Read Urdu Columns Online

Kaptaan Ne System Nanga Kar Dia

کپتان نے سسٹم ننگا کردیا

بیانیہ میکر کمپنی کی ایک پراڈکٹ یہ بھی ہے کہ ”کپتان نے سسٹم ننگا کر دیا“۔تحریک انصاف والے جب یہ ڈھول پیٹ رہے ہوتے ہیں تو پٹواری ہنس رہے ہوتے ہیں حالانکہ ان کی یہ بات سو فیصد درست ہے۔چونکہ آج کل پھر اس نعرے کی گونج ہے لہذا میں اس کی تائید میں چند ایک مثالیں دینے لگا ہوں۔ مجھے تو اس بیانیے سے مکمل اتفاق ہے اور شاید آخری سطور تک پہنچتے پہنچتے آپ کو بھی اتفاق ہو جائے۔ 

کپتان نے سسٹم کو پہلی بار اس وقت ننگا کیا تھا جب وہ پرویز مشرف کا پولنگ ایجنٹ بنا تھا۔ دوسرا موقع تب آیا جب کپتان نے پرویز مشرف سے کچھ سیٹیں ڈیمانڈ کی تھیں۔ تیسرا موقع اس وقت آیا جب کپتان نے کسی کے کہنے پر دنیا کا سب سے ”بڑا“ لانگ مارچ کیا اور دھرنا دیا جس میں وہ کھانا بھی ”سسٹم“ کی طرف سے آتا تھا۔لوگ کسی کو چوراہے میں ذلیل کیا کرتے ہیں لیکن کپتان نے کئی مہینے سسٹم کو ڈی چوک میں ننگا کیے رکھا۔ یہیں پر کپتان نے ”ایمپائر کی انگلی اٹھنے والی ہے“ کا شہرہ آفاق نعرہ لگایا جس نے ایک بار پھر سسٹم کو ننگا کیا۔ وہ ہر روز یہ نعرہ لگاتے، ڈی جے اس نعرے پر میوزک کا تڑکا لگاتا، نونہالیان انقلاب ڈانس کرتیں اور سسٹم سازوں کے بیچ ننگا ہوتا رہتا۔ایک دن اچانک کپتا ن نے سسٹم کو ننگا دیکھنے والے متمنی حضرات کو یہ پیغام دیا کہ مجھے پیغام مل گیا ہے کہ سڑکوں پر ذلیل ہونے کی بجائے ہمارے پاس آؤ۔ یوں تحریک انصاف کو انصاف مل گیا اور ننگا سسٹم ایک بار پھر ننگا ہو گیاحالانکہ کپتان کچھ عرصہ پہلے یہ کہہ کر سسٹم کو پہلے ہی ننگا کر چکا تھا کہ ہمارا اپنا جج آنے والا ہے جس کے بعد سب ٹھیک ہو جائے گا۔ یوں وہ ”اپنا“ آ گیا اورپاکستان ”بیگانہ“ ہوگیا۔ اس سے پہلے کپتان لاہور جلسے میں لفٹ سے گرچکا تھا اور جب الیکشن کے نتائج آئے تو وہ بستر پر فراش تھا۔ کپتان نے اٹھائیس سیٹیں جیتی تھیں اور جب اس نے یہ کہا کہ مجھے تو اتنی بھی امید نہیں تھی تو سسٹم بیچارہ ننگا ہو گیا تھا۔2018 ء کا یاد گار معرکہ تو سب کو یاد ہو گا۔ آر ٹی ایس نے جب کپتان کو آئینہ دکھانا شروع کیا تو معلوم ہوا کہ اس بار سیٹوں کی تعداد شاید ہی بیس سے بڑھ سکے تو کپتان نے سسٹم کے کپڑے اتارے، اسے وہاں بھیجا جہاں پردوں میں چھپا آر ٹی ایس کام کر رہا تھا۔ سسٹم وہاں پہنچا اور اس کا ”انجن“ ہی فیل کر دیا۔ اس دن سسٹم خوب کھل کر ننگا ہوا تھا اور دنیا حیران تھی کہ اتنے مضبوط سسٹم کو کس نے اور کیونکر ننگا کیا ہے؟ جب اس سوال کا جواب تلاش کیا گیا تو جواب آیا: کپتان!۔ کپتان نے جہاز وں کے جہاز بھر بھر کر کچھ لوگوں کے گلوں میں پٹے ڈالے اور سسٹم کو لائیو ننگا کرنا شروع کر دیا۔ آج فارم سینتالیس کا رونا رونے والے کپتان نے اس شام سسٹم کو ایسا ننگا کیا کہ سادے کاغذ پر سسٹم اپنے آڑے ترچھے نشان چھوڑ کر اپنا ستر  چھپانے کے لیے کونے کھدرے تلاش کرنے لگا۔ 

اور پھر وہ دن بھی آیا کہ جب سسٹم کو ایسا ننگا کیا کہ اس کا ایک ایک انگ پوری دنیا کو ازبر ہو گیا۔ یہ موقع تھا سینٹ الیکشن کا۔ ہاتھ کھڑے کرائے گئے تو اپوزیشن کا پلڑا بھاری تھا لیکن جب ووٹ کرائے گئے تو اگرچہ کپتان کے کھلاڑی ایک تہائی تھے لیکن وہ سسٹم کو ننگا کرتے ہوئے اپنے سے دوگنی برتری والوں سے بھاری مارجن سے جیت گئے۔ کپتان نے اس دن بھی سسٹم کو ایک گراؤنڈ میں ننگا کر دیا تھا جب وہ ایک جج کے کمرے سے نکل رہا تھا۔ واٹس ایپ کال پر بنی ایک جے آئی ٹی کے ذریعے نے کپتان نے سسٹم کو ننگا کیا تھا۔اگر کپتان چاہتا تو چوروں کو لٹکاکر اپنے انتخابی نعرے کا پاس رکھ سکتا تھا لیکن اس نے ان کے گلے میں پٹے ڈال کر انھیں اپنے گلے کا ہار بنا کر سسٹم کو ننگا کرنا بہتر سمجھا۔اگر کپتان چاہتا تو ڈسکے میں ہونے والے الیکشن میں عوام کی مرضی کے سامنے سر تسلیم خم کر کے سرخرو ہو سکتا تھا لیکن اس نے آر اوز کو اغوا کرا کے سسٹم کو ننگا کرنا زیادہ مناسب سمجھا۔ اگر کپتان چاہتا تو اپنے ایک ”ماتحت“کو کرپشن کی سٹوری آنے پر تحقیق کرا کر سسٹم کو تحفظ دے سکتا تھا لیکن اس نے کلین چٹ دے کر سسٹم کو ننگا کرنا ہی بہتر سمجھا۔ سونے ہاروں اور ہیرے کی انگوٹھیوں کی کہانیاں سنانے پر کپتان عدل کا باپ بھی بن سکتا تھا لیکن اس نے تقاضوں کو ٹھینگا دکھایا، مذکورہ افسر کا تبادلہ کروا دیا اور سسٹم کو ننگا کر دیا۔ 

وہ تاریخی دن تو پاکستان کی تاریخ میں سنہری لفظوں سے رقم کیا جائے گا جب کپتان نے اعلی منصب پر بیٹھے ایک ”انصافیے“ سے ویلکم ٹو سی یوکی ڈھولک بجوا کر سسٹم کو ننگا کیا تھا۔بہت سی باتیں ہیں لیکن آخری بات کرتے ہیں کہ ابھی کچھ دن پہلے کپتان نے ”اوپن“ خط لکھ کر ایک بار پھر سسٹم کو ننگا کرنے کی کوشش کی لیکن اس بار سسٹم نے خط کا جواب دے کر خود ننگا ہونے کی بجائے جواب نہ دے کر ایک پردہ پوش کو ہی ننگا کر دیا۔ تو پھر میں کیوں نہ کہوں کہ کپتان نے سسٹم کو ننگا کر دیا ہے؟

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *