ہمارا سول سروس کا فرسودہ نظام
حکومت برسوں پرانا سی ایس ایس کا امتحانی نظام بدلنے کا سوچ رہی ہے۔یہ نظام انگریزوں نے اپنی ایک غلام قوم کو اپنے قابو میں رکھنے کے لئے ترتیب دیا تھا۔اس نظام کو بدلنے کے لئے اصلاحاتی کمیٹی نے مشاورت مکمل کر لی ہے۔جس کے مطابق یقینی بنایا جائے گا کہ امتحان دینے والے امیدواروں کی اہلیت اور مہارت انہیں تفویض کردہ عہدوں کے مطابق ہو۔مجوزہ اصلاحات کے تحت اہم تبدیلی یہ ہے کہ ملکی سول سروس میں عمومی افسران کی جگہ ماہرین کو فروغ دینے کے لئے جنرلائزڈسی ایس ایس فریم ورک کی جگہ کلسٹرڈپر مبنی مسابقتی امتحانی نظام لایا جائے جس سے پیشہ ور افراد کو تکنیکی اور سول سروس کے خصوصی کیڈرز میں شمولیت کا موقع ملے گا۔اس وقت فیڈرل پبلک سروس کی جانب سے سالانہ بنیادوں پر منعقد کیا جانے والا سی ایس ایس کا امتحان یکساں انداز سے امیدواروں کا جائزہ لیتا ہے ۔ کامیاب ہونے والے امیدواروں کو ان کے تعلیمی پس منظر سے ہٹ کر مختلف گروپس میں مختص کیا جاتا ہے جن کا ان کی تعلیم سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ ڈاکٹر ریونیو سروس میںقانون دان آڈٹ کے محکمے میںاور انجینیر فارن سروس کا حصہ بن جاتا ہے۔ یہ ساری ذمہ داریاں ان کی اصل تعلیم سے مطابقت نہیں رکھتیں۔نئے مجوزہ نظام کے تحت ہر سروس گروپ کی اپنی مخصوص قابلیت کے مطابق مسابقتی امتحان ہوں گے اور اس بات کو یقینی بنایا جائے گاکہ امیدواروں کی مہارت ان کے تفویض کردہ عہدوں کے مطابق ہو۔ان اصلاحات کے نتیجے میں سول سروس کی گرتی ہوئی ساکھ کو سنبھالنے میں بھی مدد ملے گی۔ ہماری موجودہ سول سروس اب اسے جو بھی نام دیا گیا ہو اصل میں انڈین سول سروس ہی کا تسلسل ہے۔1947میں جب آزادی کے نتیجے میں پاکستان اور بھارت وجود میں آئے تو اس وقت کی انڈین سول سروس یا امپیریل سول سروس ، بھارت میں انڈین سول سروس اور پاکستان میں سنٹرل سپیرئیر سروس آف پاکستان کہلائی۔1853 میں جب ایسٹ انڈیا کمپنی نے بر صغیر میں پوری طرح پائوں جما لئے تو انہیںاپنی بنائی ہوئی 250 ڈسٹرکٹس میں نظم و نسق سنبھالنے کے لئے سول سرونٹس کی ضرورت محسوس ہوئی۔خصوصاً 1857 کی جنگ آزادی کے نتیجے میں گورننس میں جو تبدیلی آئی ، نئی سروس اس کا تقاضہ تھا۔ چنانچہ اس مقصد کے لئے انہوں نے لندن میں بہت سے لوگوں کو اس سروس کے لئے نامزد کیا۔ لیکن جب وہ نامزدگی برطانوی پارلیمنٹ میں فائنل فیصلے کے لئے پیش کی گئی تو پارلیمنٹ نے اس فیصلے کو قبول نہیں کیااور ساری نامزدگیاں منسوخ قرار دے دیں اور حکم دیا کہ ہندستان کے لئے ایک ہزار لوگ کو کسی رنگ اور نسل کے تعصب کے بغیر باقاعدہ مقابلے کا ایک امتحان لے کر بھرتی کیا جائے۔چنانچہ سیکرٹری آف سٹیٹ برائے ہندوستان نے گورنمنٹ آف انڈیا ایکٹ 1858 کے تحت لندن میں امتحان لیا اور لندن کے بہترین سکولوں کے پڑھے ہوئے نوجوانوں کو ہندستان میں حکمرانی کے لئے منتخب کیا۔اس سروس کی ابتدا کا سہرا گورنر جنرل وارن ہیسٹنگ کے سر آتا ہے ۔بعد میں ہونے والے امتحانوں میں ہندوستان کے باشندوں کو بھی شامل ہونے کی اجازت دے دی گئی۔ چنانچہ اکا دکا ہندستانی بھی اس سروس میں آتے رہے۔ 1863 سے 1900 تک کے عرصے میں ہندوستان سے 14 لوگوں کو منتخب کیا گیا۔ سب سے پہلا ہندستانی جو اس سروس کے لئے منتخب ہوا وہ ستیندر ناتھ ٹیگو ر (Satyendernath Tigore) تھا جو مشہور نوبل انعام یافتہ ، عظیم مفکر اور پچھلی صدی کا ایک بہترین انسان رابندر ناتھ ٹیگور کا بڑا بھائی تھا۔ یکم جون 1842 کو کلکتہ میں پیدا ہونے والے ستیندر ناتھ ٹیگور نے 1863میںسول سروس جائن کی ۔ یہ خود بھی ایک شاعر، ادیب اور سوشل ریفارمر تھا۔1863سے لے کر 1900 تک ٹیگور سمیت ہندوستان کے کل چودہ باسیوں نے انڈین سول سروس میں شمولیت کی جن میں چودہواں شخص پہلا سنی مسلمان تھا جو بمبئی کا رہنے والا تھا اور جس نے 1896 میں انڈین سول سروس کو جائن کیا۔ آپ خان بہادر یوسف علی کے بیٹے تھے اور حافظ قران بھی تھے۔یہ ایک بہترین ادیب تھے جنہوں نے اسلام کے بارے بہت سی کتابیں بھی لکھیں۔ 1901 سے 1946 تک ہندستان کے 46 باسیوں نے انڈین سول سروس میں شمولیت کی۔ ان 46لوگوں میں چار مسلمان بھی شامل تھے۔ 1919 میں صالح اکبر حیدری اس سروس میں شامل ہوئے۔ ان کا تعلق بوہرہ مسلم خاندان سے تھا۔یہ وہ آخری شخص تھے جو بعد میں یہ برطانیہ حکومت کی طرف سے آ سام کے گورنر نامزد کئے گئے۔ 1933 میں عبدالحسن قریشی نے انڈین سول سروس جائن کی ۔آپ کا تعلق بھارت کے علاقے اتر پردیش کے علاقے بالیہ سے تھا۔انڈین سول سروس کے بعد آپ نے پاکستان کی سول سروس میں بھی کام کیا۔آپ کا تعلق وہاں کی مقامی عراقی برادری سے تھا۔1934 میں جس مسلمان نے سول سروس جائن کی وہ ظفرالاحسن لاری تھے۔ان کا تعلق اتر پردیش کے علاقے گورکھپور سے تھا۔ آپ بھی وہاں کی مشہور مسلم عراقی برادری سے تعلق رکھتے تھے۔پاکستان بننے کے بعد آپ کراچی منتقل ہو گئے اور پاکستان میں مہاجرین کی آباد کاری کے لئے بہت کام کیا۔1941 میں ایم۔اے قریشی یا منظور احمد قریشی نے سول سروس جائن کی۔ ان کا تعلق بھی اتر پردیش کی مسلم عراقی برادری ہی سے تھا۔یہ وہ واحد انڈین سول سروس کے مسلمان رکن تھے جنہوں نے پاکستان کی بجائے بھارت میں رہنا پسند کیا اور سول سروس آف انڈیا جائن کی ۔ یہ سبھی وہ لوگ تھے کہ جنہیںخاص طور پر ٹریننگ دی گئی تھی کہ انہوں نے ایک غلام قوم پر حکمران قوم کے نمائندے کے طور پر کس طرح حکومت کرنی ہے اور حکمرانوں کی کاسہ لیسی میں غلام لوگوں کو کس طرح دبا کر رکھنا ہے۔ ایچیسن کالج کی بنیاد بھی اسی معیار پر رکھی گئی تھی ۔ جہاں امرا کے بیٹوں کو اسی انداز میں تربیت دی جاتی تھی کہ وہ حکمرانوں کے وفادار بن کر اپنے اپنے علاقوں میں لوگوں کو دبا کر رکھیں۔ آج بھی بیوروکریسی میں تکبر اور غرور کی جو بساند موجود ہے، وہ اسی لئے ہے کہ اتنے سال گزرنے کے باوجود ہم نے اس میں اصلاح کی کوئی ضرورت ہی محسوس نہیں کی ۔جب کہ ہمارے حکمران آج بھی عوام کے ساتھ انگریزوں ہی کی طرح کاسلوک کرتے ہیں۔ فرق صرف چمڑی کا ہے ، گورے چلے گئے، کالے انگریز ان کی جگہ لینے آ چکے ہیں۔ لوگ اس فرسودہ نظام سے خوش نہیں۔موجودہ حکومت کا اصلاحات کا فیصلہ یقیناً قابل ستائش ہے ۔