Urdu Columns Today

Jagte Raho Pani Ka Bulbula

جاگتے رہو۔۔۔ پانی کا بلبلہ

صدر ٹرمپ نے حد کر دی، کبھی وہ غزہ کی ملکیت لینے کے دعوے کرتے ہیں تو کبھی اُردن کے شاہ عبداللہ کو باتوں میں گھیرنے کی کوشش۔ مصر کے صدر جنہیں ٹرمپ کے قریب تصور کیا جاتا ہے نے ٹرمپ سے ملاقات کے لیے امریکی دورہ منسوخ کر دیا ہے۔ ادھر شاہ عبداللہ جنہیں ٹرمپ کے غزہ پر قبضے اور فلسطینیوں کے دیس نکالنے کے منصوبے پر شدید تحفظات تھے نے اپنے دورہ میں ٹرمپ کے بلمقابل بیٹھ کر کمال صفائی سے رپورٹرز کو جوابات دیتے ہوئے کہا کہ غزہ کے مسئلے پر وہ مصر کی تجاویز کا انتظار کریں گے۔ مصری وزارت خارجہ نے بیان جاری کیا ہے کہ غزہ کے لیے جامع منصوبہ پیش کیا جائے گا جس میں غزہ کی تعمیر نو اورفلسطینوں کی بیک وقت غزہ میں موجودگی یقینی بنانے کے علاوہ ٹرمپ سے تعاون کرتے ہوئے فلسطینیوں کے حقوق کا منصفانہ حل تجویز کیا جائے گا۔ فلسطینیوں کی غزہ سے مصر اور اُردن جبری منتقلی کے منصوبے سے امریکہ اور مصر کے تعلقات پچھلے تین دہائیوں میں پہلی دفعہ اتنے خراب ہوئے ہیں جبکہ امریکی امداد ختم کرنے کی دھمکیوں سے مصری عوام سخت خفا ہیں۔مصر فروری کے آخر میں عرب دنیا کا اجلاس بلا کر نئے مسئلے کے حل پر یکسوئی حاصل کرناچاہتا ہے جبکہ سعودی عرب نے 27 فروری کو 4 عرب ممالک کا مسئلۂ فلسطین پر اجلاس بلا لیا ہے۔ سعودی عرب، مصر، اُردن اور متحدہ عرب امارات فلسطینیوں کی غزہ سے بے دخلی کے بغیر غزہ کی تعمیرِ نو پر متفق ہیں تاہم دو ریاستی حل پر بھی زور دیا جا رہا ہے۔ عرب لیگ کے سیکرٹری جنرل نے بھی غزہ سے فلسطینیوں کی جبری بے دخلی کو ناقابلِ قبول قرار دیتے ہوئے کہا کہ آج غزہ اور کل مغربی کنارے کی باری آئے گی جبکہ چین نے بھی صدر ٹرمپ کے اس منصوبے کو یکسر مسترد کر دیا ہے۔
اُدھر ہندوستانی وزیراعظم “موذی” کے آگے ٹرمپ ایک بار پھر ڈھیر ہو گئے! جب انہوں نے 24 فروری 2020 کو اپنے پہلے صدارتی دور میں ہندوستان کا دورہ کیا تو نیو دہلی میں مسلمانوں کے خلاف پرتشدد واقعات سے پورے ملک میں ہنگامے برپا تھے ۔ مسلمانوں کی املاک جلائی گئیں، ان کا بے دردی سے قتلِ عام کیا گیا لیکن گجرات کے قصائی “موذی” کے حق میں، صدر ٹرمپ کی قصیدہ گوئی اس قدر جعلی اور ضرورت سے زیادہ تھی کہ سننے والے تک شرمندہ ہوجاتے گو خود “موذی” فخر سے پھولا نہ سماتا۔ صدر ٹرمپ نے اس دورے”نمستے ٹرمپ” میں ہندوستان کو دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت اور سیکولر ریاست قرار دیا لیکن سوا ارب آبادی کی آپسی مذہبی چپقلش، ہندتوا کے پیروکاروں کی مسلمانوں کی نسل کش مہم و دیگر مذاہب سے عدم برداشت کے رویے پر ایک سرزنش نہ کی۔دنیا کے بیشتر ممالک پر چڑھ دوڑنے کے متمنی، ٹیرف جنگ چھیڑنے والے، عرب ممالک کو ایماء کے مطابق دھمکا کر ہر بات منوانے کے خواہش مند صدر ٹرمپ پھر کیوں ہندوستانی وزیراعظم کے آگے دبک گئے ؟ درحقیقت اسرائیل کوفلسطینیوں کو اپنے علاقوں سے نقل مکانی پر مجبور کرنے کے بعد افرادی قوت کی بھی سخت کمی کا سامنا ہوگا۔ ایسے میں ہندوستانی واجبی معاوضوں کے عوض اسرائیلیوں کے لیے جبری مشقتیوں سے کم ثابت نہ ہوں گے۔ غزہ میں اگر ٹرمپ اور “شیطن یاہو” کا منصوبہ کامیاب ہو گیا تو تعمیرِ نو اور “رویرا” کی تعمیر کے لیے ہندوستانی ان کے لیے غلاموں کی طرح کام کریں گے۔ امریکی پالیسی جو دہائیوں سے صیہونی خواہشات کے تابع ہے کے ایک اشارے پر ٹرمپ نے اپنا ٹریک ہی بدل ڈالا۔ وہ اسٹیبلشمنٹ کی باز پرس کرنے، یوکرائن جنگ روکنے، مشرقِ وسطیٰ میں امن لانے اور اسرائیل کو جنگ بندی پر مجبور کرنے کے وعدے پر آئے لیکن اقتدار میں آتے ہی بات بات پر سنگین نتائج بھگتنے اور خطے پر خوفناک جنگ کے دروازے کھولنے کی دھمکیاں دے رہے ہیں۔ “موذی” پر ایسا ریشہ خطمی ہوئے کہ پاکستانی ڈاکٹر تہور رانا جن پر آنحضرتؐ کے کارٹون چھاپنے والے رسالے پر حملہ کرنے کے منصوبے کے الزام میں امریکہ میں 14 سال سزا ہوئی تھی جبکہ 2008 کے ممبئی حملوں میں ملوث ہونے کا ہندوستانی الزام ثابت نہ ہوا کو اب “موذی” کا اقتدار مضبوط کرنے کے لئے ہندوستان کے حوالے کرنے کا اعلان کیا ہے۔مزید ہندوستان سے مشترکہ طور پر دہشت گردی کے مقابلے کا عزم کیا، ممبئی حملوں اور پٹھان کوٹ حملوں میں ملوث افراد کو قانون کے کٹہرے میں لانے کے لیے پاکستان پر دباؤ ڈالا ۔ پاکستان کی ذمہ دارٹہرایا کہ وہ اپنے علاقے سرحد پار دہشت گردی کے لیے استعمال نہ ہونے دے۔ اسی طرح مشترکہ اعلامیہ میں ہندوستان کو ایسے دلکش سبز باغ دکھائے گئے جو عملاً ممکن نہیں۔ بنیا بھلے 100 سال آگے کی سوچ رکھ کر منصوبہ بندی کرتا ہو،صیہونی یہودی ہزار سال آگے تک کا منصوبہ بنا رکھتے ہیں۔
امریکہ کا ہندوستان کے یوں آگے پیچھے ہونا پاکستان کے لیے واضح اشارہ ہے کہ امریکہ نے پاکستان کو ہر معاملے میں ہندوستان کے ذریعے پچھاڑنے کی کوشش کرنی ہے جس کی وجہ پاکستان کا چین کی طرف جھکاؤ ہے۔صدر بائیڈن اور صدر ٹرمپ امریکی تھنک ٹینک رینڈ کارپوریشن کی 2021 کی جنوب مشرقی ایشیا پر تجاویز پر من و عن عمل پیرا ہیں جس میں پاکستان سے تعلقات کو عارضی، سطحی اور بوقتِ ضرورت محدود رکھنے جبکہ ہندوستان کو دیرپا اتحادی ساتھی بنانے کی تجویز ہے۔ جہاں تک ہندوستان کو جدید اسلحہ، جہاز، ڈرون وغیرہ دینے کا تعلق ہے تو واضح رہے کہ 31 ایم کیو نائن بی ڈرون کا معاہدہ تو جون 2023 میں ہوا تھا جو تا حال ہندوستان کو نہیں ملے۔ اسی طرح ایف- 35 طیارے ہندوستان کو سالہا سال نہ ملیں گے البتہ ان کی پیشگی رقم وصول کر لی جائے گی۔ ہندوستان اس وقت دنیا میں اسلحے کا سب سے بڑا خریدار ہے اور ٹرمپ پکے کاروباری نے “موذی” کو گھیر کر اپنا سب سے مہنگا اسلحہ فروخت کیا ہے جس کی ترسیل اگلے چار سال تک ہونا ممکن نہیں۔ ہندوستانی اسلحے اور لڑاکا طیاروں کی انونٹری زیادہ تر روسی ہے اس لئے ٹرمپ نے جان بوجھ کر ہندوستان کو روس کی طرف جانے نہیں دیا۔ جو لوگ ہندوستان کی ترقی کا موازنہ پاکستان سے کرتے تھکتے نہیں، انہیں صدر ایوب خان کے وقت پاکستان کی ترقی کا گراف نہیں بھولنا چاہیے۔ وقت بتائے گا کہ کیسے امریکہ نے ہندوستان کو چین کے آگے پھینکنے کے لئے مادی ترقی کے جال میں پھنسایا جو ایک پانی کے بلبلے کی مانند ہے۔ ہندوستان دنیا کی سب سے بڑی نہیں بلکہ سب سے بری جمہوریت ہے جہاں قریباً 150 آزادی کی چھوٹی بڑی تحریکیں چل رہی ہیں جن میں 14نمایاں ہیں۔ اسرائیل کے نقشِ قدم پر چلنے والا نا انصاف اور ظالم ہندوستانی معاشرہ کبھی پنپ نہیں سکتا یہی قدرت کا اٹل فیصلہ ہے جو ہو کر رہے گا!
؎ مقصد ہے ملوکیت ِانگلیس کا کچھ اور
قصہ نہیں نارنح کا یا شہد و رطب کا
whatsapp: 0313-8546140

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *