Read Urdu Columns Online

Driving Aik Ahm Zimadari Hum Ne Issy Mazaq Samjh Lia Hai By Nasim Shahid

ڈرائیونگ ایک ذمہ داری، ہم نے اسے مذاق سمجھ لیا ہے

رات کا تقریباً ایک بج چکا تھا ہم لاہور سے ملتان کے لئے موٹروے پر سفر کر رہے تھے، میں کار کی فرنٹ سیٹ پر بیٹھا تھا، ڈرائیور شکیل120کی رفتار سے گاڑی چلا رہا تھا، مجھے نیند کے جھونکے آنے لگے،کیونکہ پچھلی رات بھی سفر کر کے لاہور پہنچا تھا اور دن بھر تقریبات میں مصروف رہنے کے بعد رات گئے لاہور سے ملتان کی طرف رخت ِ سفر باندھا تھا،جونہی مجھے نیند کا جھونکا آتا، میں ہڑ بڑا کر اُٹھ جاتا۔میرے اندر ایک خوف کی لہر ہوتی،یہ سوچ کر خدشات میں مبتلا ہو جاتا کہ اگر میری طرح ڈرائیور شکیل کو بھی نیند آ گئی تو کیا ہو گا،اتنی تیز رفتاری سے گاڑی چل رہی ہے، ڈرائیور کنٹرول ختم ہوا تو کیا بنے گا۔ میں نے شکیل سے اپنے اس خدشے کا اظہار کیا۔وہ ہنسا اور کہنے لگا سر بے فکر ہو جائیں مجھے نیند نہیں آئے گی، ملتان تو صرف چار گھنٹے کی مسافت پر ہے، آپ مجھے کراچی لے جانے کا کہیں تو حفاظت سے لے جاؤں گا۔ میں نے کہا تم تو کل رات سے میرے ساتھ ہو، نیند تم نے بھی اتنی ہی پوری کی ہے، جتنی میں نے کی،بلکہ تم تو صبح مجھ سے پہلے اُٹھ گئے تھے، پھر تمہیں نیند کیوں نہیں آ سکتی۔ کہنے لگا ڈرائیورنگ ایک ذمہ داری ہے۔ مضبوط اعصاب مانگتی ہے، مضبوط اعصاب اس لئے بھی ضروری ہیں کہ سڑک پر آپ غصہ نہیں کر سکتے،کیونکہ جونہی آپ نے غصہ کیا اعصاب بکھر جائیں گے اور گاڑی پر کنٹرول ختم ہو جائے گا۔میں لاشعوری طور پر شاید اُس سے باتیں کرنا چاہتا تھا تاکہ اس خوف سے نکل سکوں کہ اُسے کہیں نیند نہ آ جائے۔ میں نے کہا یہ سامنے سے آنے والی گاڑیاں اگرچہ سڑک کی دوسری طرف سے گذر رہی ہیں تاہم اُن کی ہیڈ لائٹس آنکھوں میں پڑتی ہیں اور سامنے دیکھنا ناممکن ہو جاتا ہے اُس نے کہا ایسا ہی ہے، مگر اچھا ڈرائیور وہ ہوتا ہے جو اُن لائٹس کی طرف توجہ نہیں دیتا بلکہ سڑک پر لگی ہوئی سفید لائن اور ڈیوائیڈر کے اوپر لگے ریفلیکٹرز پر نظر رکھتا ہے۔ میں نے دیکھا شکیل اوور ٹیک کرتے ہوئے انڈیکیٹر اور اپنی لائن کا بہت خیال رکھ رہا ہے، میں نے اُس سے پوچھا، موٹروے پر سب کچھ کھلا کھلا اور ایک ترتیب سے موجود ہے۔اگر ہم اس ترتیب کے مطابق سفر کریں تو کوئی حادثہ نہیں ہو سکتا،پھر موٹروے پر حادثات کیوں ہوتے ہیں؟اِس سے پہلے کہ وہ جواب دیتا اُس نے پیچھے سے آنے والی ایک کار کو راستہ دیا، اپنی لائن میں رہا، وہ گاڑی دائیں طرف سے اوور ٹیک کرتی ہوئی دور تک اُس لائن میں جانے کی بجائے فوراً ہی دوسری لائن میں آ گئی۔ شکیل نے کہا دیکھیں سر حادثات کی ایک بڑی وجہ یہ بھی ہوتی ہے۔ وہ بجائے ایک دو کلو میٹر بعد دوبارہ دوسری لائن میں آتا فوراً آ گیا، اگر اِس دوران اُس کی کسی وجہ سے رفتار کم ہو جاتی تو پیچھے سے آنے والی گاڑی اُس سے ٹکرا جاتی،اُس نے کہا موٹروے پر حادثہ سوائے ڈرائیور کی غلطی کے اور کسی وجہ سے ہو ہی نہیں سکتا، مجھے اُس کی باتیں سُن کر تسلی ہوئی کہ میں ایک اچھے ڈرائیور کے ساتھ سفر کر رہا ہوں۔

مگر میرے اطمینان سے کیا ہوتا ہے یہاں تو روزانہ ایسی جانکاہ خبریں آتی ہیں،جو سڑکوں کو قتل گاہیں ثابت کرتی ہیں۔ کوئی دن بھی نہیں جاتا جب جانوں کے ضیاع کی ایک لمبی فہرست سامنے نہ آئی ہو،بعض حادثات اس لئے بھی دُکھ زیادہ دے جاتے ہیں کہ اُن میں زندگی کے سے محروم ہونے والے ایسے لوگ ہوتے ہیں،جن سے ہر شخص کا غائبانہ  تعلق  ہوتا ہے اور محبت کی ایک صورت نکلتی ہے۔ جامشورو سے کراچی جاتے ہوئے بھی ایک ایسے ہی حادثے میں، 15سالہ معروف نعت اور منقبت خواں خواجہ علی کاظم، اپنے دو اور منقبت خوانوں سید جان رضوی اور زین ترابی کے ہمراہ حادثے کا شکار ہو گئے۔ سید خواجہ علی کاظم نے جس طرح کم عمری میں عالمی شہرت    حاصل کی،وہ پاکستان کا اثاثہ تھے۔ اُن کی اچانک موت نے سبھی کو دُکھی کر دیا۔ حادثہ کیسے پیش آیا، اُس کی تفصیل تو سامنے نہیں آئی، تاہم کار کی حالت دیکھ کر بخوبی اندازہ ہوتا ہے کہیں نہ کہیں، کسی نہ کسی سے شدید غلطی یا کوتاہی ہوئی جو اس حادثے کا باعث بن گئی، حادثات کو اللہ کی رضا سمجھ کے قبول کرنا ایک بڑی ڈھارس کا ذریعہ تو ہے،لیکن ہمیں یہ بھی یاد رکھنا چاہئے کہ خود اللہ نے اپنی جان کی حفاظت کرنے کا کہا ہے اور خود کشی کو حرام قرار دیا ہے۔ہائی وے اور موٹروے پر روزانہ لاکھوں گاڑیاں چلتی ہیں۔اُن سب میں  سے اکثر منزل پر پہنچ جاتی ہیں،مگر کچھ بدقسمت ہوتی ہیں جو اپنے مسافروں کے لئے موت کا پروانہ بن جاتی ہیں۔ ریسکیو والوں کے اعداد و شمار دیکھیں تو دِل پر چھری سی چلتی ہو۔ہزاروں حادثات ہر سال روزانہ ہوتے ہیں اور ہزاروں اموات ہو جاتی ہیں۔غلطی کس  کی ہوتی ہے اس بارے میں کبھی تحقیق نہیں کی جاتی۔دنیا میں حادثات کی اتنی شرح نہیں، جتنی ہمارے ہاں ہے۔تکلیف دہ بات یہ ہے حادثات کی شرح بڑھتی جا رہی ہے اُس میں کمی نہیں آ رہی۔

ایسا نہیں کہ حادثات صرف موٹروے پر ہو رہے ہیں۔ بڑے شہروں کے اندر ٹریفک ایک مستقل سر درد تو ہے ہی تاہم حادثات میں بھی کوئی کمی نہیں آ رہی، ملتان میں ایک حادثہ ہوا، جس میں ڈیرہ غازی خان کے چھ افراد جان کی باز ہار گئے یہ حادثہ ایک بارونق علاقے میں ہوا،جہاں ٹریفک موٹروے کی طرح 120 کی رفتار سے نہیں چلتی، اس کے باوجود وہاں جان لیوا حادثات ہوتے ہیں جو دنیا چھوڑ جاتے ہیں اُن کی تکلیفیں تو ختم ہو جاتی ہیں تاہم جو لوگ ان اوقات میں زخمی ہوتے ہیں، اپاہج ہو جاتے ہیں یا کسی عضو سے محروم ہو جاتے ہیں وہ ایک زندہ لاش بن جاتے ہیں،اُن کی دیکھ بھال اور علاج کے لئے لاکھوں روپے خرچ کرنے پڑتے ہیں اور دُکھ کی کہانیاں علیحدہ جنم لیتی ہیں۔ پاکستان میں ٹریفک قوانین کی خلاف ورزی پر جرمانے بھی بڑھائے گئے ہیں، قانون بھی سخت کیے گئے ہیں، مگر لگتا ہے ڈرائیوروں میں تربیت کی کمی ہے یا قانون کا خوف نہیں ہے۔ پبلک ٹرانسپورٹ حادثات میں سب سے زیادہ حصہ ڈالتی ہے۔ انفرادی حادثے میں ایک دو جانیں جاتی ہیں،لیکن پبلک ٹرانسپورٹ کی گاڑیاں درجنوں افراد کو موت کے منہ میں دھکیلتی ہیں۔میرے نزدیک حکومتی سطح پر ایک ٹاسک فورس بنائی جانی چاہئے جو اس موضوع پر اپنی تجاویز اور مشاورت مرتب کرے۔ جب تک اس مسئلے کا باریک نظری سے حل تلاش نہیں کیا جاتا،یہ مسئلہ موجود رہے گا اور ہر سال حادثات میں  انسانی جانیں ضائع ہوتی رہیں گی۔صرف ڈرائیورنگ لائسنس دینا ہی کافی نہیں، پبلک ٹرانسپورٹ کی گاڑیوں کے ڈرائیوروں کا ہر سال جانی اور نفسیاتی ٹیسٹ بھی ضروری ہے، تاکہ سڑکوں پر درندے نہ پھریں انسان نظر آئیں۔

Check Also

Urdu Columns Today

Bharat Per Nawazshat

بھارت پر نوازشات امریکہ میں جب ڈونلڈ ٹرمپ اور بھارتی وزیراعظم نریندر مودی یہ کہہ …

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *