امریکی نوآبادیاتی حکمت عملی
دنیا میں بہت کم فیصلے ایسے ہوتے ہیں جو محض اپنی حقیقت سے زیادہ، اپنی غیر معمولی بے خبری اور بے حسی سے دنیا کو ہلا دیتے ہیں، اور غزہ پر ڈونلڈ ٹرمپ کا منصوبہ یقیناً انہی فیصلوں میں سے ایک شامل ہے۔ امریکی صدر نے یہ منصوبہ پیش کیا ہے جیسے غزہ صرف ایک ریئل اسٹیٹ کی پراپرٹی ہو، جسے چند سرمایہ کاروں اور تاجر حلقوں کی منافع بخش زمین کی طرح سمجھا جائے، اور فلسطینیوں کو ایک اثاثہ سمجھ کر ان کو کسی دوسرے ملک میں جبراًمنتقل کر دیا جائے۔ ٹرمپ کا یہ منصوبہ اسرائیل اور امریکہ کی مشترکہ خواہشات کا عکس ہے، لیکن اس میں انسانیت کے ساتھ جتنی بے رحمی کی گئی ہے، اتنی ہی بدترین ذہنیت کا اظہار بھی ہے جو اس وقت کے عالمی سیاستدانوں کی حقیقت سے دور، محض نظریات اور مفادات کی دھند میں ڈوبا ہوا ہے۔ غزہ کی سرزمین میں گزشتہ کئی دہائیوں سے چلنے والی خونریزی اور جنگ کی داستانیں ہر فلسطینی کی تکلیف کی گواہی دیتی ہیں، لیکن ٹرمپ کا منصوبہ ان تکالیف کو بڑھانے کی بجائے مزید جڑوں میں گہرائی پیدا کرنے والا ہے۔ اس میں ایک ایسا انوکھا تجارتی مفاد چھپا ہوا ہے جہاںصرف کچھ ہاتھوں کو فائدہ پہنچانے کا وعدہ ، لاکھوں فلسطینیوں کی زندگیوں کی قیمت پر کیا جارہا ہے۔ ٹرمپ نے غزہ سے فلسطینیوں کو بے دخل کرنے کی تجویز دی ہے، اور ان کے بقول ان افراد کو ’’بہتر رہائشی سہولتیں‘‘ ملیں گی۔ لیکن اس ’’بہتر‘‘ لفظ کی حقیقت کیا ہے؟ ایک بے گھر انسان جسے اپنی سرزمین سے نکال کر کسی غیر مقامی ملک میں پناہ گزین بنا دیا جائے، کیا وہ ’’ بہتر ‘‘’ زندگی گزار سکتا ہے؟ ۔ ٹرمپ نے اس بے دخلی کو ’’عارضی‘‘ قرار دیا، مگر ان کی زبان میں جو مستقل نوعیت کی باتیں ہیں، وہ اس وقت تک جاری رہیں گی جب تک فلسطینی اپنی شناخت اور اپنی زمین کی بازیابی کے لئے لڑتے رہیں گے۔ یہ سب کچھ ایک کاروبار کی طرح چلایا جا رہا ہے۔ ٹرمپ نے جو تجویز پیش کی ہے، اس میں نجی کمپنیوں کو غزہ کی دوبارہ تعمیر کی اجازت دی جا رہی ہے۔ اس سے صاف ظاہر ہے کہ اس منصوبے کا مقصد فلسطینیوں کی تقدیر پر کھیلنا ہی نہیں بلکہ امریکی کمپنیاں ان کی زندگیوں سے فائدہ اٹھانے کے لیے میدان میں اتاری گئی ہیں۔ غزہ کی سرزمین جو جنگ اور تباہی کے آثار کا عکس ہے، اب ان سرمایہ کاروں کی جیبیں بھرنے کے لئے منصوبہ بندیاں کی جا رہی ہیں۔ اس حکمت عملی کا فائدہ ٹرمپ کے داماد جیرڈ کشنر کی مشرق وسطیٰ میں رئیل اسٹیٹ سرمایہ کاری کو پہنچ سکتا ہے۔ امریکی فوجی شمولیت کا نہ ہونا، اس منصوبے میں امریکی فوجی مداخلت سے انکار کیا گیا ہے، مگر اسرائیلی اور نجی سیکیورٹی کمپنیوں کو مائن ہٹانے اور بنیادی ڈھانچے کے منصوبوں میں شامل کرنے کی تجویز دی گئی ہے۔ اس منصوبے میں کاروباری مفادات اور منافع کے محرکات بھی شامل ہیں۔ رئیل اسٹیٹ اور تعمیرات، ٹرمپ کی لگژری ڈیولپمنٹ برانڈنگ کا غزہ کے بحری ساحل سے ممکنہ تعلق ظاہر ہوتا ہے، جسے کشنر نے 2024 میں ”قیمتی واٹر فرنٹ پراپرٹی” قرار دیا تھا۔ 2014 کی جنگ کے بعد اقوام متحدہ کے تحت 7.8 ارب ڈالر کے اسرائیلی تعمیر نو منصوبے میں اسرائیلی کمپنیوں نے بڑے معاہدے حاصل کیے، اور یہی ماڈل امریکی کمپنیاں بھی اپنا سکتی ہیں۔ حماس اور اسرائیل کی یہ لڑائی اپنے مقام پر ایک الجھی ہوئی حقیقت بن چکی ہے، اور اسے محض اس طرح حل کرنے کی کوششیں ایک مزید پیچیدہ صورتحال کی طرف لے جا رہی ہیں۔ اسرائیل جنگ میںناکامی کے بعد سمجھتا ہے کہ حماس کے سرنگوں کے نیٹ ورک کو ختم کرنے کے لئے جدید ٹیکنالوجی کی ضرورت ہوگی جو امریکی دفاعی ٹھیکیدار فراہم کر سکتے ہیں۔ واضح رہے کہ اسرائیل کی جانب سے امریکی ساختہ JDAM بموں اور نگرانی کے نظاموں کے استعمال سے عالمی اسلحہ کی صنعت میں 95 ارب ڈالر کا اضافہ ہوا تھا۔ ٹرمپ اور اسرائیل کے اس منصوبے کا اثر کیا ہو گا، تو یہ واضح ہے کہ یہ پورے خطے میں نئے بحرانوں کو جنم دے گا۔ یہ محض ایک منصوبہ نہیں، بلکہ عالمی سیاست کا ایک ایسا سنگین جوا ہے جسے ٹرمپ اور ان کے اتحادیوں نے چھیڑا ہے۔ اس کا نتیجہ کچھ بھی ہو، لیکن اس کا آغاز ایک ایسی مصیبت میں ہو چکا ہے جس کا سامنا نہ صرف فلسطینیوں بلکہ پورے عالم انسانیت کو کرنا پڑے گا۔ اور اگر یہ منصوبہ کامیاب ہوا تو یہ ایک ایسا سبق بن جائے گا جس سے انسانیت کی اخلاقی قدریں اور عالمی قوانین مزید کمزور ہو جائیں گے۔ ٹرمپ کا غزہ پر قبضہ کرنے کا منصوبہ کوئی مرتب حکمت عملی نہیں، بلکہ ایک موقع پرستی اور نظریاتی جذبے کا مجموعہ ہے۔ اگرچہ یہ امریکی کمپنیوں کے لئے مختصر مدت میں فائدہ مند ہو سکتا ہے، مگر اس کے نتیجے میں عرب ریاستیں اس بے دخلی کے خلاف ہیں، اور اردن نے فلسطینیوں کو بے دخل کئے بغیر غزہ کی دوبارہ تعمیر کے متبادل منصوبے پیش کیے ہیں۔ حماس نے اس مزاحمت کو ’’امریکی نوآبادیاتی حکمت عملی‘‘ کے خلاف دفاع قرار دیا ہے، جس سے عالمی جنوب میں اس کی حمایت مزید بڑھے گی۔ اس منصوبے کی کامیابی کا دارومدار علاقائی ممالک کی ہم آہنگی اور فلسطینی مزاحمت کو کچلنے کی کوششوں پرہے۔ یہ ایک ایسا جوا ہے جس کے انسانی اور جغرافیائی سیاسی نتائج سنگین ہو سکتے ہیں۔