اوقاف اور رمضان
’’شب برأت‘‘ کے ساتھ ہی رمضان المبارک کی آمد کا ماحول فضاؤں میں اترتا محسوس ہونے لگتا ہے، مساجد کی ترتیب و تزئین،پینٹ اور سفیدی کے اہتمامات اور بالخصوص حفاظ و قرأ، قرآنِ پاک کے دور شروع کر دیتے ہیں، ’’دور‘‘ ہماری دینی درسیات کی خاص اصطلاح ہے، جس میں دو حافظ باہم مل کر قرآن پاک کو دوہراتے ہیں، پہلے ایک حافظ قرآن، قرآنِ پاک کا پارہ تلاوت کرتا اور دوسرا سنتا ہے اور پھر دوسرا سناتا اور پہلا سنتا ہے۔ نبی اکرم ﷺ کے اسوہ ٔ اور سیرت طیبہ میں رمضان المبارک کے حوالے سے یہ واقعہ بہت نمایاں اور معتبر ہے کہ حضرت جبرائیل ؑ ہر رمضان میں نبی اکرم ﷺ کے ساتھ قرآن پاک کا دور فرمایا کرتے تھے، آپﷺ کی ظاہر ی حیات کے آخری سال میں حضرت جبرائیل ؑنے یہ دور دو مرتبہ فرمایا، جس کو آنحضرت ﷺ کی دنیا سے تشریف لے جانے کے ایک اشارے سے بھی تعبیر کیا گیا۔ شعبان کے انہی ایام میں محکمہ اوقاف کی سرگرمیوں کا دائرہ علمی و دینی حوالے سے بھی زیادہ معتبر اور وسعت اختیار کر جاتا ہے، گزشتہ ہفتے ایوان ِ اوقاف میں 40 ویں صوبائی مقابلہ حفظ و قرأت کا اہتمام ہوا، جو بچوں اور بچیوں کے درمیان الگ الگ سطح پر انعقاد پذیر تھا، جس میں صوبہ بھر سے منتخب حفاظ و قرأ حضرات اس میں شریک ہوئے، بچوں کے درمیان یہ مقابلہ چھ مختلف کیٹگریز جبکہ بچیوں کے چار کیٹگریز کے حوالے سے تھا، حفظ القرآن کی پہلی کیٹگری میں پارہ 1 تا 30 میں سے ججز صاحبان کسی مقام کا انتخاب کر کے، شریک مقابلہ کوپڑھنے کا کہتے اور یوں حافظ صاحب بلا تامل اس مقام کی تلاوت کا آغاز کردیتے، کیٹگری دوم حفظ القرآن پارہ 1 تا 20، کیٹگری، سوم پارہ 1 تا10، کیٹگری نمبر4میں پارہ1 تا 5، اسی طرح بچیوں کے درمیان مقابلہ اور پھر بچوں اور بچیوں کے درمیان (الگ الگ)قرأت کے مقابلے کا اہتمام ہوا، یہاں سے انتخاب ہوجانے کے بعد اوّلین پوزیشن کے حامل قومی سطح پر مقابلے میں شریک ہوں گے اور پھر وہاں سے منتخب ہونے والا بین الاقوامی سطح پر منعقدہ مقابلہ میں شرکت کے اہل قرار پائیں گے۔ ججز صاحبان نے جن شرائط کے ساتھ ان شرکاء کی پرکھ کی ان میں حفظ کے 50 نمبر، روانی کے 25 نمبر اور لہجہ کے 25نمبر، اسی طرح قرأت کے مقابلوں میں تجوید کے 25 نمبر شامل تھے۔ یہ چالیسواں سال تھا، ان مقابلوں کے انعقاد کا، اس کی کوالٹی اور معیار انتہائی عمدہ اور جاندار تھا، صوبے کے دور دراز علاقوں سے بچے اور بچیاں، اپنے والدین اور اساتذہ کے ساتھ ایوان ِ اوقاف لاہور میں تشریف فرما ہوئے، اس عہد میں ہماری جدید تعلیمی ضروریات نے ہمارے شہری حلقوں میں بچوں کو اتنامصروف کردیا ہے کہ ان کے پاس قرآن پڑھنے کے لیے وقت ہی نہیں۔ ہمارے تعلیمی نظام نے ان کے بیگ کا بوجھ اتنا زیادہ کردیا ہے کہ انہیں اے، بی، سی سے ہی فرصت نہیں۔دین کو اللہ تعالیٰ نے مسکنت اور فقر میں رکھا ہے۔ آسودہ حال طبقہ تو بمشکل جمعہ کے روز ہی مسجد میں آجائیں تو بڑی بات ہے۔ مسجد نبوی میں اصحاب ِ صفہ دین سیکھنے کے لیے ہمہ وقت مستعد رہتے، جن کی تعداد چارسو سے زائد بھی رہی، دین کے یہ وہ سپاہی تھے،جنہوں نے اپنا سار ا کچھ اللہ اور اس کے رسول ﷺ کے لیے قربان رکھا تھا، مدینہ منورہ کے انصار، ان کی خدمت کے لیے ہمیشہ متحرک رہتے، ان کے خوردو نوش کا التزام کرتے، نبی اکرم ﷺ مسجد نبوی سے اپنے احکام و ارشادات کے ذریعہ ان اصحاب کی خدمت اور دین کی ترویج کے لیے صحابہ کو مائل رکھتے۔ انفاق کی تعلیم دیتے، صفہ کے متعلقین انفاق کے ضمن میں روپیہ، پیسہ کی کمی کے سبب اپنی محرومی کا تذکرہ کرتے کہ ہمارے پاس بھی دولت و ثروت ہو تو ہم بھی اس کارِ خیر میں شریک ہوں، رسول اللہ ﷺ ان کی ڈھارس بند ھاتے اور فرماتے کہ دوسروں سے مسکرا کر بات کرنا بھی صدقہ ہے، تم باہم محبت سے ایک دوسرے کی مدد کردیا کرو، ان کے لیے آسودگی کا اہتمام کرلیا کرو، ان کو اپنے درمیان بیٹھنے کے لیے جگہ دے دیا کرو، راستے میں پڑا ہوا کوئی کنکر یا پتھر ہٹا دیا کرو، اس کے سبب اللہ تعالیٰ تمہارے درجوں کو بلند و بالا کردیا کرے گا۔ بہر حال ان مقابلوں میں روایتی طور پر بہاولپور، مظفر گڑھ جیسے پسماندہ علاقوں کے شرکاء نے زیادہ پوزیشنیں حاصل کیں، اگرچہ فیصل آباد، گوجرانوالہ، سرگودھا چکوال، راولپنڈیلاھور بھی کہیں کہیں نمایاں رہے۔ بہرحال یہ ایک بہت بڑا کریڈٹ ہے، محکمہ اوقاف کا، جس کے قیام کا بنیادی مقصد ہی یہی ہے کہ وہ ترویج ِ د ین اور اشاعتِ اسلام کے لیے مستعد ہو،اور بالخصوص صوفیاء کے افکار و نظریات کی آبیاری کرے تاکہ سوسائٹی میں اَمن، محبت، رواداری اور انسان دوستی کا پرچار ہو۔ اسی سے ہمارا معاشرہ جنت نظیر ہوسکتا ہے، انتہاپسندی، تشدد اور عدم برداشت کا خاتمہ ممکن ہے۔ وقف کی روح کو سمجھنے کے لیے کتب احادیث و سیرت میں حضرت عمر فاروق ؓکا یہ امر بہت معتبر ہے کہ 7 ہجری میں جب خیبر فتح ہوا، تو نبی اکرم ﷺ نے یہ علاقہ مختلف صحابہ اور بالخصوص مہاجرین میں تقسیم فرمایا تاکہ تنگی و ترشی کا بوجھ کم اور قدرے فارغ البابی سے گزر اوقات ہوسکے۔ حضرت عمر فاروق ؓکو بھی دربار ِ رسالت سے ایسا ہی ایک قطعہ زمین میسر آیا۔ بعض روایات کے مطابق ان کی کچھ اراضی پہلے ہی اس سے متصل تھی۔ حضرت عمر فاروق ؓ خدمت نبوی ﷺ میں حاضر ہوئے اور عرض کی یا رسول اللہ:مجھے خیبر میں جو زمین ملی ہے، مَیں آج تک اس سے عمدہ جائیداد کا مالک نہ ہوا، آپﷺ مجھے اس کے متعلق حکم دیں، آپﷺ نے فرمایا!گر تم چاہو تو اس کی اصل کو محفوظ رکھو اور محصولات کو صدقہ کرو، چنانچہ حضرت عمر فاروق ؓ نے اس شرط کے ساتھ اس زمین کو وقف کردیا کہ اس کی اصل زمین کو نہ فروخت کیا جائے اور نہ ہبہ اور نہ ہی اس سے وراثت کا سلسلہ چلے، یہ زمین فقرأ، قریبی رشتہ دار وں، غلاموں، راہ ِ خدا، مہمانوں اور مسافروں کے لیے صدقہ ہوگی؛ جو شخص اس جائیداد کا متولی (منصرم) ہوگا، اس میں کوئی گناہ نہیں کہ وہ اس سے معروف طریقے کے مطابق خود کھائے یا کسی غیر مالدار دوست کو کھلائے، اسی طرح مسلمان ہجرت کر کے مدینہ منورہ آئے تو انہیں پینے کے پانی کی دستیابی کی بابت سخت دوشواری تھی۔ مدینہ منورہ میں میٹھے پانی کا ایک ہی کنواں تھا، جو ایک یہودی کی ملکیت تھا، جبکہ مسلمان اپنی تنگ دستی اور کسمپرسی کے سبب اس سے استفادے کی سکت نہیں رکھتے تھے۔ اس پر نبی اکرم ﷺ نے صحابہ کو بیررومہ خریدنے اور مسلمانوں کے لیے وقف کرنے کی ترغیب دلائی۔ چنانچہ حضرت عثمان ؓ نے یہ کنواں تیس درہم میں خرید کر مسلمانوں کے لیے وقف کردیا، حضرت عثمان غنی ؓ نے اس کے علاوہ بھی متعدد وقف قائم فرمائے۔ مدینہ منورہ میں ’’وقف عثمان بن عفان‘‘ کے نام سے آج بھی وسیع و عریض عمارات اور ہوٹل وغیرہ، حرمِ نبی ﷺ کے گِرد موجوود ہیں، جن کا مقامی میونسپلٹی میں بطوروقف عثمان بن عفان اندراج ہے، اور یہاں کے محصولات ِزَر سے ایک کثیر مخلوق استفادہ کرتی ہے۔ امام شافعی نے اپنی ’’کتاب الام‘‘ میں حضر ت علی المرتضیٰؓ کی طرف سے اور سیّدہ فاطمہ ؓ کی طرف سے اپنی جائیداد کو خاندان ِ بنو ہاشم اور بنو مطلب کے لیے وقف کیا، اسی طرح امام شافعیؒ نے حضرت علی المرتضیٰؓ کے بعض ’’وقف‘‘ کا ینبوع جو کہ مغربی ساحل پر ایک ذرخیز اور خوشحال علاقہ اور تحلستانوں کے سبب مشہور تھا، کا ذکر کر کے، ان کے وقف ہونے کی تصدیق کی ہے۔