فتنہ الخوارج
علوم اسلامیہ کے محققین کے مطابق “ہر وہ شخص جو اہل سنت والجماعت کے خلاف خروج کرے یعنی بغاوت، غداری اور قتل و غارت کو مسلم اکثریت کے خلاف شیوہ بنا ل،یہ خروج صحابہ کرام کے زمانے میں خلفاء راشدین کے خلاف ہو، تابعین کے خلاف ہو، کسی بھی زمانے کے آئمہ کے خلاف ہو یا حقیقی مسلمان حکومت کے خلاف ہو، اسکا شمار خوارج میں ہو گا اور ایسے گروہ کو فتنہ الخوارج اور اس کے مقلدین کو خارجی کہا جائے گا” بعض اسلامی روایات کے مطابق خوارج کی ابتدا دور نبوی میں ہی ہو گئی تھی ان کا جد امجد ذوالخویصرہ تمیمی تھا جس نے آقائے دو جہاں کے ساتھ گستاخانہ لب و لہجہ اختیار کیا تو آپ نے اس کو سخت وعید سناتے ہوئے محفل سے نکلنے کا حکم دیا جب وہ بے ادبی سے پشت پیچھے کیے ہوئے جا رہا تھا تو آپ نے ارشاد فرمایا ” اس کی پشت سے اس طرح گمراہ دین نکلیں گے جیسے تیر شکار سے پار نکل جاتا ہے” یہ گروہ اپنی عسکری طاقت کے بل بوتے پر جنگ صفین کے موقع پر نمودار ہوا یہ لوگ حضرت علی کی فوج سے اس بنا پر الگ ہو گئے کہ انہوں نے حضرت امیر معاویہ کی ثالثی کی تجویز قبول کر لی تھی خارجیوں کے مطابق حضرت علی نے امیر معاویہ سے جو معاہدہ کیا ہے اس کے بعد وہ اب امیرالمومنین نہیں رہے ہیں۔ خارجیوں کا نعرہ تھا کہ حاکمیت اللہ کی ہے ان کا عقیدہ تھا کہ دینی معاملات میں انسان کو حاکم بنانا کفر ہے اور جو لوگ ایسے فیصلوں کو تسلیم کرتے ہیں وہ واجب القتل ہیں حیران کن بات یہ ہے کہ یہ لوگ بہت زیادہ عبادت گزار اور صوم و صلوۃ کے پاپند تھے مگر عملی زندگی میں بہت زیادہ متشدد اور کسی قسم کی غلطی پر معاف کرنا ان کی لغت میں نہیں تھا ان کے عقائد کی خلاف ورزی کی سزا موت تھی چاہے کوئی ان سے وابستہ ہی کیوں نہ ہو جنگ نروان کے موقع پر ان کی تعداد بارہ ہزار کے قریب تھی حضرت علی نے ان کو شکست فاش دی مگر خود ایک خارجی ابن ملجم کے ہاتھوں دوران سجدہ شہید ہو گئے امیر معاویہ سے لے کر عباسی خلافت تک ان کی حکومتوں کے خلاف جنگیں جاری رہیں اور انہوں نے حسن بن صباح کے زمانے میں گوریلا طرز کی لڑائیاں شروع کر دیں انہوں نے بڑے بڑے مسلم رہنماؤں کو گھات لگا کر قتل کیا، یہ کسی بھی علاقے میں تیزی سے یلغار کرتے نہتے شہریوں کو ھلاک کرتے اور اس کے بعد تیزی سے غائب ہو جاتے آج القاعدہ، داعش اور طالبان انہی خارجیوں کی طرح خود کش حملے کرتے ہیں اور اپنے علاوہ تمام مسلمانوں کو واجب القتل قرار دیتے ہیں مگر یہ ماضی کے خوارج کی طرح سخت مذہبی عقائد نہیں رکھتے ہیں محض دکھاوے کے لیے ظاہری حلیہ قبائلی طرز اسلام کی مانند رکھتے ہیں مگر اپنے معاشی، سیاسی اور جاہ پرستی کے لیے آپس میں بھی برسر پیکار رہتے ہیں چند ماہ بیشتر ریاست پاکستان نے ایک نوٹیفکیشن کے ذریعے تحریک طالبان کے حامیوں کو فتنہ الخوارج قرار دیتے ہوئے پاپند کیا کہ اس تنظیم کو میڈیا میں اس نام سے لکھا اور پکارا جائے وزارت داخلہ کے مطابق “اس تبدیلی کا مقصد ٹی ٹی پی کی اصل فطرت اور نظریات کی عکاسی کرنا ہے” مگر حقیقت یہ ہے کہ عام پاکستانیوں کی اکثریت اس اصطلاح کے پس منظر سے زیادہ واقفیت نہیں رکھتی ہے اب یہاں ایک مخمصہ یہ ہے کہ پاکستان میں مغربی جمہوریت کے ماڈل میں سربراہ مملکت پوری قوم کا متفقہ سربراہ نہیں ہوتا ہے بلکہ اکثر اوقات تو وہ اقلیتی ووٹوں، دھاندلی یا جبر سے اقتدار پر قابض ہو جاتا ہے لہذا ایسی سیکولر حکومت کے خلاف اگر کوئی گروہ ہتھیار اٹھاتا ہے تو وہ باغی ہے گر ع جو چاہے آپ کا حسن کرشمہ ساز کرے جنرل عاصم منیر کی اس بات سے آج کون اختلاف کر ے گا، جب کہ ماضی میں ریاستی اور غیر ریاستی سطح پر طالبان کی قتل و غارت کو جہاد قرار دینے والے آج بھی زندہ ہیں اور ان کی نسلوں کو جہاد افغانستان نے مالا مال کر دیا___”پاکستانی فوج فتنہ الخوارج کے ساتھ جنگ کر رہے ہیں جو سمجھتے ہیں کہ وہ جہاد کر رہے ہیں یہ ان کی اپنی خود ساختہ تشریح ہے جو دین اسلام میں جائز نہیں ہے اور نہ ہی اس کی اجازت ہے کہ کوئی گروہ اسلام کے نام پر زمین پر فساد برپا کرے ” 1980 کی دہائی میں سویت یونین کی افغانستان سے واپسی اور اس کے بعد امریکی فوجوں کے افغانستان سے انخلاء کے بعد ہمارے پاکستانیوں کی اکثریت کے خیال میں پاکستان کی تزویراتی گہرائی کا نظریہ پایہ تکمیل تک پہنچ گیا ہے اور اب برے طالبان بھی اچھے طالبان بن جائیں گے مگر اب ریاست کو معلوم ہوا ہے کہ وہ تو ایک ہی تھالی کے چٹے بٹے ہیں اور فتنہ الخوارج ہیں جو افغانستان اور پاکستان کے مغربی سرحدی علاقوں میں اپنے سیاسی اور معاشی مفادات کو پورا کرنے کے لیے تھیو کریٹک ریاست بنانے کے خواہاں ہیں انہیں بھارت سمیت پاکستان مخالف قوتوں کی مکمل حمایت ہے وہیں سے انہیں فنڈنگ، اسلحہ اور تربیت ملتی ہے کاش اس حقیقت کا ادراک ہماری مذہبی جماعتوں کو اس وقت ہو جاتا جب وہ ضیاء الحق کی قیادت میں اسلامی انقلاب سنٹرل ایشیا کی ریاستوں میں ایکسپورٹ کرنے اور دہلی پر سبز پرچم لہرانے کے نعرے لگا رہے تھے چلیں دیر آید درست آید مگر جب ملک مغربی اور مشرقی سرحد پر پاکستان کی سالمیت کی جنگ لڑ رہا ہے تو داخلی سیاسی استحکام کے لیے تمام سیاسی جماعتوں اور عوام کو ایک پیج پہ نہیں ہونا چاہیے کیا یہ ممکن ہے کہ ہم پوری قوم کی مدد کے بغیر فتنہ الخوارج کا خاتمہ کر سکیں گے؟ یہ وہ اہم سوال ہے جس پر ہماری حکومت، اسٹیبلشمنٹ، مذہبی اور سیاسی جماعتوں کے علاوہ دانشوروں کو بھی غور کرنا ہے کہ کس طرح ہم پوری دنیا کو بتائیں کہ اسلام میں جہاد کا تصور محض فوجی جنگ و جدل نہیں ہے بلکہ اس کے اصل معنے جدوجہد کرنے کے ہیں اسلام کی تاریخ گواہ ہے کہ جہاد کی اصطلاح کے دو مختلف پہلو ہیں اول باطنی جہاد یعنی ایک بہتر انسان بننے کے لیے خود پسندی، ضد، انا اور اپنے آپ کو ہی درست سمجھتے ہوئے دوسروں کی حق تلفی سے اجتناب کرنا ہے ۔یہ جہاد اکبر ہے اور دوسرا جہاد اپنے دفاع کے لیے لڑائی لڑنا ہے جب کوئی دشمن جارحیت کرتے ہوئے آپ کی جان، مال اور آبرو کے درپے ہو ہمارے رب اور رسول پاک نے ہمیشہ پرتشدد حل پر غیر متشدد حل کو فوقیت دی ہے ایک غزوہ سے نبی کریم محمد صل اللہ علیہ والہ سلام گھر لوٹے تو فرمایا “اب ہم جہاد اصغر سے جہاد اکبر کی طرف لوٹنے والے ہیں” بدقسمتی سے ہمارے ہاں جہاد کی اصطلاح کے بارے میں پائی جانے والی غلط فہمیوں کی وجہ سے دہشت گرد اپنے مجرمانہ افعال کو جہاد کا نام دے کر سادہ لوح مسلمانوں کو گمراہ کرتے ہیں عجب تماشا ہے مسلمان کہلانے والے دوسرے مسلمان بھائیوں کو ہلاک کرتے ہوئے نعرہ تکبیر بلند کرتے ہیں جب آپ طاقت کے زور پر اپنے مقاصد کے لیے دوسروں پر ظلم وستم کرتے ہیں اختلافی آوازوں کو جبر سے دباتے ہیں تو معاشرے میں گھٹن کا ایسا ماحول پیدا ہوتا ہے کہ بہت سارے نوجوان تمام راستے بند ہونے پر خارجیوں کے ہمنوا بن جاتے ہیں جسکی وجہ سے پچاس برس گزرنے کے بعد اور پاکستانی معاشرے کا سوشل فیبرک تہس نہس ہونے کے باوجود آج تک یہ عفریت ختم نہیں ہو پا رہا ہے ہے یہ ایک ایسا قومی المیہ جس کے حل کے لیے قومی سطح متفقہ لائحہ عمل طے کر نا ناگزیر امر ہے۔