Read Urdu Columns Online

Barzakh Ka Raaz By Abdullah Tariq Sohail

برزخ کا راز از عبداللہ طارق سہیل

ٹرمپ نے ایک اور پسپائی اختیار کی ہے۔ پہلے یہ خبر وائٹ ہائوس کے ذرائع سے چلوائی کہ غزہ والوں کو غزہ سے اٹھا کر دور کے چھ ملکوں میں آباد کرنے کیلئے امریکی فوج ہوائی جہازوں سے غزہ بھیجی جائے گی۔ پھر اس پر عالمی طوئے لعنت ہوئی تو یہ خبر چلوائی کہ نہیں، نہیں، ایسا کوئی ارادہ نہیں۔ 
خیر، فوج اتاریں یا نہ اتاریں، ٹرمپ اس عزم پر قائم ہیں کہ غزہ سے تمام فلسطینی نکال باہر کئے جائیں گے اور ان کی جگہ خدائی پسندیدہ ترین مخلوق CHOSEN ONE کو آباد کیا جائے گا۔ ٹرمپ نے واضح طور پر کہا کہ غزہ والوں کے پاس غزہ سے چلے جانے کے سوا کوئی اور راستہ ہے ہی نہیں۔ 
چین روس ترکی سعودی عرب مصر اردن آسٹریلیا فرانس سبھی نے اس اعلان کو مسترد کیا ہے اور ٹرمپ نہیں جانتے کہ غزہ کا یہ خاتمہ عرب ممالک میں کن آتش فشانوں کے دہانے کھول دے گا۔ امریکہ کی مسلط کردہ حکومتیں بہہ جائیں گی۔ 
اہم بات یہ ہوئی ہے کہ اس منصوبے کو سعودی عرب نے بھی مسترد کر دیا ہے۔ وہ سعودی عرب جس پر ٹرمپ کی آئندہ شہری کامیابیوں کا انحصار ہے۔ یعنی سعودی عرب اس صورت میں ’’ابراھام اکارڈ‘‘ کو اٹھا پھینکے گا، پھر ٹرمپ جی کیا کریں گے۔ 
یہ تو اہم بات ہوئی۔ انوکھی بات یہ دریافت ہے کہ غزہ کو نیست و نابود کر کے، گریٹر اسرائیل کی وہاں سے شروعات کرنے کا آئیڈیا ان کا اپنا نہیں، ان کے داماد جی کا ہے۔ ٹھیک ایک سال پہلے، 15 فروری 2024ء کو ایک انٹرویو میں انہوں نے کہا کہ غزہ کے ساحل پر املاک بہت قیمتی ہیں۔ داماد جی چیرڈ کوشنر نے مزید کہا کہ اسرائیل غزہ والوں کو صحرائے نقب ،یا صحرائے نجف NEJEVE میں بھیج دے اور غزہ کی سرزمین کو ان سے صاف کر دے۔ 
یہ وہی داماد جی ہیں جو پی ٹی آئی کے نزدیک ، مرشد کے بعد، کائنات کی دوسری مقدس ترین ہستی ہیں۔ آپ کسی پی ٹی آئی والے کے سامنے صدر ٹرمپ کو گالی دیں۔ وہ برا مانے گا اور پھر اس کے سامنے داماد جی کو گالی دیں، وہ بہت ہی زیادہ برا مانے گا اور آپ کی، لغوی معنوں میں، سرکوبی کر دے گا۔ 
اب آپ کو سمجھ میں یہ بات بھی آ گئی ہو گی کہ کیوں، پی ٹی آئی غزہ کے قتل عام کی مذمت میں ایک لفظ بھی کہنے سے انکار کرتی ہے۔ داماد جی سے مسلسل رابطے ہیں اور ’’حقیقی آزادی‘‘ کے حصول کی 90 فیصد امیدیں اب انہی داماد جی ہی سے وابستہ ہیں۔ 
______
اب تک اسرائیل یہی کہتا آیا کہ غزہ کی جنگ میں اس کے 8 ،9 سو فوجی مرے ، اس سے کچھ زیادہ زخمی ہوئے جبکہ دیگر صحافتی ذرائع یہ تعداد زیادہ بتاتے تھے۔ 
اسرائیل کے سابقہ آرمی چیف مستعفی ہو گئے اور ان کی جگہ نئے آ گئے۔ انہوں نے کل اعتراف کیا اور اعتراف کر کے حیران کر دیا۔ کہا، اس جنگ میں اسرائیل کے 21 ہزار یعنی 20 اور ایک ہزار فوجی ہلاک اور زخمی ہوئے۔ کتنے ہلاک، کتنے زخمی، یہ نہیں بتایا حماس کی جان توڑ مزاحمتی صلاحیت کا اندازہ لگائیے۔ 
______
دو روز پہلے کی تحریر میں دو شعر لکھے تو بعض احباب نے پوچھا کہ یہ کس غزل کے ہیں۔ سرفروشی کی تمنّا اب ہمارے دل میں ہے والی غزل میں تو نہیں ملے۔ 
اس لئے نہیں ملے کہ یہ اس غزل کے نہیں ہیں۔ غزل کی بحر ردیف اور قافیہ سے دھوکہ ہوا۔
یہ دراصل حضرت نارائن پرشاد لکھنوی کی غزل سے ہیں جس کا مطلع ہے: 
دم لبوں پر زخم تیغ ناز سے بسمل کا ہے 
موت کی ہچکی نہیں ہے، شکر اس قاتل کا ہے 
یہ غزل ان کے دیوان ’’شعاع مہر‘‘ میں موجود ہے۔ 
حضرت نارائن پرشاد مہر حضرت داغ دہلوی کے خلیفہ خاص تھے اور بعض شعر اتنے اچھے کہتے تھے کہ لوگ کہہ اٹھتے کہ میاں یہ تمہارے شعر نہیں ہیں، یہ تم نے داغ کے چوری کئے ہیں۔ 
اردو کے فلسفی کالم نگار امرجلیل نے اپنی ایک حالیہ تحریر میں بہت ہی انوکھا سوال اٹھایا۔ جلیل صاحب طنز اور مزاح لکھنے میں اپنا خاص اسلوب رکھتے ہیں لیکن ان کی تحریروں میں اردو کے سب سے بڑے مزاح نگار محمد خالد اختر کی چھب اورپرتو بھی جھلک مارتا ہے۔ کبھی کبھی! خیر، ان کا سوال کچھ یوں تھا کہ: آدمی کے پاس شعور میں محفوظ یادوں کے انبار ہوتے ہیں، مرنے کے بعد ان یادوں کا کیا بنتا ہے۔ 
سوال ایک ادبی فن پارہ ہے ، ختم ہوتی ہوئی ختم ہو جانے والی زندگی کا نوحہ بھی لیکن اسے ایک سنجیدہ اور معروضی سوال سمجھا جائے تو بھی یہ ایسی بات ہے جسے شاید ہی کسی شاعر نے شعر کا روپ دیا ہو۔ بہرحال، اسے محض سوال سمجھا جائے تو بھی اس کا جواب موجود ہے۔ کسی ارسطو فلاٹو کی کتاب میں نہیں، الہامی صحیفوں میں البتہ، 
پہلے کچھ اور عرض کر دوں۔ کچھ برسوں سے یوٹیوب پر ایسے ’’دینی سکالر‘‘ چھائے ہوئے ہیں جو احادیث رسول میں موجود ہر عقیدے کا مذاق اڑانا، دلائل،، سے ان کی تردید کرنا اپنا مشن بنائے ہوئے ہیں۔ ان کی ’’مہمات‘‘ کا ایک جملہ برزخ کے عقیدے میں بھی ہے، فرماتے ہیں عالم برزخ کا ذکر تو قرآن پاک میں ہے ہی نہیں، پتہ نہیں ان لوگوں نے کہاں سے یہ عقیدہ گھڑ لیا ہے۔ 
عالم برزخ کا ذکر قرآن میں نام لے کر تو نہیں ہے لیکن ذکر بہرحال ہے۔ برزخ کوئی اسم معرفہ نہیں ہے۔ یہ ایک عام لفظ ہے جس کے معنے پردے کے ہیں اور چونکہ مرنے کے بعد ارواح کہاں جاتی ہیں، کہاں رہتی ہیں، ان کے وجود کی ھئیت کیا ہوتی ہے، یہ سارا معاملہ چونکہ پردہ راز میں ہے لہٰذا اسے عالم برزخ کہنا، اسکے نام سے معنون کرنا نہیں ہے۔ عالم ارواح محض شاعرانہ تصور نہیں ہے جیسا کہ جوش ملیح آبادی نے کہا تھا
یہاں چمپئی دھوپ ہے، سنہری سایہ 
رہتا ہے سحاب ابدیت چھایا 
جوش آئے کہ منتظر ہے بزم ارواح 
آیا یاران رفتہ آیا آیا۔
قرآن پاک میں ایک جگہ ہے کہ (قیامت کے روز) ہم فرعون اور اسکی آل (یعنی قوم، پیروکاروں) کو چھوٹے عذاب سے بڑے عذاب کی طرف لے جائیں گے۔ بڑا عذاب یعنی دوزخ، چھوٹا عذاب یعنی مرنے کے بعد سے قیامت شروع ہونے تک کے درمیان مرحلے میں دی جانے والی سزا__  یہ سزا جس ’’عالم‘‘ میں دی جائے گی، وہی تو برزخ ہے۔ 
قیامت کے روز یہودی خدا سے فریاد کریں گے، قرآن پاک میں ایک دوسری جگہ ہیکہ، ہم اپنے گناہوں کی سزا بھگت چکے، یعنی اب ہمیں معاف فرما دیجئے۔ یہاں بھی اسی سزا کا ذکر ہے جو مذکورہ ’’درمیانی عرصے میں، کسی مکانِ نامعلوم میں بھگتی۔ 
تو سزا یا جزا اسے دی جاتی ہے جسے پتہ ہو کہ اس نے کیا جرم، کیا نیکی کی ہے۔ مطلب یہ کہ یہ جو مکان نامعلوم ہے، اس میں موجود ارواح کو اپنا اعمال نامہ یاد ہو گا اور اعمال نامہ یاد ہو گا تو دیگر واقعات زندگی بھی یاد ہوں گے۔ سوال پھر یہ کہ ارواح کے تو دماغ ہی نہیں ہوں گے کہ جسم نہیں، محض روح ہے تو یادداشت کیسے ہو گی تو عرض ہے کہ مرنے کے بعد اگر روح زندہ رہے گی (بھگوت گیتا میں بھی یہی ہے کہ آتما کو مرتیو نہیں، اس کا چولا بدل جاتا ہے) تو کوئی ایسا نیا جسم بھی ہو گا جسے ہم سمجھ نہیں سکتے ہیں۔ کہ یہ سب کچھ تو راز ہے، برزخ کے پیچھے کا راز۔ قابل ذکر بات ہے کہ جزا اور سزا کا یہ سلسلہ بہت لمبا نہیں ہوگا کہ مرنے کے بعد شروع ہو گا اور قیامت تک جاری رہے گا۔ قرآن مجید ہی کی ایک آیت میں ہے کہ قیامت کے روز یہ اٹھائے جائیں گے تو غل مچائیں گے کہ ارے، یہ ہمیں کس نے  ہماری نیند سے جگا دیا۔ مطلب نمونے کی سزا یا جزا کے بعد یہ لمبی نیند سلا دئیے جائیں گے اور اتنی لمبی نیند کے بعد اٹھیں گے تو فریاد کریں گے کہ ابھی تو ہماری نیند پوری بھی نہیں ہوئی، ابھی سے اٹھا دیا۔

Check Also

Read Urdu Columns Online

Dar Manday Ka Parda

درماندے کا پردہ جس خبر کو حکومت نے نمایاں کیا نہ نمایاں ہونے دیا وہ …

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *