کیا پاکستان ‘امن’ کے لئے بڑے میدان میں واپس آ گیا ہے؟
سعودی عرب کی جانب سے اکثر و بیشتر یہ کہنا کہ پاکستان ایک اسلامی برادر ملک ہے ایک بے معنی سا اور رسمی سا سفارتی جملہ ہے۔ لیکن پاک بحریہ نے ‘امن مشقوں’ کے انعقاد سے تعلقات میں ایک فرق پیدا کیا ہے۔ اسلام آباد میں سعودی ملٹری اتاشی بریگیڈیئر (اسٹاف) بندر حماد ایس الحکوبانی نے ایک ویڈیو پیغام میں کہا کہ “مشق امن بحری تعاون کو بڑھانے اور مشترکہ چیلنجز سے نمٹنے کی ایک اہم کثیر القومی کوشش ہے”۔ یہ بات یہاں ختم نہیں ہوتی. انہوں نے مزید کہا کہ “شاہی سعودی بحریہ کو ان مشقوں میں شرکت پہ فخر ہے جو میری ٹائم سیکیورٹی کے حوالے سے ہمارے عزم کی عکاسی کرتا ہے۔ ہم اس کے اہداف کے حصول اور تمام شرکاء کے ساتھ مضبوط تعلقات کو فروغ دینے کے منتظر ہیں۔” صدر پرویز مشرف نے 2007ء میں میری ٹائم مشقوں کے انعقاد کا آغاز کیا اور انہیں ‘امن’ کا عنوان دیا۔ یہ مشقیں ہر دو سال میں ایک بار منعقد کی جاتی ہیں۔اس حقیقت کو کم ہی لوگ جانتے ہیں کہ صدر مشرف بہت زیادہ بیرونی دوروں پہ جاتے تھے۔ انہوں نے بیرونی ممالک کے دوروں پر ایک ارب روپے سے زیادہ رقم خرچ کی تھی۔ اس سے بھی کم لوگوں کو یہ معلوم ہے کہ سعودی عرب وہ ملک ہے جہاں انہوں نے 2003ء سے 2008 ء تک سب سے زیادہ دورے کئے جن کی تعداد 8 ہے۔ یعنی ایک سال میں تقریباً دو دورے۔کیا ہم ان دوروں کو مضبوط تعلقات کی پہچان سمجھ سکتے ہیں؟ شاید ہاں۔لیکن یہ بات کسی شک و شبہے سے بالا تر ہے کہ اس وقت پاکستان کو طویل عرصے کے بعد بڑے کھیل میں واپس ڈال دیا گیا تھا۔ اتحادی بنائے گئے تھے۔ یہ لاقانونیت سمندروں کے پانیوں پہ بھی پھیلی ہوئی ہے۔ امن مشقوں کا مطلب شمالی بحیرہ عرب میں امن کا پیغام پہنچانا ہے۔ ان مشقوں میں اگرچہ بحری جہازوں کی نمائش کا اہتمام کیا جاتا ہے ، لیکن ان مشقوں میں پاک بحریہ سمندر میں غیر ریاستی عناصر کے خطرات سے نمٹنے کے لئے مکالمے اور سفارت کاری پر توجہ مرکوز کرتی ہے۔ اس سال کا نعرہ ‘امن کے لیے اکٹھے’ تھا۔ اتحاد کا موضوع یہ سمجھنے کے لئے ضروری ہے کہ ایک واحد قوم اکیلے دہشت گردی، اسمگلنگ اور قزاقی جیسے چیلنجوں سے نہیں نمٹ سکتی۔ یہ ایک اجتماعی ذمہ داری ہے اور ہر کسی کو اسے اٹھانا ہوگا۔ اس مشق میں خطے کے 60 ممالک کے نمائندوں نے شرکت کی اور سائیڈ لائنز پر مکالمے بھی ہوئے۔ دیگر شرکاء کے علاؤہ وفاقی وزیر پروفیسر احسن اقبال نے بھی شرکت کی۔ کچھ دن پہلے وہ آکسفورڈ یونیورسٹی میں اسلاموفوبیا پہ ایک مکالمے میں بھی شریک تھے۔ یہ بات یقیناً ان کے علم میں ہے کہ اسلامو فوبیا یورپ اور مغرب میں مسلمانوں کے خلاف انتہا پسندی اور نفرت کا ماحول بناتا ہے۔ لیکن اگر ہم اس نفرت کا پرچار پاکستان میں عام کریں تو یہ یہاں یورپ اور امریکہ کے خلاف نفرت اور انتہا پسندی کا بازار گرم ہو جائے گا۔ ہم یہ کہ سکتے ہیں کہ پروفیسر احسن اقبال ان امن مشقوں کو ایک نئی منزل سے ہم کنار کرنے کیلئے کوشاں ہوں گے کیونکہ پر امن سمندر سی پیک کیلئے بھی بہت اہم ہیں۔ ہم کہہ سکتے ہیں کہ یہ ایک عظیم بحری اور سفارتی اتحاد تھا، جس پر سعودی ملٹری اتاشی کو فخر تھا۔ دریں اثنا ریاض میں منگل (11 فروری) کو امریکی صدر ڈونلڈ جے ٹرمپ کی جانب سے حماس کو دھمکی آمیز انتباہ کے بعد ایک بڑے اتحاد کے بارے میں بات چیت میں اچانک اضافہ دیکھنے میں آیا۔حماس نے واشنگٹن میں ٹرمپ اور اسرائیلی وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو کی پریس کانفرنس کے چند روز بعد اسرائیلی یرغمالیوں کی رہائی روک دی تھی۔ اس کانفرنس میں ٹرمپ نے کہا تھا کہ غزہ کے باشندوں کو مصر اور اردن منتقل کیا جائے تاکہ وہ غزہ میں خوبصورت عمارتیں تعمیر کرسکیں۔ اس کانفرنس کے محض 20 منٹ بعد سعودی عرب وہ پہلا ملک بن گیا جس نے امریکی صدر کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ سعودی عرب ‘ایک آزاد فلسطینی ریاست کے قیام کے لیے اپنی انتھک کوششیں جاری رکھے گا۔ یہ غیر متزلزل موقف سمجھوتے کے تابع نہیں ہے۔’پاکستان نے بھی ٹرمپ کے اس منصوبے پر اعتراضات اٹھانے میں سعودی عرب اور دیگر خلیجی ممالک کی پیروی کی۔اس کے بعد نیتن یاہو نے یہ کہ کر کہ سعودی عرب کو فلسطینیوں کی میزبانی کرنی چاہیے کیونکہ اس کے پاس وسیع صحرا اور خالی زمین ہے حالات کی سنگینی کو بڑھا دیا۔ یہ ایک بہت ہی خطرناک صورتحال ہے۔یہ واضح ہے کہ سعودی عرب ٹرمپ اور نیتن یاہو کی جوڑی کو غزہ کے باقی ماندہ علاقوں کو تباہ کرنے سے روکنے کے لیے سفارتی ذرائع استعمال کرے گا۔ مملکت بڑے کاروباری اور سفارتی اتحاد بنانے کا ٹریک ریکارڈ رکھتی ہے۔ساتھ ہی ساتھ پاک بحریہ نے بھی بڑا شو منعقد کرنے اور سفارتکاری اور مکالمے کو فروغ دینے کے لئے اپنی طاقت کا مظاہرہ کیا ہے۔ امن مشق میں پاکستان کی جانب سے امن کی کال جاری کی گئی ہے۔ اور سعودی عرب کو اس پر “فخر” ہے۔تل ابیب سے جنگ کی کال دی جاتی ہے۔ اسرائیلی وزیر دفاع نے عبرانی میں کہا ہے کہ سال 2025 بھی جنگ کا سال رہے گا۔ سعودی عرب نے اس کی مذمت کی ہے۔کیا ہم اس صورتحال میں یہ کہہ سکتے ہیں کہ ان امن مشقوں کے بعد پاکستان ایک بار پھر بڑے میدان میں واپس آ گیا ہے؟اگر ہاں، تو ایک فرق ہے. مشرف اب نہیں رہے۔ نہ تو مملکت اور نہ ہی پاکستان کو اب کسی جنگ میں دلچسپی ہے۔ لیکن اگر پاکستان واپس بڑے میدان آ جاتا ہے تو یہ جان لیا جائے کہ پاکستان نے امن قائم رکھنے کے لیے اپنا کردار ادا کرنے کی قابلیت ثابت کر دی ہے۔