Read Urdu Columns Online

American President Trump Lagataar

امریکی صدر ٹرمپ لگا تار عالمی امن پر حملہ آور

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور اسرائیلی سربراہ مملکت اسحاق ہرزوگ کے درمیان ملاقات کے بعد ایک نیا تنازعہ سامنے آیا ہے۔ اگرچہ اس تنازعہ کی تفصیلات واضح نہیں ہیں، لیکن اس کا تعلق ممکنہ طور پر اسرائیل کے بارے میں ٹرمپ کے موقف سے ہے، جو ان کی صدارت کے دوران بحث کا موضوع رہا ہے۔اپنی پہلی مدت کے دوران، ٹرمپ کو امریکی تاریخ کے سب سے زیادہ اسرائیل نواز صدور میں سے ایک سمجھا جاتا تھا۔ اس نے کئی ایسے فیصلے کیے جو اسرائیل کے لیے سازگار تھے، جن میں یروشلم کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کرنا اور امریکی سفارت خانے کو وہاں منتقل کرنا شامل ہے۔
ابھی حال ہی میں، ٹرمپ نے غزہ پر “قبضہ” کرنے اور اسے “مشرق وسطیٰ کا رویرا” بنانے کا منصوبہ پیش کیا۔ اس منصوبے میں غزہ کے 20 لاکھ باشندوں کو زبردستی پڑوسی ممالک میں بھیجنا اور اس مقصد کے حصول کے لیے امریکی فوج کو استعمال کرنا شامل تھا۔ اس منصوبے کو مختلف حلقوں کی جانب سے تنقید کا سامنا کرنا پڑا، بشمول اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیو گوٹیرس، جنہوں نے اسے “نسلی صفائی” کا نام دیا۔یہ ممکن ہے کہ ٹرمپ اور ہرزوگ کے درمیان ملاقات سے متعلق تنازعہ اس منصوبے یا ٹرمپ کی اسرائیل پالیسی کے دیگر پہلوؤں سے متعلق ہو۔ تاہم، مزید معلومات کے بغیر، یقینی طور پر کہنا مشکل ہے۔
یورپ کی قیادت کو اسرائیل،فلسطین تنازعہ پر اپنے مؤقف پر تنقید کا سامنا کرنا پڑا ہے، بہت سے لوگوں نے یورپی یونین پر یوکراین اور اسرائیل،فلسطین کے درمیان بین الاقوامی قانون کے حوالے سے دوہرے معیارات کا اطلاق کرنے کا الزام لگایا ہے۔ یورپی یونین پر زور دیا گیا ہے کہ وہ یہ ثابت کرے کہ وہ عالمگیر اصولوں اور اقدار کو برقرار رکھنے کے لیے پرعزم ہے، خاص طور پر انسانی بحران کے تناظر میں۔
؎ڈبل سٹینڈرڈز: یورپی یونین پر الزام لگایا گیا ہے کہ وہ اسرائیل کو یوکراین سے مختلف معیار پر رکھتا ہے، دونوں تنازعات کے باوجود علاقائی سالمیت اور انسانی حقوق کے مسائل شامل ہیں۔
ناکافی کارروائی: ناقدین کا استدلال ہے کہ یورپی یونین نے غزہ میں انسانی بحران سے نمٹنے کے لیے خاص طور پر امداد فراہم کرنے اور جنگ بندی کی حمایت کے حوالے سے خاطر خواہ اقدامات نہیں کیے ہیں۔
وضاحت کی کمی: تنازعہ پر یورپی یونین کے موقف کو غیر واضح ہونے کی وجہ سے تنقید کا نشانہ بنایا گیا ہے، کچھ رکن ممالک حماس اور اسرائیلی قبضے جیسے مسائل پر مختلف موقف اختیار کر رہے ہیں۔
یورپی یونین نے دو ریاستی حل کے لیے اپنی وابستگی پر زور دیا ہے اور غزہ میں فوری جنگ بندی اور انسانی امداد کی اجازت دینے کا مطالبہ کیا ہے۔ تاہم، تنازعہ پر اثر انداز ہونے کی یورپی یونین کی صلاحیت محدود ہے، اور اس کی کوششوں میں بلاک کے اندر تقسیم اور مسئلے کی پیچیدگی کی وجہ سے رکاوٹیں کھڑی کی گئی ہیں۔
مسلم دنیا نے درحقیقت اجلاس کے نتائج کے خلاف آواز اٹھائی ہے جو کہ مکمل طور پر غزہ اور مسلم دنیا کے خلاف ہے۔ اسلامی تعاون تنظیم (OIC) نے غزہ پر جاری وحشیانہ اسرائیلی جارحیت کی شدید مذمت کی ہے۔مزید برآں، ایک مشترکہ عرب اور اسلامی سربراہی اجلاس ایک قرارداد کے ساتھ اختتام پذیر ہوا جس میں اسرائیلی جارحیت کے خاتمے اور غزہ کی پٹی کے خلاف فوجی جارحیت کی مذمت کی گئی تھی۔
ان بیانات سے ظاہر ہوتا ہے کہ مسلم دنیا نے درحقیقت اجلاس کے نتائج کی مذمت کی ہے اور وہ غزہ میں اسرائیلی جارحیت کے خلاف سخت موقف اختیار کر رہی ہے۔امریکہ کے صدراپنے ایجنڈے پر عمل پیرا ہیں اورڈونلڈ ٹرمپ کی انتظامیہ نے مختلف اقدامات کیے ہیں جنہیں بین الاقوامی اداروں اور معاہدوں پر پابندی یا پابندیاں عائد کرنے کے طور پر دیکھا جا سکتا ہے۔ تاہم، مجھے ٹرمپ کے بین الاقوامی عدالت انصاف (آئی سی جے)، جسے عالمی عدالت بھی کہا جاتا ہے، پر پابندی لگانے کے بارے میں کوئی خاص معلومات نہیں مل سکیں۔
یہ کہا جا رہا ہے کہ امریکہ کے آئی سی جے کے ساتھ پیچیدہ تعلقات رہے ہیں۔ 2018 میں، ٹرمپ انتظامیہ نے اعلان کیا کہ وہ سفارتی تعلقات سے متعلق ویانا کنونشن کے اختیاری پروٹوکول سے دستبردار ہو جائے گی، جو ممالک کو ICJ کے سامنے تنازعات لانے کی اجازت دیتا ہے۔مزید برآں، 2020 میں، امریکہ نے ICJ اور بین الاقوامی فوجداری عدالت (ICC) کے اعلیٰ حکام پر افغانستان میں امریکی افواج کی طرف سے مبینہ جنگی جرائم کی تحقیقات شروع کرنے کے بعد پابندیاں عائد کر دیں ۔ یہ بات قابل غور ہے کہ ٹرمپ کے اقدامات اور پالیسیاں مختلف تنقیدوں اور تنازعات کا شکار رہی ہیں، جن میں بین الاقوامی اداروں اور معاہدوں کے بارے میں ان کا نقطہ نظر بھی شامل ہے۔
دنیا پر حالیہ پیش رفت کے اثرات کثیر جہتی اور دور رس ہیں۔ یہاں کچھ ممکنہ نتائج ہیں:
صورتحال اقوام کے درمیان، خاص طور پر امریکہ اور آئی سی سی کی حمایت کرنے والے ممالک کے درمیان کشیدگی میں اضافے کا باعث بن سکتی ہے۔امریکی اقدامات عالمی قانون کی حکمرانی اور بین الاقوامی اداروں کی اتھارٹی کو نقصان پہنچا سکتے ہیں۔صورتحال عالمی طاقت کی حرکیات میں تبدیلی کو تیز کر سکتی ہے، چین اور روس جیسے ممالک ممکنہ طور پر زیادہ اثر و رسوخ حاصل کر رہے ہیں۔امریکی اقدامات جنگی جرائم اور انسانیت کے خلاف جرائم کے مرتکب افراد کی حوصلہ افزائی کر سکتے ہیں، جو ممکنہ طور پر مزید مظالم کا باعث بن سکتے ہیں۔بڑے پیمانے پر ہونے والے مظالم کے ذمہ داروں کو جوابدہ ٹھہرانے کی ICC کی صلاحیت کو شدید نقصان پہنچایا جا سکتا ہے۔انسانی مصائب میں اضافے کا باعث بن سکتی ہے، خاص طور پر تنازعہ والے علاقوں میں جہاں جوابدہی پہلے ہی محدود ہے۔معاشی عدم استحکام میں اضافہ کا باعث بن سکتی ہے، خاص طور پر اگر تجارتی تعلقات متاثر ہوں۔
2 ۔پابندیاں اور جوابی پابندیاں: امریکی اقدامات پابندیوں اور جوابی پابندیوں کا ایک چکر شروع کر سکتے ہیں، ممکنہ طور پر عالمی تجارت کو نقصان پہنچا سکتے ہیں۔ بین الاقوامی کاروباروں کے لیے کام کرنا زیادہ مشکل بنا سکتی ہے، خاص طور پر وہ جو کہ امریکہ یا آئی سی سی کے رکن ممالک سے تعلقات رکھتے ہیں۔صورتحال قوموں کے اندر اور دونوں کے درمیان پولرائزیشن میں اضافہ کا باعث بن سکتی ہے۔
اعتماد کا خاتمہ: امریکی اقدامات بین الاقوامی اداروں اور عالمی نظام انصاف میں اعتماد کو ختم کر سکتے ہیں۔صورت حال کا عالمی سول سوسائٹی پر ٹھنڈک اثر پڑ سکتا ہے، ممکنہ طور پر انسانی حقوق کی تنظیموں کے مؤثر طریقے سے کام کرنے کی صلاحیت کو محدود کر سکتا ہے۔

Check Also

Urdu Columns Today

Mohsin Naqvi Cricket Aur Pakistan Ki Safarti Kamyabi By Muhammad Akram Chaudhry

محسن نقوی‘ کرکٹ اور پاکستان کی سفارتی کامیابی پاکستان میں کوئی خبر جو عوام کی …

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *