کیا تحریک انصاف کی بساط لپیٹی جا رہی ہے؟
پاکستان تحریک انصاف کی صفوں میں باہمی اختلافات کا آغاز اگرچہ اس کی ابتدا سے ہی میں سامنے آنے لگا تھا لیکن جب سے بانی پی-ٹی-آئی جیل گئے ہیں اور یہ انتشار اس لئے وائرل کی شکل اختیار کر گیا ہے کیونکہ عمران خان ملک میں نظریئہ انتشار کے تحت ریاست سے نفرت اور بغاوت پھیلانے پر یقین رکھتے ہیں جس کے اثرات ان کے اپنے گھر میں داخل ہو چکے ہیں، لوگوں کی اولاد کو تباہ کر نے والا اپنی اولاد کو تباہی سے کیسے بچا سکتا ہے؟ گندی گالی کی سیاست متعارف کرانے والا خود گالی سے کیسے محفوظ رہ سکتا ہے؟ جس ’’رہنما‘‘ میں اس قدر قابل تقلید’’خوبیاں‘‘ ہوں اس کے نقش قدم پر چلنے والے اپنے’’رہنما‘‘ کے نقش پا ڈھونڈ کر تباہی کے دہانے تک اس کے پیچھے چلنے کی کوشش کرتے ہیں اور یوتھیوں نے اپنے’’رہنما‘‘ کے حکم بجا لانے کے لئے ملک کو تباہی کے گڈھوں میں پھینکنے میں کوئی کثر نہیں چھوڑی یہاں تک کہ پورا معاشرہ ان کی بدتہذیبی اور گمراہی کی لپیٹ میںآگیا۔اب حالات ایسے ہیں کہ پی ٹی آئی میں کارکن کم اور لیڈر بہت زیادہ ہیں جو پارٹی میں انتشار اور باہمی نفرت کا سبب ہے۔گزشتہ روز اطلاع آئی کہ پارٹی کے دو بڑے رہنماؤں فواد چوہدری اور شعیب شاہین کے درمیان شدید تصادم ہوگیا جب دونوں عمران خان سے ملاقات کیلئے ا ڈیالہ جیل پہنچے تھے۔دونوں جیل کے گیٹ سے جیل میں داخل ہوئے اور آمنا سامنا ہونے پر فواد چوہدری نے شعیب شاہین سے بلند آواز میں دریافت کیا کہ’’تم نے مجھے ٹاؤٹ کیوں کہا تھا؟‘‘ اس کے ساتھ ہی فواد چوہدری نے شدید گالی گلوچ کے دوران زوردار تھپڑ جڑ دیا جس کے نتیجے میں شعیب شاہیں زمیں پر گر گئے اور ان کے بازو پر شدید چوٹ آئی تاہم دونوں کے درمیان ننگی گالیوں کا تبادلہ ہوا جو فواد چوہدری کے جیل کے اندر جانے تک جاری رہا۔ فواد چوہدری جب عمران خان سے ملاقات کر کے باہر نکلے تو وہاں موجود صحافیوں کی جانب سے اس جھگڑے کے بارے میں دریافت کرنے پر فواد چوہدری نے کہا کہ انہوں نے عمران خان کے حکم پر شعیب شاہین کے ساتھ اختلاف اور تنازع ختم کر دیا ہے لیکن شعیب شاہین نے جیل سے باہر آنے پر فواد چوہدری کے مؤقف کی تردید کرتے ہوئے کہا بانی نے اس قسم کی کوئی بات نہیں کی اور وہ فواد چوہدری اپنی توہین کا بدلہ ان تھپڑوں کے جواب کی صورت میں لیں گے۔ اس کے چند روز قبل فواد چوہدری کے بھائی فیصل چوہدری نے بھی اسی مقام پر جیل میں جانے سے روکنے پر کوئی شرمساری محسوس کیے بغیر شدید گالی گلوچ کی جس کی وڈیو وائرل ہو گئی جو پارٹی کیلئے انتہائی شرمندگی کا باعث بنی۔ تحریک انصاف کی صفوں میں انتشار کا انجام پارٹی کا شیرازہ بکھرنے کے علاوہ پارٹی کے چھوٹے چھوٹے حصوں میں تقسیم کی صورت میں ہو سکتا ہے کیونکہ معروضی حالات میں اس تاثر کو تقویت ملتی ہے پارٹی میں کارکنوں سے زیادہ لیڈروں کی موجودگی ہمیشہ پارٹی کی تباہی کا سبب بنتی ہے جس کا آغاز موجودہ حالات کی طرح پارٹی میں ڈسپلن کی خلاف ورزیوں سے ہوتا ہے اور گروپوں میں تقسیم ہونے پر منتج ہوتی ہے۔سچ بولنے اور پارٹی کی برائیوں پر تنقید برائے اصلاح پر یقین رکھنے والے شیرافضل مروت کو توہین آمیز انداز میں پارٹی سے نکالنے جانے کے عمل سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ بانی پی-ٹی-آئی مطلق العنانیت اور آمرانہ انداز سیاست پر یقین رکھتے ہیں اور تنقید کو برائے اصلاح تصور کرکے برداشت کرنے کی بجائے دشمنی خیال کرتے ہیں اور تنقید کرنے والے کو نیست نابود کرنے پر یقین رکھتے ہیں جس کی انگنت مثالیں بانی کے سیاسی افق پر پھیلی دیکھی جا سکتی ہیں۔اس سارے عمل کے پہلے مرحلے پر پارٹی میں موجود کچھ سنجیدہ سیاستدانوں نے عمران خان کی غیرسنجیدہ اور ریاست دشمن سیاست کو بھانپتے ہوئے پارٹی کو عزت کے ساتھ چھوڑنے کا فیصلہ کیا اور اعلانیہ یا خاموشی کے ساتھ پارٹی سے کنارہ کش ہو گئے جبکہ دوسرے مرحلے میں پارٹی میں شامل بعض صف اول کے سیاستدان خاموشی اختیار کرتے ہوئے منظر سے غائب ہوگئے۔جبکہ تیسرے مرحلے پر تنقید کرنے یا بانی کے احکامات کو نظرانداز کرنے والوں والے پارٹی رہنماؤں کو پارٹی سے علیحدہ کرنے کا فیصلہ نے پارٹی کو پارہ پارہ کرنے کے تابوت میں آخری کیل ثابت ہو سکتا ہے کیونکہ شیر افضل مروت کے بعد صف اول کے درجنوں رہنما عمران خان کے نشانے پر ہیں جنہیں اظہار وجوہ کے نوٹسز جاری کرنے کا سلسلہ شروع کیا جاچکا ہے جس کا انجام قابل رشک ہرگز دکھائی نہیں دیتا۔