ڈاکٹر خاور عین نوازش
جہاں تک میرا تجربہ بتاتا ہے، نقاد دو طرح کے ہوتے ہیں: نمبر ایک: پہلی طرح کے نمبر دو: دوسری طرح کے اگر کہیں تیسری چوتھی قسم کے بھی ہوتے ہیں تو ہم انھیں نہیں جانتے۔ میرا میدان چونکہ مزاح ہے، جو تنقید ہی کی ایک مختلف، مخلصف اور مضحکف شکل ہے۔میرے نزدیک مزاح، معاشرے کی گری پڑی جزئیات کو پلکوں سے اٹھا کے ہونٹوں پہ سجانے کا عمل ہے، جب کہ تنقید ادبی معاشرے کی گری پڑی بلکہ بعض اوقات پڑی پڑی جزئیات کو توڑنے، مروڑنے، جھنجوڑنے بلکہ کبھی کبھی تو خنجرکے ہونٹوں سے اٹھا کے مخالف یا معاشرے کے سینے میں گھونپنے کا عمل ہے۔ تنقید اور بیوی کو مَیں ایک ہی خانے میں رکھتا ہوں کہ دونوں ہی سمجھ میں نہیں آتیں۔ دونوں ایک ہی انداز میں تکلیف اور تسکین پہنچاتی ہیں۔ نازک مقامات پہ وار کرنے کی دونوں میں فطری صلاحیت پائی جاتی ہے۔ شوہر اور تخلیق کار عجب مخمصے میں رہتے ہیں کہ نہ ان کے ساتھ گزارا ہوتا ہے، نہ ان کے بغیر! ہم نے ملتان کی بابت کہیں لکھا تھا کہ یہ ایسا شہر ہے جو’م‘ سے شروع ہو کے ’ن‘ پہ ختم ہو جاتا ہے، بیچ میں لتا بچتی ہے، جس کی تان کبھی ختم ہونے میں نہیں آتی۔ لاہور سلطانوں کا شہر کہلاتا ہے، ملتان درویشوں کا۔ایک زمانہ تھا کہ لاہور ملتان کے مضافات میں شمار ہوتا تھا، وقت بدلا تو لاہور ملتان والوں کے لیے کشش کا باعث بنتا چلا گیا۔ سچ ہے کبھی درویشوں کی، کبھی سلطانوں کی۔ سیانوں کے بقول درویشی، سلطانی کی نسبت زیادہ اعلیٰ ظرف اور برداشت دار ہوتی ہے لیکن ایک بات آج تک ہماری سمجھ میں نہیں آئی کہ اہلِ علم و ادب میں جو بھی بشر اس سلطان نگر سے ملتان نگر (مراد جنوبی پنجاب) کی طرف گیا، اس نے شتاب لوٹ آنے ہی میں عافیت سمجھی۔ مثال کے طور پر ڈاکٹر خواجہ محمد زکریا، ڈاکٹر سلیم اختر، ڈاکٹر سلیم مظہر اور ڈاکٹر اقبال شاہد وغیرہ لیکن جو لوگ اس درویش نگری سے نکل کے لاہور آ گئے، انھوں نے دوبارہ واپس جانے کا سوچا بھی نہیں، جیسے اصغر ندیم سید، ڈاکٹر سلیم ملک، ڈاکٹر مختار عزمی، ڈاکٹر ضیا الحسن، ڈاکٹر اختر شمار، ڈاکٹر وحید الرحمن، ڈاکٹر خالد سنجرانی ، ڈاکٹر محمد کامران، گل نوخیز اختر اور آخری آوردہ ڈاکٹر نجیب جمال۔ ارشد نعیم نے اپنے طور پر اس گتھی کو سلجھانے کی کوشش کی تھی: نہ جانے شہر کی گلیوں میں کیسا جادو تھا کوئی بھی قیس نہیں دشت میں دوبارہ گیا اس کی ایک وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ ہماری بے خبری یا اپنی بے صبری میں دبستانِ سرگودھا کی طرح ملتان والوں نے بھی اندر کھاتے ایک اپنا ’دبستانِ ملتانیکر‘ ترتیب دے لیا ہو۔ بہرحال میرا مسئلہ (آپ اسے سُستی یا کمزوری وغیرہ بھی کہہ سکتے ہیں) یہ ہے کہ مَیں گزشتہ اڑتیس سال سے لاہور سے وابستگی کے باوجود کسی خاص ادبی قبیلے، گروہ یا مافیا کے ساتھ اپنا ’اخلاص‘ واضح نہیں کر سکا۔ گویا دریا میں رہتے ہوئے نہ صرف کسی اگر مگر مَچھ سے دوستی نہیں پال سکا بلکہ بعض لوگوں کے غیر مناسب رویوں کو دیکھ کے مجھے ڈاکٹر سجاد باقر رضوی یاد آجاتے ہیں، جنھوں نے کلاس لیکچر کے دوران کسی صحت مند حسینہ کو بے جا انداز میںہنستے دیکھ کر ڈانٹتے ہوئے کہا تھا:’ایڈیٹ! جانا ہوتا ہے فزیکل ایجوکیشن میں، آ جاتے ہیں لٹریچر پڑھنے۔‘ سچ پوچھیں ایسے ہی تُرش رویے اور پالتو گویے دیکھ کے ہمارا نوجوان ادب کی طرف بھاگنے کی بجائے، ادب ہی سے بھاگنے میں عافیت محسوس کر رہا ہے۔ یہ ڈاکٹر خاور کی عین نوازش ہے کہ انھوں نے میرے احساسات کو تقویت پہنچائی ہے۔ وہ بجا فرماتے ہیں کہ ہمارے ہاں ادبی حلقہ بندیاں، اپنے اپنے قبیلے کے کنویں کی صورت اختیار کر گئی ہیں۔ وہ اس سے باہر آنا چاہتے ہیں، نہ دوسروں کو پانی پیتے دیکھ سکتے ہیں۔ تنقید جتنی چاہے جدید یا معروضی ہو جائے، مَیں سمجھتا ہوں اس میں سے اِمکانات کو منہا نہیں کیا جا سکتا۔ ادب میں جیسی بھی کومٹ منٹ ہو، جیو اور جینے دو کی حدودکراس کرنا گناہ ہے۔ ممتاز مفتی کہا کرتے تھے کہ ادب میں پَلّو مار کے دیا نہیں بجھایا جاتا اَکھ نال گل کی جاتی ہے۔ پھر اس بات کا بھی خیال رہنا چاہیے کہ کوئی نظریہ آنکھ کا شہتیر نہ بننے پائے۔ اپنی بات کرتے ہوئے صرف زبان ہی نہیں آنکھیں اور کان بھی کھلے رکھنے چاہئیں۔ میرے نزدیک سب سے بڑی بات یہ کہ تعین کے عشق میں تخیل کی اہمیت کو کسی صورت نظر انداز نہ کیا جائے۔ اپنے اسی احساس کے پیشِ نظر مولانا محمد حسین آزاد، عبدالرحمن بجنوری، سلیم احمد، وارث علوی اور مشفق خواجہ کے نام آج بھی میرے دل پر رقم ہیں۔ کوئی انھیں لاکھ خیالی، جمالی یا لا اُبالی قرار دے، یہ مجھے اس لیے پسند ہیں کہ تخلیق کے شیرے سے بھرے ہوئے ہیں۔ میرا مسئلہ یہ ہے کہ مَیں ادب برائے ادب کو بارہ پتھر باہر کی کوئی چیز نہیں سمجھتا، ادب برائے زندگی کو بھی سر آنکھوں پر بٹھاتا ہوں، پاپولر ادب بھی میری آنکھ کا تارا رہا ہے، ہاں علامتی ادب اگر ’چیستاں‘ کی حدود میں داخل ہونے لگے تو ناقابلِ برداشت ہے۔ ادبی اصناف میں بھی داستان کو فکشن قبیلے کی ماں اور سائنس کی سگی خالہ سمجھتا ہوں۔ غزل کو کوئی لاکھ گالیاں دے، ہمیشہ سر آنکھوں پر بٹھاتا ہوں کہ اس میں کسی نہ کسی مسیحا کے مصلوب ہونے کا ہمیشہ اِمکان موجود رہتا ہے۔ یہ دونوں اصناف تو ادب کے ماتھے کا زیور ہیں۔ میرے خیال میں ادب تعمیری یا تخریبی ہی نہیں، تفریحی اور تہذیبی بھی ہوتا ہے۔ جو قلم کار دوسرے کا موقف سن کے کم ظرفی یا سہ حرفی پہ اُتر آئے، اسے ادب کی بجائے سیاست، صحافت یا کسی تیسری کھونٹ کی طرف رجوع کرنا چاہیے کیونکہ ادیب اعلیٰ ظرف پہلے، تعمیری، تسکینی بعد میں ہوتا ہے۔ ڈاکٹر ناصر عباس نیئر مجھے سمجھ میں آئے نہ آئے اس لیے اچھا لگتا ہے کہ ہمیشہ انوکھے انداز میں نئی اور دلچسپ بات کرتا ہے۔ ڈاکٹر خاور نوازش کی ’موقف کی تلاش‘ مجھے اس لیے بھی مرغوب ہوئی کہ اس میں انھوں نے ماضی میں در آنے والے تمام رُجحانات کو ذہن میں رکھتے ہوئے، ادب کے مختلف پہلوؤں اور رویوں پر اپنے فراخ دلانہ نظریات و احساسات کا اس طرح اظہار کیا ہے کہ وہ کسی کے راستے میں کھڑے نہیں ہوئے۔ انھوں نے ادیب اور نقاد کے لیے سوچنے، سمجھنے کے کئی نادر دَر وا کیے۔ مقامیت سے گلوبلائزیشن تک، مذہب سے کلچر تک، انگریزی سے اسلامی تک، غزل سے نظم تک، لسانی تناظر سے ادبی نظریے تک، شفاف ذہنیت اور عفاف مقاصد کے ساتھ بات کی ہے۔ انھوں نے روا روی یا گہری روایت پرستی کی بنا پر نظر انداز ہو جانے والے گوشوں پر بھی نہایت اچھوتے انداز میں بات کی ہے۔ زبان کی ندرت اور اسلوب کا تخلیقی پن اس کتاب کی اضافی خوبی ہے۔ یاد رہے کہ خیالات کا تقدس اور اظہار کا بانکپن قدرت کی خاص عطا ہوتے ہیں۔ میرے خیال میں ڈاکٹر خاور نوازش، ہمارے عہد کے ایک بڑے نقاد ہیں اور وہ ایک بڑے شاعر شاہین عباس کی زبان میں برملا اس بات کا اظہار کر سکتے ہیں: لوحِ خاک ایسی میرے سامنے رکھ دی تُو نے مَیں جو موقف نہیں لکھتا تو یہ خالی رہتی!