Read Urdu Columns Online

Inqliab Bazriya Thook

انقلاب بذریعہ تھوک۔ 

صوابی میں پی ٹی آئی کا تاریخ سوز جلسہ__میں بھی حاضر تھا وہاں یعنی غائبانہ طور پر حاضر تھا۔ ٹھہرئیے، ایک وضاحت ضروری ہے، شروع میں جلسے کو تاریخ ساز کے بجائے تاریخ سوز لکھ دیا۔ آپ مناسب سمجھیں تو تصحیح کر لیں، مناسب سمجھیں تو تصحیح نہ کریں۔ کچھ فرق نہیں پڑتا کہ تاریخ سوزی بھی تو ایک طرح کی تاریخ سازی ہی ہے۔ خیر، اس غائبانہ یعنی گھر بیٹھے ، بذریعہ لائیو کوریج ، غائبانہ حاضری کے ذریعے جلسے کے ناقابل یقین حجم کو بھی دیکھا اور انقلاب بذریعہ دشنام کی تفسیر بھی دیکھی۔ 
ہمارے سکول کے زمانے میں ایک خاص قسم کے مداری ہوا کرتے تھے، اب عرصہ دراز سے دیکھنے سننے میں نہیں آ رہے۔ قمیض اور بنیان اتارنے کے بعد یہ انوکھی شعبدہ بازی کیا کرتے تھے۔ کپڑے اس لئے اتارتے تھے کہ کوئی یہ نہ کہے کہ ہاتھ کی صفائی ہے، آستین میں کچھ چھپا رکھا تھا۔ تو یہ مداری کیا کرتے، یہ کہ اچانک یہ ظاہر کرتے کہ منہ میں کچھ پھنس گیا ہے۔ انگلی ڈال کر نکالتے، پتہ چلتا کہ بانٹا یعنی کنچہ ہے۔ یہ کنچہ کہاں سے آیا، مداری حیرت ظاہر کرتا پھر کنچا زمین پر پھینک دیتا۔ پھر دوبارہ گلے میں کچھ پھنس جاتا، اسے انگلی سے نکالتا۔ ایک اور بانٹا۔ پھر ایک اور، پھر ایک اور ، بانٹوں کی لائن لگ جاتی، زمین پر اچھی خاصی ڈھیری بن جاتی۔ پھر بڑے زور سے گلے میں کچھ پھنس جاتا۔ اس بار بڑا بانٹا نکلتا، پھر اس سے بڑا، یہاں تک کہ پیپر ویٹ کے سائز کے گول چکنے پتھر اور بلور برآمد ہونے لگتے۔ لوگوں کو یقین ہی نہیں آتا۔ لیکن زمین پر بانٹوں اور پتھروں کا ڈھیر ناقابل یقین کو قابل یقین بنا دیتا۔ کیا جادو تھا۔ سنتے تھے یہ شعبدہ بازی نہیں ، ایک قسم کا ، بے ضرر جادو ہے۔ کالا نہیں، بھورایا مٹیالا جادو کہہ لیجئے کہ سفید جادو تو ہوتا ہی نہیں۔ 
کچھ اسی قسم کی جادوگری صوابی کے جلسے میں بھی، پی ٹی آئی کے ہر جلسے کی طرح نظر آئی۔ مقرر کے منہ سے موٹی سی گالی برآمد ہوئی، پھر اس سے موٹی ، پھر اس سے موٹی ، پھر پیپرویٹ سے بھی بڑی سنگلاخ گالی اور ہر گالی پر سٹیج سے بھی داد، جلسہ گاہ سے بھی داد۔ ایک مقرر کا نام یاد نہیں رہا، آفریدی تھے، انہوں نے حکومتی وزیروں کو ’’کالے کتے‘‘ قرار دیا اور ریاستی اداروں کو ان کے ’’باپ‘‘ کی یاد دلائی۔ گنڈاپور نے اس بار بھی آتش فشاں تقریر کی، ریاستی اداروں کو ایک کے بدلے دس لاشیں گرانے کی دھمکی تو نہیں دی لیکن ریاست پر تھوکنے کا اعلان ضرور کیا اور نمونے کے طور پر بار بار تھوک کر بھی دکھایا۔ 
دنیا بھر میں حکومت مخالف جلسے ہوتے ہیں، کبھی کسی نے ریاست پر تھوکا نہیں۔ پی ٹی آئی نے یہ تاریخ
 سوزی (یا سازی) بھی کر دکھائی۔ 
_____
خیر، جلسہ ہو گیا۔ رات کو کیا دیکھا اور اگلے دن، دن بھر کیا دیکھا کہ پی ٹی آئی کے ہر یوٹیوبر نے گنڈاپور کی تھوک فشانی کا کلپ بار بار دکھایا اور یہ کہہ کر دکھایا کہ دیکھو، یہ ہوتا ہے مرد کا بچہ۔ تھمب نیل اس طرح کے تھے کہ ریاست لرز گئی، نظام لڑکھڑا گیا، اداروں کی دوڑیں لگ گئیں، اسلام آباد پر خوف کے سائے وغیرہ۔ 
یعنی، گویا، مطلب یہ کہ گنڈاپور نے تھوک کر انقلاب برپا کر دیا۔ انقلاب بذریعہ بندوق تو بہت بار سنا، انقلاب بذریعہ تھوک پہلی بار سنا۔ 
بھٹو صاحب کی پارٹی میں صوبہ سرحد (اب پختونخواہ) کے ایک معروف لیڈر حق نواز گنڈا پور ہوا کرتے تھے۔ پھر کسی نے انہیں گولی مار کر قتل کر دیا۔ پیپلز پارٹی نے بجا طور پر اس کا سوگ منایا اور یہ نعرہ کئی دنوں تک گونجتا رہا کہ 
گنڈاپور تیرے خو ن سے 
انقلاب آئے گا 
اب اور طرح کے گنڈاپور سے سامنا ہے اور ساتھ ہی ایک اور طرح کے انقلابی نعرے کا بھی کہ :
گنڈا پور تیرے تھوک سے 
انقلاب آئے گا 
_____
چلئے، غنیمت ہے۔ جو لوگ ڈر رہے تھے کہ ملک میں کہیں خونی انقلاب نہ آ جائے، انہیں اب تسلی رکھنی چاہیے کہ خونی انقلاب کا کوئی خطرہ نہیں ہے کہ تھوکی انقلاب البتہ آ سکتا ہے ، دستار اور چہرے کو بچا کر رکھئے، باقی سب خیریت ہے۔ 
جلسہ کے اگلے روز یہ خبر سنی کہ کے پی کے پارٹی کے صدر جنید اکبر نے تمام عہدیداروں سے جواب طلبی کر لی ہے کہ جلسے میں بندے کیوں نہیں آئے۔ 
حالانکہ بندے تو آئے تھے۔ جو سیبنا رامک ویو پی ٹی آئی والے بار بار دکھا رہے تھے، اس کے مطابق ، کم سے کم سات آٹھ ہزار لوگ تو تھے۔ لیکن پھر پشاور کے صحافیوں نے بتایا کہ جلسہ گاہ میں، بیچ بیچ میں اور آخر میں اڑھائی تین ہزار خالی کرسیاں تھیں ’’…رامک ویو‘‘ میں نظر نہیں آئیں، چنانچہ میڈیا نے خبر دے دی کہ زیادہ سے زیادہ پانچ ہزار لوگ تھے۔ 
پانچ ہزار لوگ بھی اتنے کم نہیں ہوتے۔ سارے مل کر تھوکیں تو اچھا خاصا تھوک کا مکان تعمیر ہو جاتا ہے اور یہ مکان بالا خانے پر تعمیر ہو تو کیا ہی کہنے 
نیچے پان کی دکان 
اوپر تھوک کا مکان 
جنید اکبر صاحب کو فی الحال اسی انقلاب پر گزارا کرنا چاہیے اور اس قسم کی خبروں اور تجزیوں سے دلبرداشتہ نہیں ہونا چاہیے کہ یہ صوابی کی تاریخ کا سب سے چھوٹا جلسہ تھا۔ پی ٹی آئی کے ایک مدبّر انقلابی کے اس تجزئیے کو ہرگز ہلکا مت لیجئے کہ لوگوں کی تعداد کو مت دیکھو، تھوک کی مقدار کو دیکھو۔
یہ عشق نہیں آساں ،بس اتنا سمجھ لیجئے ، کہ تھوک کا دریا ہے اور چاٹ کے جانا ہے۔
_____
ادھر مرشد نے سپہ سالار کے نام ایک اور خط لکھ دیا۔ پہلا تو کہیں لامکاں میں کھو گیا، سپہ سالار کے ڈاک خانے تک پہنچا ہی نہیں چنانچہ دوسرا خط ، انہیں بھیجا ہی نہیں گیا بلکہ عوام کے نام جاری کرنے ہی کو کافی سمجھا گیا۔ 
باقی ساری باتیں اس خط میں وہی ہیں جو پہلے خط میں تھیں، بس ایک نئی بات، محض ایک اضافی ہے۔ گویا یہ پہلے خط کا دوسرا ایڈیشن ہے، ترمیم و اضافہ شدہ خط۔ 
اور نئی بات یہ ہے کہ اس میں ’’مجھے نکالو‘‘ کا مطالبہ شامل نہیں ہے۔ اس کی جگہ یہ شکوہ ہے کہ مجھے سہولتیں نہیں دی جا رہیں، اخبار پورے نہیں ملتے، ورزش کا ٹھیک وقت نہیں ملتا ، سیرو سیاحت کے مواقع نہیں ہیں ، وغیرہ وغیرہ۔ 
مطلب یہ کہ سر جی، مجھے رہا نہیں کرنا تو مت رہا کرو، سہولتیں تو دو۔ 
ایک شکوہ اس ضمن میں یہ ہے کہ جیل حکام مجھے اٹھا کر لے جاتے ہیں اور کسی بند کمرے میں بند کر دیتے ہیں اور پانچ پانچ دن بند رکھتے ہیں۔ 
سچ ہی لکھا ہو گا لیکن پانچ دن کی گنتی سمجھ میں نہیں آتی۔ پارٹی وکیل اہل خانہ اور پارٹی کے رہنما ہفتے میں چار دن ان سے ملاقاتیں کرتے ہیں۔ ہفتے میں سات دن ہوتے ہیں۔ صاحب پانچ دن بند کمرے میں بند رکھے جاتے ہیں، باقی بچے دو دن۔ ان دو دن میں چار دن ملاقاتیں کیسے ہو جاتی ہیں۔ 
بظاہر معاملہ رحونیاتی لگتا ہے۔ یعنی شاید یوں ہوتا ہو کہ ملاقاتی دو روز تو مرشد ہی سے ملتے ہوں اور باقی دو روز ان کے ہمزاد سے ملتے ہوں۔ 
_____
چینی، آٹے اور دیگر اشیائے صرف کی قیمتوں میں ہوشربا اضافے کا سلسلہ جاری ہے چنانچہ گھی پیچھے کیوں رہتا، اس نے بھی زقند.لگائی ہے اور پہلی ہی جست میں 50 روپے کلو مہنگا ہو گیا ہے۔ 
مہنگائی جس تیز رفتاری سے بڑھ رہی ہے، لگتا ہے جلد ہی اس کی شرح سنگل ڈیجٹ سے کم ہو کر آدھی ڈیجٹ رہ جائے گی۔ ڈبل ڈیجٹ سے کم ہو کر سنگل پر تو کب کی آ چکی۔ وزیر اعظم، وزیر خزانہ کو ڈبل ڈیجٹ مبارکباد۔

Check Also

Read Urdu Columns Online

Dar Manday Ka Parda

درماندے کا پردہ جس خبر کو حکومت نے نمایاں کیا نہ نمایاں ہونے دیا وہ …

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *