Urdu Columns Today

Do Mohtram Topion Aur Qaumi Shanakhat Ki Kahani By Ashraf Sharif

دو محترم ٹوپیوں اور قومی شناخت کی کہانی

سفارتی تقریبات میں سفارت کاروں کی طرح سیاسی شخصیات بھی لباس کے لوازمات کا دھیان رکھتی ہیں۔ سفارت کار عموماً کلاسک‘ قدامت پسند لباس پہنتے ہیں جس میں وہ پروفیشنل اور با اختیار دکھائی دیں۔ ان کے لباس کے رنگ گہرے ہوتے ہیں‘ جیسے نیوی یا گرے۔ ساتھ سفید یا نیلی شرٹ‘ ٹائی لازمی ہوتی ہے۔کئی ریسٹورنٹس ،ہوٹل اور کلب اپنے مہمانوں کو مخصوص ڈریس کوڈ کی تلقین کرتے ہیں‘ ان کے ہاں کوئی چپل‘ دھوتی پہن کر نہیں جا سکتا۔ شلوار قمیص کی صورت میں واسکٹ ضروری ہوتی ہے۔ لباس کے لئے یہ شرائط دراصل مہمانوں یا گاہکوں کو اعلیٰ طبقہ سے تعلق رکھنے کے آداب سکھاتی ہیں۔ انہیں باور کرایا جاتا ہے کہ وہ عام آدمی نہیں۔ وہ تھڑے پر بیٹھے، اخبار سامنے پھیلا کر ،چائے سُڑکنے والے نہیں بلکہ سماج کے بااختیار طبقے سے ہیں۔ وہ طبقہ جسے ہر جگہ اپنا رکھ رکھائو اور بھرم برقرار رکھنا ہے۔ کمیونسٹ پارٹی آف چائنا اور کومنٹانگ کے درمیان 1927ء میں خانہ جنگی شروع ہوئی۔ مائو نے ریڈ آرمی تشکیل دی۔ گوریلا جنگ کی منصوبہ بندی کی۔1935ء میں لانگ مارچ کے دوران مائوزے تنگ کمیونسٹ پارٹی آف چائنا کے لیڈر بن گئے۔ مائوزے تنگ جو مخصوص چھجے والی ٹوپی پہنتے تھے وہ کمیونزم سے متاثر بہت سے عالمی رہنمائوں کے لباس کا حصہ بنی۔ ذوالفقار علی بھٹو کئی عوامی اجتماعات میں یہی ٹوپی پہن کر شریک ہوا کرتے۔ چین میں یہ مخصوص ٹوپی عوامی لباس کا حصہ رہی۔1980ء سے 1990ء تک آتے آتے یہ ٹوپی عوامی لباس سے نکل گئی۔ اس کی جگہ مغربی سوٹ نے لی۔ اب کبھی کبھار چینی رہنما اہم ریاستی تقریبات میں مائو کیپ پہن لیتے ہیں۔ یہ کیپ شمالی کوریا کی حکمران جماعت کے لوگ بھی پہنتے ہیں۔ پاکستان میں حالیہ عرصے میں ترک ڈراموں نے ناظرین کو متوجہ کیا ،کئی کردار بچوں اور بڑوں میں مقبول ہوئے۔ان میں سے ایک ارطغل کا کردار ہے،کئی لوگوں نے اس کی دیکھا دیکھی گھروں میں تلواریں ، تیر کمان اور خنجر آویزاں کرنا شروع کئے۔ ارطغل کا قبیلہ خاص طرح کا لباس پہنتا۔ سرد موسم کی مناسبت سے ان کی ایک ٹوپی تھی۔ یہ ٹوپی بھیڑ کی کھال سے تیار کی جاتی۔ اب مشینی اور کیمیائی زمانہ آ گیا ہے۔ مصنوعی چمڑہ اور بال بن رہے ہیں۔ جن لوگوں کو ارطغل غازی بننے کا شوق ہوتا ہے وہ ارطغل کیپ بنوا لیتے ہیں۔ شائد پاکستان میں صدر مملکت اور وزیر اعظم کی ٹوپیوں پر کبھی بات نہیں کی گئی۔میرا خیال ہے ان دو قابل احترام شخصیات کو لباس کے معاملے میں مشاورت فراہم کرنے والے بھی اس امر سے واقف نہیں تھے کہ قومی شناخت کا معاملہ کس حد تک نازک ہوتا ہے۔معاملہ معمول سے کچھ ہٹ کر ہے لہذا اسے لکھنے کا کام بھی مجھے انجام دینا پڑا ورنہ قلم گھسائی تو بہت ہو رہی ہے۔ گزشتہ دنوںصدر آصف علی زرداری اعلیٰ سطحی وفد لے کر چین گئے۔ ان کے دورہ چین کے مقاصد پر کھلی بحث نہیں ہوئی‘ اندیشہ تھا کہ تجزیہ کرنے کے دوران کسی نکتے کو محرم سے مجرم بنا کر پیکا ایکٹ نہ لگ جائے۔ خیر مجھے چینی ایئر پورٹ پر پاکستانی وفد کی تصویر نے متوجہ کیا۔ آصف علی زرداری نے پینٹ کے ساتھ جیکٹ زیب تن کر رکھی تھی۔ سر پر مائو کیپ ۔ یہ کیپ انہوں نے شائد اپنی جماعت کی چینی کمیونسٹ پارٹی کے ساتھ تاریخی تعلقات کی علامت کے طور پر لی۔ سوئے اتفاق ان کے فرزند اور پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری اسی دوران سرمایہ داری نظام کے سرخیل امریکہ میں صدر ٹرمپ کے ناشتے میں موجود تھے۔ بلاول بھٹو نے ٹرمپ سے خاصے فاصلے پر کھڑے ہو کر اپنی ایک سیلفی پوسٹ کی۔ میرے سامنے دوسری تصویر ترک صدر رجب طیب اردوان کی پاکستان آمد کی ہے۔ صدر آصف علی زرداری اور وزیر اعظم شہباز شریف صدر اردوان کا استقبال کر رہے ہیں۔ صدر مملکت نے وہی مائو کیپ پہن رکھی ہے۔ جناب وزیر اعظم ارطغل والی ٹوپی پہنے وہی جنگجویانہ فیلنگ لے رہے ہیں۔ترک صدر اور ہمارے ارباب مملکت خاصے پرجوش ہیںلیکن میں ان آنیوں جانیوں میں پاکستانی شناخت ڈھونڈ رہا ہوں۔شلوار قمیض ،پگڑی،واسکٹ یا چادر جیسی کوئی چیز صدر مملکت یا وزیر اعظم کے لباس کا حصہ نہیں تھی۔ ابھی تین دن پہلے کی بات ہے بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی امریکہ میں تھے۔ مودی کو انگریزی نہیں آتی۔مشینی ترجمہ کاری کے دور میں یہ کوئی معیوب بات نہیں۔ مودی نے سوٹ پہنا نہ ٹائی لگائی۔ پاجامہ کرتا اور واسکٹ پہن کر انہوں نے مشترکہ پریس کانفرنس میں ہندی بولی۔ مترجم ان کی گفتگو کو انگریزی میں ڈھالتا تھا۔ انگریزی سوٹ نہ پہننے اور انگریزی نہ بولنے کے باوجود مودی امریکہ سے کئی اہم معاہدے کرنے میں کامیاب رہے۔ وہ جان چکے ہیں کہ عہد حاضر میں سفارت کاروں اور سیاسی لیڈروں کے پہناوے میں فرق آ رہا ہے۔ سیاسی رہنما اب اپنی قومی شناخت کو زبان‘لباس اور رکھ رکھائو میں جگہ دے رہے ہیں۔ پاکستان کی شناخت کے کئی بحران ہیں۔ المیہ یہ ہے کہ اب ایسے لوگ حکمران بننے لگے ہیں جو اقتدار تک رسائی کے ہر ہتھکنڈے سے تو واقف ہیں لیکن قومی شناخت و نظریات سے ان کا واسطہ نہیں۔ بہت ہوا تو ایک دو سمجھدار مشیر رکھ لئے۔ ان مشیروں کو بھی سیاسی رسہ کشی ٹیم کا حصہ بنا کر ضائع کر دیا جاتا ہے۔ وزیر اعظم اگر اس سلسلے میں کم از کم عرفان صدیقی صاحب سے ہی مشورہ کر لیتے تو وہ کسی قومی رہنما کے رکھ رکھائو اور پہناوے کے متعلق بہتر بتا سکتے تھے۔ صدر مملکت اور وزیر اعظم کی ٹوپیوں نے چین یا ترکی کو جانے کچھ متاثر کیا ہو یا نہ کیا ہو لیکن پاکستان میں جو سوچنے سمجھنے والے طبقات باقی رہ گئے ہیں وہ اسے ایک ایسا رجحان تصور کرتے ہیں جو پاکستانی شناخت کو ختم کرنے کا موجب بن رہا ہے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *