Read Urdu Columns Online

Gardan Churra Dijiye

’’ گردن چھڑا دیجئے ‘‘

رات کوئی ایک بجے کا وقت ہو گا کہ راوی پار لاہور شہر سے ملحقہ ایک چھوٹی سی آبادی میں واقع تین مرلے کے گھر میں رہنے والی تین ماہ کی حاملہ خاتون کے پیٹ میں اس قدر شدید درد اٹھا، لگتا تھا خاتون تڑپ تڑپ کر یہیں جان دے دی گی۔ اس گھر میں صرف ایک مرد تھا لیکن وہ نہ تو خود اٹھ سکتا تھا اور نہ ہی چل سکتا تھا ۔ دوماہ ہوئے ایک ہولناک حادثے میں اس کی یاد داشت اور پسلیوں سمیت ٹانگیں بری طرح ٹوٹ چکی تھیں۔ یہ خاندان جو پانچ خواتین اور دو معصوم بچوں پر مشتمل ہے اس رات اس فیملی کے پاس تین سو روپے کے علا وہ اور کچھ بھی نہ تھا ۔بد قسمتی کہہ لیجئے کہ انہیں1122 کا یاتو علم نہیں تھا یا وہ طریقہ نہیں جانتے تھے کیونکہ ان میں سے کوئی ایک بھی تعلیم یافتہ نہیں۔ اب یہ فیملی ایک ہمسائے کی سائیکل پر رات ڈیڑھ بجے فیض پور انٹرچینج پہنچی اور وہاں سے ایک موٹر سائیکل رکشے میں پھولوں والی مارکیٹ کے قریب کسی کے بتانے پر ایک ہسپتال چلے گئے( اب اس نجی کلینک کا نام لکھنا ممکن نہیں ہے) درد کی شدت سے خاتون کی چیخیں اب رکنے کا نام نہیں لے رہی تھیں۔ جیسے ہی پھلاں والی مارکیٹ کے قریب واقع اس نجی ہسپتال پہنچے تو لیڈی ڈاکٹر نے بتایا کہ اسے’’ اپینڈیکس‘‘ ہے اور اگر کچھ دیر تک اس کا آپریشن نہ ہوا تو پھٹنے سے اس کی موت واقع ہو سکتی ہے اور ساتھ ہی کہا کہ خون اور اس کے آپریشن کیلئے فوری طور پر60 ہزار جمع کرا دیں اور جب اس خاتون کو آپریشن تھیٹر لے جا رہے تھے تو پتہ چلا کہ تین ماہ کی حاملہ اس خاتون کو بلیڈنگ ہو رہی ہے ۔اب کہا گیا کہ اگر بلیڈنگ نہ رکی تو ڈی این سی کی جائے گی انہیں کہا گیا کہ جب تک آپریشن اور ادویات کے پیسے جمع نہیں کرائے جائیں گے اس کا آپریشن نہیں ہو گا اور اس خاتون کو آپریشن تھیٹر سے باہر سٹریچر پر ڈال دیا گیا۔ ان کی جیب میں ایک پیسہ نہیں۔ ان سب کے رونے اور ترلے منتیں کرنے پروہاں ایک رحم دل شخص نے کہا کہ آپ اپینڈیکس کا فوری آپریشن کریں اگر یہ ادا نہ کر سکے تو اس کی ذمہ داری میں لیتا ہوں ۔یہ شخص اپنی ماں کے علاج کیلئے وہاں آیا ہوا تھا اور اس نے پیسے جمع کرا رکھے تھے ۔اس کی موٹر سائیکل پر کسی نہ کسی طرح اس خاتون کی ماں واپس گھر پہنچی اور رات دو بجے کے قریب ایک گھر جہاں سود پر پیسے ملتے ہیں ان سے ایک ہزار کے پیچھے تین سو روپے سود کے حساب سے ایک لاکھ پچیس ہزار روپے لے کر ہسپتال پہنچی صبح تک اس کے دونوں آپریشن ہو چکے تھے۔ تین دن بعد اسے اس ہسپتال سے فارغ کر دیا گیا ۔اب اس گھرانے کے پاس پہلے ہی کچھ نہیں تھا اوپر سے سود کی تلوار ان کی گردن پر الگ ہے۔ اس خاتون کی بیٹیاں جوان ہیں اور اورسود خور عورت اس گھر کو نہ جانے کن نظروں سے تاڑے بیٹھی ہے کہ صبح شام ڈیرہ جمائے رہتی ہے۔ اگر یہ لکھنے بیٹھ جائیں کہ اب تک کتنی مائیں، بیٹیاں،اورسہاگنیں اس سود در سودکی بھینٹ چڑھ چکی ہیں تو کئی صفحات لگ جائیں۔پاکستان کی ہر گلی میں سود در سود کے آدم خوروں سے ڈسے لاکھوں لوگ منہ چھپائے اندر ہی اندر شرم سے مر تے جا رہے ہیں۔ سودی کاروبار ، سود کھانے والوں کیلئے اﷲ کی طرف سے قران پاک میںان الفاظ میں لعنت ہے’’ وہ جو سود کھاتے ہیں قیامت کے دن نہ کھڑے ہوں گے جیسے کھڑا ہوا جاتا ہے وہ ایسے جیسے آسیب نے چھو کر مخبوط بنا دیا ہو( سورۃ البقرہ)۔۔اﷲہلاک کرتا ہے سود کو اور بڑھاتا ہے خیرات کو(سورۃ البقرہ)۔ ادھار میں زیادتی سود ہے(صحیح مسلم)امام رازی لکھتے ہیں زمانہ جاہلیت میں لوگ اس شرط پر قرض دیتے تھے کہ وہ اس کے عوض ہر ماہ یا ہر سال ایک معین رقم لیا کریں گے اور اصل رقم مقروض کے ذمہ باقی رہے گی، مدت پوری ہونے کے بعد قرض خواہ مقروض سے اصل رقم کا مطالبہ کرتا اور اگر مقروض اصل رقم ادا نہ کر سکتا تو قرض خواہ مدت اور سود دونوں میں اضافہ کر دیتا۔ یہ وہ ’’ربا‘‘ اور آج کا سود ہے جو زمانہ جاہلیت میں رائج تھا۔ لوگوں کی نسلیں اس سود در سود کے عوض گروی پڑی ہوئی ہیں۔ اگر کسی پچیس تیس ہزار ماہوار کمانے والے غریب یا بے روزگار نے دس ہزار قرض لیا ہے تو اسے تین ہزار ماہانہ سود ادا کرنا پڑتا ہے اور اصل قرض اسی طرح قائم رہتی ہے بلکہ کسی ماہ ادائیگی نہ کرنے سے یہ رقم سود در سود کے حساب سے اور بڑھ جاتی ہے اور پھر یہ بڑھتی ہی رہتی ہے۔ سود در سود سے کئی خاندان بلکہ ان کے بعد میں پیدا ہونے والی بچے بھی گروی رکھے جاتے ہیں ۔ کچھ سال قبل مجھے سندھ کے کچھ دیہی علا قوں میں جانے کا اتفاق ہوا تو یہ جان کر میں کانپ اٹھا کہ سینکڑوں کے حساب سے مسلمانوں کی بیٹیاں سود کی ادائیگی کے جرم میں ہندو اور مسلمان وڈیروں اور خاصہ داروں کے ہاں گروی ہیں اور یہ سچائی میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھی۔ ان کے والدین سے جب پوچھا تو وہ یہ کہنے لگے کہ ’’با با ہم اپنا سب پیسہ ان لوگوں کو دے چکا لیکن یہ لوگ بولتا ہے کہ ابھی اور با قی ہے ۔ انشا اللہ رمضان کی آمد اور زکواۃ ادا کرنے والوں کو رب کریم ضرور اس گھر کی پھنسی ہوئی گردن کی طرف متوجہ کرے گا۔ قران پاک میں اﷲسبحان تعالیٰ ان الفاظ میں اپنے بندوں سے مخاطب ہیں ’’اور تو نے کیا جانا کہ وہ گھاٹی کیا ہے، کسی بندے کی گردن چھڑانا، بھوک کے وقت کھانا دینا، رشتہ دار یتیم کو یا خاک نشین کی گردن چھڑانے سے مراد قرض معاف کرانا ہے یا کسی مقروض کا قرض ادا کرنا ہے ( سورہ البلد) کیا اللہ پاک اور اس کے نبی کے احکامات کا لحاظ کرتے ہوئے کوئی تو ہو گا جو اس خاندان پر لدے ہوئے سوددر سود کے طوق سے ان کی گردن چھڑا دے؟

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *