بڑی مصیبتیں جھیلی ہیں ، چنگیز خان جیسی آفتیں بھی آئیں اور کئی دیگرسامراج بھی مسلط رہے لیکن جتنا خوفناک یہ سفید فام سامراج ثابت ہوا ہے تاریخ انسانی میں ایسی کوئی دوسری مثال موجود نہیں ہے۔دنیا بھر میں ، تمام تہذیبوں کے فاشسٹوں نے انسانیت کو جتنے گھائو دیے ، اس سفید فام تہذیبی فاشزم نے اس سب سے زیادہ انسانیت کو گھائل کیا ہے۔ جس جمہوریت میں ایک ایک فرد ایک چوتھائی ارب ڈالر انتخابی مہم میں جھونک دیتا ہو ، جمہوریت کے اس تصور پر بھی کیا نظر ثانی کی ضرورت نہیںہے۔امریکی اور برطانوی جمہوریت کو دنیا کی آخری سچائی سمجھ کر ان کے فضائل بیان کرنے والوں کے پاس وقت ہو تو انہیں اس پہلو غور کر لینا چاہیے۔ 

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *