Read Urdu Columns Online

Governor KamranTessori Ne Kamal Kar Dia

گورنر کامران ٹیسوری نے کمال کردیا

میرے سامنے گورنر ہاؤس کراچی کی کئی نادر تصویریں پڑی ہیں۔ ایک تصویر بابائے قوم کے سفرِ آخرت کی ہے، یہ ہماری قومی تاریخ کے تکلیف دہ لمحات تھے۔ دوسری تصویر میں اسٹین گنوں سے مسلح فوجی جوان اِس عمارت کے کوریڈورز میں نظر آرہے ہیں۔ یہ تصویر 26 اور 27 اکتوبر 1958 کی درمیانی شب کی ہے۔ جس رات اسکندر مرزا کی حکومت کو چلتا کرکے جنرل ایوب خان مسند اقتدار پر براجمان ہوئے تھے۔ یہ تصویر مجھے جنرل اعظم نے 1980 کی دہائی میں اْس وقت دی تھی جب میں کراچی میں اْن کی زندگی کے واقعات کو کتابی شکل میں قلمبند کررہا تھا۔ جنرل اعظم نے اسکندر مرزا سے اْن کے استعفیٰ اور اقتدار فوج کے سربراہ جنرل ایوب خان کو منتقل کرنے کی دستاویز پر دستخط کرائے تھے۔ اِس کے علاوہ چند ایک اور تصویریں بھی ہیں جن میں 70 کی دہائی میں سندھ اسمبلی میں لینگوئج بل کی منظوری کے بعد سندھ کے شہری علاقوں خصوصاً کراچی میں امن و امان کی گھمبیر صورتحال اور احتجاج کے بعد بھٹو صاحب کی کراچی میں ہنگامی آمد اور رات گئے جب وہ گورنر ہاؤس کراچی سے براہِ راست ریڈیو اور ٹیلی ویژن پر قوم سے مخاطب تھے۔ گورنر رسول بخش تالپور کے ساتھ حیدرآباد کے طالب علموں کا گروپ فوٹو بھی ہے جنہیں گورنر صاحب نے خصوصی طور پر اس پرشکوہ عمارت کی سیر اور لنچ پر مدعو کیا تھا۔ اِس گروپ میں، میں بھی شامل تھا۔ حیدرآباد کے علاقے پھلیلی میں رہنے والے مرنجاں مرنج شخصیت کے مالک رسول بخش تالپور حیدرآباد کے نوجوانوں میں خاصے مقبول تھے اْس وقت گورنر ہاؤس کی کھڑکی دروازوں پر پی پی کے جھنڈے سے مماثل تین رنگے پردے اِس رہائش گاہ میں پیپلز پارٹی کے گورنر کی موجودگی کا پتہ دے رہے تھے۔ پھر گذشتہ 40 سال سے زیادہ وقت سے اِس رہائش گاہ میں جو بھی مکیں آیا۔ ایک صحافی کی حیثیت سے ہر ایک سے علیک سلیک ضرور رہی۔ یہ ایک طویل داستان ہے۔ بھٹو صاحب کے دور میں پاکستان کی سابق خاتون اول بیگم رعنا لیاقت علی خان بھی اِس گھر کی مکین رہیں یہ وہ دور تھا جب گورنر ہاؤس اپواکی سرگرمیوں کا مرکز تھا صدر ضیاء الحق کے دور میں جنرل عباسی اور جنرل جہانداد کی بحیثیت گورنر طرزِ حکمرانی اختیار اور سیاسی گہما گہمی کو بھی دیکھا۔ وزیراعظم عمران کے دور کے ہارلے ڈیوڈسن جیسی قیمتی موٹرسائیکل پر سواری کے شوقین اور ٹینشن فری گورنر عمران اسماعیل اور ساتھ ساتھ بااصول اور اپنی ضد کے پکے جسٹس فخرالدین جی ابراہیم کے طور طریقے دیکھنے کا اتفاق رہا۔ جنرل ضیاء الحق کے آخری دور میں جنرل رحیم الدین جیسے اپ رائٹ جنرل کے مختصر اندازِ حکمرانی کے ایسے ایسے طور طریقے اور مناظر دیکھے، جہاں بیوروکریسی اْن کے احکامات اور اشاروں پر ناچتی نظر آئی، یہاں تک کہ اْنہوں نے اندرونِ سندھ میں کچے کے ڈاکوؤں اور اْن کے سرپرستوں کے بھی کڑاکے نکال دئیے۔ یوں تو گورنرز کی یہ فہرست خاصی طویل ہے۔ اِس گھر میں محمود ہارون بھی رہے جو اپنی گاڑی خود چلاتے اور دفتری اْمور نمٹانے کے لئے یہاں آتے تھے۔ جبکہ وہ اپنی ذاتی رہائش گاہ واقع کلفٹن میں رہتے تھے۔ حکیم سعید جیسی باوقار اور قدآور شخصیت نے بھی گورنر سندھ کی حیثیت سے حکمرانی کے نئے انداز، اقدار اور روایات قائم کیں۔ لیکن گورنر سندھ کی اِس رہائش گاہ میں سب سے زیادہ یعنی 14 سال قیام کرنے اور ایم کیوایم سے تعلق رکھنے والے ڈاکٹر عشرت العباد کے دور میں اْن سے متعدد ملاقاتوں کے ساتھ محبت اور عزت و احترام کا رشتہ ہمیشہ قائم رہا۔ گذشتہ دنوں جب کافی وقفے کے بعد گورنر ہاؤس جانے کا اتفاق ہوا تو اِس کی کایا ہی پلٹی ہوئی تھی۔ مجھے تحریکِ انصاف کے بانی عمران خان کے وہ وعدے اور دعوے یاد آگئے جو چاروں صوبوں میں موجود گورنر ہائوسز کی دیواریں گرانے اور اِن عمارتوں کو یونیورسٹیوں میں تبدیل کرنے سے متعلق تھے۔ آج گورنر ہاؤس کراچی ایک عوامی، تعلیمی درسگاہ، غریبوں کی کفالت کے لئے اْمید کا مسکن اور اِس سرکاری رہائش گاہ کے دروازے لوگوں کے لئے کھول دئیے گئے ہیں ۔ اب جو یہاں آتا ہے اپنے دْکھ اور آنسو ساتھ لاتا ہے۔ یہاں پریشان حال لوگوں کی دادرسی ہورہی ہے، ایسے بے کس لوگ جنہیں اپنے سائے سے ڈر لگتا ہے۔ گذشتہ دو سال یہاں قیام کے دوران گورنر کامران ٹیسوری نے عملی طور پر وہ کردکھایا جو ہر با اختیار انسان کو کرنا چاہیے۔ وہ سمجھتے ہیں کہ جب قوم کے پڑھے لکھے باشعور اور بااختیار لوگ روٹی اور نوکری کے ہاتھوں سمجھوتہ کرلیتے ہیں تو ملک سے انصاف ختم ہوجاتا ہے۔ گورنر ہاؤس میں آکر وہ ہٹو بچو اور پروٹوکول کے اسیر نہیں بنے۔اْنہوں نے اِس مختصر عرصے میں اپنی تمام توانائیاں اِس بات پر صرف کیں کہ برسرِ اقتدار، با اختیار اور متمول لوگ ہی خوشیوں اور مسرتوں کے ٹھیکیدار نہیں، اْن کے خیال میں محبت ہی وہ چیز ہے جو انسانوں کو انسانوں سے جوڑتی ہے، جو معاشرے کو ترقی کی شاہراہ پر گامزن کرتی ہے اسی طرح انصاف ہی وہ بنیادی سچائی ہے جو جنگل کو معاشرہ بناتی ہے۔ جب تک معاشرے میں انصاف کا قطعی اور اٹل نظام نہیں ہوتا اْس وقت تک معاشرے میں نہ محبت آسکتی ہے نہ رواداری۔ یہی وجہ ہے کہ ہم ایک دوسرے سے شاکی ہیں ،طاقت کے بل پر دوسروں کا حق چھیننا اپنا استحقاق سمجھتے ہیں۔ سندھ میں لسانی تفریق کی وجہ بھی یہی ہے کہ طاقتور کمزور سے انصاف نہیں کرتا، مجھے وہ شطرنج کے کھلاڑی لگے جو زندگی کو شطرنج کے اصولوں کے مطابق گزارنا چاہتے ہیں جس کا پہلا سبق یہ ہے کہ مل جْل کر کیسے کام کیا جاسکتا ہے۔ آگے بڑھنے کے لئے کبھی پیچھے بھی ہٹنا پڑتا ہے، کمزوروں اور غریبوں سے ہمیشہ عزت اور محبت سے پیش آئو کیونکہ یہ کبھی آپکو فراموش نہیں کرتے۔ کامران ٹیسوری میں بھی بڑی قائدانہ صلاحیتیں موجود ہیں۔ اْن کا حلقہ پھیلتا جارہا ہے۔ ایم کیو ایم کی نمائندگی کرتے ہوئے وہ بڑی مہارت ،اخلاص اور ایثار سے اْس تنے ہوئے رسے پر چل رہے ہیں۔ وہ سب کو ملاکر بھی رکھتے ہیں اور مناکر بھی۔ اس طرح وہ دیکھتے ہی دیکھتے اپنی پارٹی کے لئے ایک بائنڈنگ فورس بن گئے۔ اِس کے بعد اْنہیں وہ برانڈ بننے میں زیادہ دیر نہیں لگے گی کہ وہ اب کسی کے پیچھے نہیں بلکہ بہت سے اْن کے گرد جمع ہوجائیں گے اور تاریخ کا سبق یہی ہے کہ اللہ تعالیٰ اْن لوگوں پر خاص کرم کرتا ہے جو اْس کے ضرورتمند بندوں کا ہاتھ تھامتے ہیں۔ I.Tکی تعلیم کے لئے گورنر ہاؤس ایک اعلیٰ درسگاہ کا منظر پیش کررہا ہے۔ یہ تعلیم ہی درحقیقت نوجوانوں کے لئے کامیابی کی کلید ہے۔ لاکھوں ضرورتمندوں کے لئے راشن کی مسلسل تقسیم، شکایت سیل کا قیام اور انصاف کے لئے گورنر ہاؤس کے دروازے پر عدل کا گھنٹہ، پریشان حال لوگوں کے لئے اْمید بن گیا ہے۔ وہ تنخواہ نہیں لیتے اور کراچی کے ویلفیئر اداروں کی توانائیوں کو مجتمع کرکے اور متمول لوگوں کے تعاون سے غریب لوگوں کی دادرسی کی مثال قائم کررہے ہیں۔ اس سلسلے میں اْن کی جیبِ خاص بھی فراخدلی کا نمونہ ہے۔ گورنر کامران ٹیسوری نے جست لگادی ہے ۔وہ تمام رْکاوٹوں کے باوجود دوسرے کنارے تک پہنچ پائیں گے یا نہیں، اِس کا علم تو کسی کو نہیں لیکن یقین سب کو ہے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *