Read Urdu Columns Online

Ghiri Hai Tawaif Tamashbenoon Mein by Dr Sabahat Ali Khan

پاکستان کو معرض وجود میں آئے 78برس ہونے کو ہیں ۔ ہرطرح کے حکمران آئے اور ایک ہی طرز کے راگ الاپ کر چلے گئے۔زیادہ وقت آمریت میں گزرا۔ کسی بھی حکمران نے ماضی کے واقعات سے سبق حاصل نہ کیا۔ 1958ء سے لے کر اب تک ہر نیا آنے والا حکمران وہی زبان بولتا رہا جو سابق ادوار والوں نے بولی ۔ عوام کی حالت تب بدلی نہ اب بدلتی دکھائی دیتی ہے۔ماضی اور حال میں دیکھا جائے تو عوامی مزاحمت کہیں نظر نہیں آتی۔کہیںظلم ہو یا مہنگائی، عوام برداشت کرنے پر ہی اکتفا کرتے ہیں۔ایک مثال ہے کہ پٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں ہر ماہ بڑھتی ہیں لیکن پیٹرول ہر کوئی بلا چوں چراں ڈلواتا ہے۔ہر کوئی لفظی سہارے ہی ڈھونڈتا ہے، دو تین فقرے کہہ کر اپنا فرض پورا کرتا دکھائی دیتا ہے۔تاریخی اوراق پلٹے جائیں تو نظر آتا ہے کہ عوام دو مرتبہ ہی سڑکوں پر آئے ہیں، ایک بار ایوب خان کے خلاف اور دوسری بار 77ء میں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اس وقت نہ کوئی ظلم ہو رہا تھا اور نہ ہی کوئی اتنی مہنگائی تھی، لیکن لوگ ایوب خان کی حکومت سے اکتا گئے تھے۔ ان کے دور اقتدار میں مڈل کلاس ، مزدوروں اور کسانوں کی کوئی آواز یا نمائندگی نہیں تھی۔یہی وہ دور تھا جب بطور وزیر خارجہ ذوالفقار علی بھٹو عوام اور بلخصوص نوجوانوں میں تیزی سے اپنا مقام بنا رہے تھے۔ موجودہ دور تو آغاء شورش کاشمیری کے برسوں پہلے کہے ہوئے اس شعر کی ما نند نظر آتا ہے،، مرے وطن کی سیاست کا حال مت پو چھو گھری ہوئی ہے طوائف تماش بینوں میں اس دور میں نہ تو کوئی ذوالفقار علی بھٹو عوام کی نمائندہ آواز بن کر ابھر رہا ہے اور نہ حکمران عوام کے مسائل حل کرنے میں سنجیدہ نظر آتے ہیں۔ عہد حاضر کی سیاست کا اگر تقابلی جائزہ لیں اور لمحہء موجود میں اگر کوئی تجزیہ کار قومی حالات کا گہری نظر سے جائزہ لے تو اس وقت سب سے بڑا ایشو مہنگائی ہے۔ امن و امان، اوے ای اوے اور مخصوص نشستوں کی بحالی اور فارم 45اور 47والے معاملات اس کے بعد آتے ہیں۔ اتحادیوں کی حکومت نے اب تک اس معاملے میںموثر اور دیر پا قدم نہیں اٹھایا جو اسے دن بدن کمزور کرنے کی وجہ اور اپوزیشن کو تحریک چلانے اور لانگ مارچ کرنے کا جواز مہیا کر رہا ہے۔اپوزیشن اور حکومت دونوں ایک ہی طرح کی بانسری بجا رہے ہیں، دونوں ایک دوسرے کو NRO دینے کو تیار نہیں۔ بقول غالب،، وہ اپنی خو نہ چھوڑیں گے ہم اپنی وضع کیوں بدلیں سبک سر ہو کے کیوں پوچھیں کہ ہم سے سر گراں کیوں ہو اس وقت سیاسی جلسے گاہے بہ گاہے عروج پر تو ہیں لیکن سیاسی عمل ناپید ہے۔ تقریریں ہیں لیکن پالیسی نہیں ہے۔ ،جنہوں نے گاہے بہ گاہے 35 سال حکومت کی لیکن قوم کو کوئی نظریہ نہ دے سکے۔ صحت، خوراک، تعلیم جیسی نعمتوں کے حصول کے لئے لوگ آج بھی مارے مارے پھرتے ہیں۔ بقول تابش الوری،، ہر اک گھر کا الگ الگ ماجرا ہے سنائیں کیا،، سنایا بھی نہ جائے سبھی کا حال ،، کچھ ایسا ہوا ہے بتائیں کیا،، بتایا بھی نہ جائے ان حالات میں ایک قلم کار اپنی رائے تو یہی دے سکتا ہے کہ مذاکرات کا کوئی ایسا راستہ نکالا جائے جس میں دونوں طرف لچک دکھائی جائے، محب وطن قوتیں اور منجھے ہوئے پارلیمینٹیرین اور سیاسی رہنما عوامی راستوں پر اور شاہراہوں کو احتجاج کا گڑھ بنانے کی بجائے اسمبلی کے فلور کو استعمال کریں۔ تبدیلی ان ہاوس لے کرآئیں، لیکن بدقسمتی سے جو باتیں قومی اسمبلی کے فلور پر ہونی چاہئیں وہ سیاسی اکھاڑوں میں کی جا رہی ہیں۔ اداروں پر بھی کیچڑ اچھالا جا رہا ہے جو درا صل ریاست پاکستان کو کمزورکرنے کے مترادف ہے۔فرض کر لیں کہ ایسے حالات میں مصالحت اور مفاہمت لے لئے کوئی بھی سامنے نہیں آتا تو آئین پاکستان تو موجود ہے۔اگر اس کی مذید تشریح درکار ہو تو عدالت عظمی کے دروازے بھی کھلے ہیں۔ اگر وزیر اعظم یہ کہتے ہیں کہ حکومت اور قومی ادارے ایک پیج پر ہیں تو یہ بھی وضاحت کر دیں کہ سیاسی معاملات پر ایک پیج پر ہیں یا انسانی حقوق اور انصاف کے معاملے پر ایک پیج پر ہیں کیونکہ سیاستدان اداروں کی جاب ڈیسکرپشن میں مداخلت نہیں کر سکتے ۔ آزاد ملک کے ادارے بھی آزاد ہوتے ہیں اور اسی لئے اس بیان کو بھی اپوزیشن ایشو بنا رہی ہے تو یہ بات بھی اظہر الشمس ہے کہ کل کے حریف اور آج کے حلیف بھی ایک پیج پر ہیں۔ سیاسی اتحاد بننے چاہئیں لیکن ملک و قوم کے استحکام کی خاطر بنیں، اگر ان کی وجہ سے ملکی معیشت و استحکام کو نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہو تو یہ آئین پاکستان کے سرا سر منافی ہے۔حزب اختلاف اگر وزیر اعظم سے استعفی مانگنے پر اصرار کر رہی ہو تو اس بات کی بھی تہہ تک جانا ضروری ہے کہ یہ مطالبہ جائز ہے یا ناجائز ،، اور آج بھی اپوزیشن اتحاد میں شامل تمام سیاسی جماعتیں کل کی آپس مین حریف تھیں توکس قومی مفاد میں ایک پیج پر آ گئیں ، وزیر اعظم کو عوام کو بتانا چاہئیے تا کہ ٹیکس میں لیا گیا پیسہ حلال ہو۔ ہماری بھولی بھالی اپوزیشن کو چاہئے کہ وہ اگر موجودہ وزیراعظم کو ہٹانا چاہتی ہے تو اسمبلی میں انکے خلاف تحریک عدم اعتماد لائے، جو ایک جمہوری اور پر امن راستہ ہے تا ہم حکومت کے پاس بھی اپوزیشن اور عوامی دباو کم کرنے کا ایک ہی راستہ ہے کہ وہ جس طرح بھی ممکن ہو عوام کو مہنگائی ، بیروز گاری، بد امنی اور دوسرے معاشرتی و معاشی مسائل سے نکال کر انہیں ریلیف فراہم کرے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *