Read Urdu Columns Online

Ghair Tarqiyati Ikhrajat By Ali Ahmad Dhillon

غیر ترقیاتی اخراجات

’’کھاندااے تے لاندا وی اے‘ والی پالیسی اب نہیں چلے گی، ہمیں اب صحیح اور غلط کی سمجھ آچکی ہے… گرین فلاں، سرسبز فلاں یا خوشحال پنجاب یاخوشحال یہ وہ،،، جیسے اشتہارات سے معافی دیں اور ہمارے حالات پر رحم کھائیں‘‘ یہ الفاظ لاہور کے ایف سی کالج کی ایک طالبہ کے ہیں، جس نے ایک فورم میں اپنے خیالات کا اظہار کیا۔ یہ باتیں واقعی دل موہ لینے والی ہیں،،،خوشی اس بات کی ہوئی کہ نوجوانوں کی سوچ یکسر بدل گئی ہے،،، اور اب کبھی بھی الیکشن ہوئے تو نتیجہ ایک بار پھر وہی 8فروری والا ہی آئے گا ،،، لیکن اُس کے بعد کیا ہوگا کچھ علم نہیں ! خیر آج کا موضوع ان دو بے ضمیر خبروں پر ہے کہ ایک تو وفاقی کابینہ میں اضافہ دوگنا کردیا گیا ہے، اور دوسرا پنجاب حکومت نے ’’ضمیمہ ‘‘ شائع کیا ہے، جس میں انہوں نے اپنی کارکردگی کھول کر بتائی ہے۔ اب ان دونوں خبروں کا تعلق حکومتی نام نہاد کفایت شعاری کے بالکل برعکس ہے! ویسے ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ ان مشکل حالات میں حکومت کفایت شعاری کا خود بھی پرچار کرتی، سرکاری محکموں کو بھی آرڈرز کرتی اور ساتھ اس حوالے سے عوامی مہم شروع کرتی۔ لیکن پہلے وفاقی اور پنجاب اسمبلی کے اراکین کی تنخواہوں میں 5سے دس گنا اضافہ کرکے سالانہ کھربوں روپے کے غیر ضروری اخراجات میں اضافہ کیا گیا، پھر 25نئے وفاقی وزراء ، مشراء کی تعداد میںا ضافہ کرکے غریب کے پیٹ پر ایک بار پھر لات مار دی ہے،،، حالانکہ ان نئے شامل ہونے والے وفاقی وزراء و دیگر کو آپ خود دیکھ لیں کہ ان کی ماضی کی قابلیت کیا رہی ہیـ؟ جیسے وزیر اعظم کے3مشیرتوقیر شاہ،پرویز خٹک، محمد علی جبکہ چار معاونین خصوصی ہارون اختر، حذ یفہ رحمن‘ مبارک زیب اور طلحہ ہیں۔ جبکہ 12 وفاقی وزراء میں سردار محمد یوسف ، محمد حنیف عباسی ، معین وٹو،مصطفیٰ کمال، اورنگزیب کچھی، رانا مبشر، رضا حیات ہراج، طارق فضل چوہدری، علی پرویز ملک،شزا فاطمہ،جنید انور اور خالد مگسی ہیں۔اب ان نئے وزراء و دیگر میں بتایا جائے کہ ایسا کونساوزیر وغیرہ ہے جس کے بغیر کابینہ نہیں چل سکتی تھی؟ لیکن انہوں نے ایک دوسرے کو اُٹھانے کے لیے اتحادیوں کو خوش کرنے کے لیے اور اپنی حکومت کو طول دینے کے لیے ایسا کرنا ہی تھا۔ بلکہ ابھی تو شکر کریں کہ پیپلزپارٹی وزارتوں کے لیے نہیں مان رہی وگرنہ 15سے 20وزارتیں اُن کی بھی نکالنا پڑیں گی اور پھر یہ تعداد سنچری کو جا پہنچے گی۔ بہرحال ملک اس وقت اس قدر شدید بحرانوں سے دوچار ہے کہ سمجھ سے باہر ہے کہ ہم اگلے 20برسوں میں بھی ان سے نکل پائیں گے یا نہیں؟ اوپر سے غیر ترقیاتی اخراجات بڑھتے ہی جا رہے ہیں لیکن کوئی سوچ سکتا ہے کہ ہم خرچتے کیسے ہیں،،، دل خون کے آنسو رو رہا ہے کہ بجائے اس کے کہ حکومت اخراجات میں کمی کرے ،،، اس کے برعکس ، کبھی یہ اراکین اسمبلی کی پانچ سے دس گنا تنخواہوں اور مراعات میں اضافہ کر دیتے ہیں،کبھی یہ غیر ضروری فنڈز کا اجراء کرکے اتحادیوں کو خوش کرتے ہیں،،، تو کبھی یہ کابینہ کے وزراء ، مشیروں اور دیگر میں اضافہ کرکے ملکی خزانے کا بوجھ بڑھا دیتے ہیں۔ اور بدلے میں یہ ڈلیور کیا کرتے ہیں؟ 26ویں غیر قانونی آئینی ترامیم ؟ یا ان کو اُس چیز کے ثمرات مل رہے ہیں کہ انہوں نے موجودہ حکومت کو طول دینے میں اہم کردار ادا کیا ہے،،، یا انہوں نے من پسند ججز کی تعیناتی میں کردار ادا کیا ہے،،، گزشتہ روز دی اکانومسٹ کی رپورٹ پڑھ لیں،،، جس کے مطابق یوگنڈہ جمہوری اقدار کے حوالے سے 96ویں نمبر پر آیا ہے اور ہم دنیا بھر میں جمہوریت کے حوالے سے 124ویں نمبر پر آئے ہیں۔ یہی نہیں بلکہ پاکستان میں صدر مملکت، وزیر اعظم آفس، گورنر اور صوبوں کے وزیر اعلیٰ کے دفتروں کے سالانہ شاہانہ اخراجات ملک کے تعلیمی اور صحت کے بجٹ سے زیادہ ہیں۔ اس وقت ملک میں سرکاری اہلکاروں کے زیر استعمال گاڑیوں کی تعداد لاکھوں میں ہے، جن کی قیمت کھربوں میں ہے اور یہ گاڑیاں سالانہ پٹرول اور مرمت کی مد میں اربوں روپے خرچ کرتی ہیں، جس کی نظیر دنیا میں نہیں ملتی۔ امریکا جیسے امیر اور طاقتور ملک میں ماسوائے چند اداروں کے کسی کے پاس سرکاری گاڑی نہیں ہوتی، یہی حال دیگر ترقی یافتہ ممالک کا ہے۔کیا کسی کو علم بھی ہے کہ ایک ایک وزیر کے شاہانہ پروٹوکول پر عوام کا کتنا پیسہ خرچ ہوتا ہے؟ اور ان وزیروں، مشیروں نے تو سارا دن اور اگلے چار سال تک پروٹوکول انجوائے کرنا ہے۔ ان کا ایک ایک چکر کتنے میں پڑتا ہے؟ نہیں علم تو آپ خود دیکھ لیں کہ اس سال کے بجٹ میں صدر‘ وزیراعظم‘ گورنرز، وزراء اور مشیروں کے دفاتر پر4سو ارب روپے خرچ ہورہے ہیں۔ وزیراعظم اور صدر کے تفریحی الائونسز پر بالترتیب 2اور ڈھائی ارب روپے خرچ ہوتے ہیں۔ ایک وفاقی وزیر پر 20کروڑ روپے سالانہ خرچ ہوتا ہے ۔ چلیں یہ سب چھوڑیں،،، پنجاب حکومت کی آپ ہوشیاری چیک کریں۔ ہمیں خوشی تھی کہ ایک نوجوان وزیر اعلیٰ پنجاب آئی ہیں،،، اور وہ ایسے ایسے کام کریں گی کہ جو مثالی ہوں گے،،، مگر وہ تو اپنے چچا شہباز شریف کو بھی کاسمیٹکس پراجیکٹس میں پیچھے چھوڑ چکی ہیں۔ وہ ذاتی تشہیر کے لیے ہر حد گزرجانا چاہتی ہیں۔۔۔ بلکہ یوں لگ رہا ہے جیسے انہیں دوبارہ وزارت اعلیٰ کبھی ملنی ہی نہیں ہے۔ اور پھر غیر ترقیاتی کاموں میں یہ رویت ہلال کمیٹی بھی ہے جس پر ہم سالانہ کروڑوں روپے خرچ کرتے ہیں، حالانکہ ان پیسوں سے ہم ایک پورا کالج یا یونیورسٹی چلا سکتے ہیں۔ بہرحال ہمارے قومی لائف سٹائل نے ہمیں عالمی سطح پر مقروض قوم بنا کر رکھ دیا ہے، قرض کی مے پیتے پیتے ہم اس خمار میں مبتلا ہورہے ہیں کہ کسی دن ہماری یہ فاقہ مستی رنگ لائے گی۔ حکومتی اور معاشرتی سطح پر ہم نے سادہ طرزِ زندگی کو عرصہ ہوا خیرباد کہہ دیا ہے۔ فرد ہو یا معاشرہ یا پھر حکومت جب تک وہ اپنی آمدنی کو اخراجات سے زیادہ نہیں کرتے، کبھی مطمیئن زندگی نہیں گزار سکتے، ہماری حکومتوں نے کبھی اس بارے میں نہیں سوچا کہ اپنے اخراجات کیسے کم کریں۔سرکاری گاڑیوں کی بہتات، پھر ان کی مرمت وغیرہ اور سرکاری افسران کے لیے دیگر مراعات نوکرشاہی کی شاہانہ زندگی کی مثال ہے حالانکہ ہمارے پاس اس کے لیے وسائل موجود نہیں ، لیکن ہم طبعاََ کرپٹ لوگ ہیں،،، احساس سے عاری قوم ہیں،،، تبھی ہمیں ان چیزوں سے کوئی فرق نہیں پڑتا اور نہ کسی قسم کی شرمندگی محسوس ہوتی ہے!

Check Also

Read Urdu Columns Online

Jalib Jamhori Mela Inqliab Ki Pehli Shart Emandari

جالب جمہوری میلہ: انقلاب کی پہلی شرط ایمانداری اتوار کو چھٹی کے روز کسی تقریب …

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *